گلاب لمحوں کے مخمل پر کھیلتے بچپن، پلٹ کر آ۔۔کہ تجھ سے شرارتیں مانگوں



یوں تو ہر دور کے بچوں کا بچپن تقریباً یکساں ہی گزرتا ہے۔ مگر آج سے دو عشرے قبل کے بچے زیادہ معصوم ہوا کرتے تھے۔ خیر بچے تو ہر دور میں ہی معصوم ہوتے ہیں۔ مگر اس وقت موبائل فونز اور طرح طرح کی ڈیوائسوں کا عفریت گھروں میں داخل نہیں ہوا تھا۔ اس وقت کے بچوں کے پاس کہانیاں سنانے والی نانی اور دادی ہوا کرتی تھیں۔ اور ہمارے گھر بھی ایک میگزین آیا کرتا تھا جس میں بچوں کے لیے کہانیاں ہوا کرتی تھی وہ بہت شوق سے پڑھا کرتے تھے۔

ہر دور کے رہنے والوں کو اپنا زمانہ اپنے زمانے کے لوگ، کھیلیں اور جو بھی اس دور میں عام طور پر رائج ہوتا تھا وہی اچھا لگتا ہے۔ آپ اپنے باپ دادا سے پوچھتے ہیں تو وہ کہیں گے کہ ہمارا دور بھلا تھا، اور وہ اپنا دور یاد کرتے وقت یہی کہیں گے کہ بھلے وقتوں کی بات ہے۔ اب اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آنے والا دور پچھلے دور سے مختلف ہوتا ہے کیونکہ تبدیلی فطرت کا اصول بھی ہے۔

اب میں اور میرے جیسے بہت سے لوگ جو نوے کی دہائی یا اس سے پہلے کی پیداوار ہیں انہیں وہی زمانہ یاد آئے گا اور بہتر لگے گا۔ اور مجھے بھی بالکل ایسا لگتا ہے شاید یہی سب سے بہتر دن تھے۔ جب گرمیوں کی بارش میں منہ پر کوئلہ لگا کر بس بھاگتے رہنا، پھر مٹی والی اونچی جگہ پر جا کر سلائڈز لینا، گھروں کی چھتوں سے بہنے والے پانی سے پھر اپنے جسم کو دھونا، گلی کے درمیان پانی تالاب کا منظر پیش کرتا تھا جس میں نالیوں کا پانی بھی ہوتا تھا مگر کبھی نہانے سے باز نہیں آئے۔

گرمیوں کی چھٹیوں میں اکثر ماموں یا ماسی کے گھر جانا اس دور کے اکثر لوگوں کا معمول ہوا کرتا تھا۔ جو آج کل بالکل کم ہو گیا ہے۔ وہاں مہینوں رہنا اور اپنے کزنوں کے ساتھ کھیلنا اور نانی سے کہانیاں سننا سب کا معمول ہوا کرتا تھا۔ ٹیلی ویژن تو آ گیا تھا مگر دیکھنے کی اجازت کم ملتی تھی۔ صبح کارٹون اور رات آٹھ بجے والا ڈرامہ اور پھر نو بجے کا خبر نامہ اکٹھے ہی سنا جاتا تھا۔ ڈرامے بھی نصیحت آموز ہوا کرتے تھے جو فیملی کے ساتھ بیٹھ کر با آسانی دیکھے جا سکتے تھے۔

یہ ایسا دور تھا جس میں پریکٹیکل کھیلیں زیادہ ہوا کرتی تھی۔ کرکٹ، فٹ بال، ہاکی اور مختلف کھیلیں تھی۔ جبکہ رات کو اکثر یہی دعا ہوتی تھی کہ بجلی جائے اور باہر جاکر کھیلنے کا موقع ملے۔ اور تب پڑھائی سے زیادہ وقت کھیل کود میں لگایا جاتا تھا۔ مٹی میں کھیلتے تھے بارش میں نہاتے تھے، گرمیوں میں اے سی وغیرہ تو کسی کسی کے گھر ہوتا تھا۔ لیکن پھر بھی بہت کم بیمار پڑتے تھے۔ آئرن، کیلشیم، یا دوسرے وٹامن کی کمی کیا ہوتی پتا بھی نہیں تھا۔

بچپن انسان کی زندگی کا واحد حسین دور ہوتا ہے اور تقریباً سب ہی اپنے بھولپن، شرارتوں، اور بے فکری کے اس زمانے کو یاد کرتے ہیں ہم اپنے بچپن کی یادوں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ وہ کہیں نہ کہیں ہمارے لاشعور میں موجود ہوتی ہیں۔ ہاں یہ زندگی کی پریشانیوں اور مصروفیات میں دھندلا ضرور جاتی ہیں لیکن ختم نہیں ہوتیں۔ جب بچے تھے تو دعا کیا کرتے تھے کہ کاش جلدی سے بڑے ہو جائیں اور آج جب بڑے ہو گئے ہیں تو دہائیاں دیتے پھرتے ہیں کہ پھر سے وہ دن لوٹ آئیں۔

انسان کو گزرا ہوا وقت ہمیشہ یاد آتا ہے اور جیسا بھی گزرا ہو اچھا ہی لگتا ہے اور بچپن تو پھر بچپن تھا۔ جب کسی چیز کی فکر ہی نہیں ہوا کرتی تھی۔ باقی چیزیں ایک طرف مگر بچپن کی سب سے بڑی نعمت جو شاید اب کبھی نصیب ہو وہ ذہنی سکون تھا۔ جب چھوٹی چھوٹی چیزوں میں خوشی نظر آتی تھی۔ بڑے ہونے کی لگن اور کامیاب ہونے کی جدوجہد میں ذہنی سکون کہیں کھو گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).