ڈاکٹر عبداقادر شمس قاسمی، ایک شمع اور بجھی اور بڑھی تاریکی


ملک کے مشہور ومعروف صحافی ڈاکٹر عبدالقادر قاسمی شمس صاحب موذی مرض کورونا کو مات نہیں دے سکے۔ اور وہ غیر متوقع طور پہ ہمارے درمیان سے رخصت ہو گئے ہیں۔ آج دوپہر دلی کے مجیدیہ اسپتال میں علاج کے دوران ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ وہ گزشتہ ایک ہفتہ سے کورونا وائرس سے جنگ لڑرہے تھے۔ مگر جانبر نہ ہو سکے۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔ دور ناگہانی اور قحط الرجال کے زمانہ میں آپ کی شخصیت پیکرخلوص ومحبت اور جہدمسلسل کا تھا ایک بڑے میڈیا گھرانا سے وابستگی کے باوجود قوم وملت کے لئے کچھ کر گزرنے کی تڑپ اور لگن جو آپ میں تھی اس کی مثال شاذونادر ہی ملتی ہے۔

ڈاکٹر عبدالقادر شمس کی ناگہانی موت یقیناً عظیم اور ناقابل تلافی خسارہ ہے۔ جس کی بھرپائی مستقبل قریب میں ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ جملہ محض کہنے بھر نہیں ہے واقعی وہ ایک جری، بے باک اور صاحب طرز صحافی کے ساتھ ساتھ علمی، دینی وملی اور سماجی خدمت گار تھے۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی میں سماج کے لئے بیش بہا خدمات انجام دیں۔ سال 1989 میں ازہر ہند دارالعلوم دیوبند سے فضیلت یافتہ ہونے کے بعد انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز اپنے وطن ارریہ کے ککڑوا گورنمنٹ مڈل اسکول میں پرائیویٹ مدرسی سے کیا تھا۔

اس دوران انہوں نے اسکولنگ کے اپنے ادھورے تعلیم کے خواب کو بھی پورا کیا۔ اور ملیہ کالج ارریہ سے انٹرمیڈیٹ، گریجویشن کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پی جی اور اسلامک اسٹڈیز میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے سرفراز ہوئے۔ ہمہ وقت کچھ نہ کچھ کیے جانے کی دھن اور لگن کا ہی نتیجہ تھا کہ وقت کے مایۂ ناز فقیہ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نوراللہ مرقدہ کی پارکھی نظر نے ان کے اندر مخفی جوہر اور صلاحتیوں کو پہچان لیا اور انہیں اپنے ساتھ لگالیا۔

چونکہ قاضی مجاہد الاسلام رحمتہ اللہ علیہ کو یقین کامل تھا عبدالقادر پیران پیر عبدالقادر جیلانی نہیں تو عبدالقادر شمس ضرور بنیں گے جو مستقبل میں مسلم امہ اور سماج کے نافع اور مرجع خلائق ہوں گے۔ ایسا ہی ہوا قاضی مجاہد الاسلام صاحب کے حیات میں ہی عبدالقادر صاحب نے اپنی صلاحیت اور محنت کے بل بوتے پہ آل انڈیا ملی کونسل کے ضلع سے لے کر بہار اور جھارکھنڈ کے آرگنائزر تک کا سفر طے۔ کیا بہار اور جھارکھنڈ میں کئی ایک اہم اور نہایت مفید نوعیت کے تقریب میں تندہی کے ساتھ اپنے فرائض منصبی کو پورا کیا۔

قاضی صاحب کا فیضان نظر تھا کہ وطن عزیز بھارت کے گمنام اور حاشیائی خطہ سیمانچل کے ارریہ کا ایک ہونہار سپوت نوعمر عالم دین نے پھر کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ بڑھے اور بڑھتے ہی چلے گئے ترقی کی مزلیں طے کیں، صعوبتوں کو مات دیا اور ملک کے ایک بڑے میڈیا گھرانا سے وابستہ ہو گئے جہاں انہوں نے سب ایڈیٹر اور کالم نگار حیثیت سے کم و وبیش دو دہائی تک قندیل حق کو روشن کیا۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا میں منظر وپس منظر کے نام سے شائع ہونے والے اپنے ہفتہ وار کالم میں مختلف اہم موضوعات پہ بے طرح لکھتے رہے مسائل کے انبار والے اس دیس میں لکھنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے مگر جیسا لکھا جانا چاہیے یا جن موضوعات پہ قلم اٹھانے کی ضرورت ہے اس سے بہت سے اصحاب قلم دانستہ یا غیردانستہ طور پہ گریز کرتے ہیں۔

حالانکہ خون دل میں ڈبولی ہے انگلیاں میں نے کے مصداق ایک بڑی تعداد صاحب قرطاس و قلم کی ایسی بھی ہے کہ وہ جان ہتھیلی پہ رکھ کے سچ اور حق کہنے کی جرات رندانہ کے خوگر ہیں۔ اسی قبیل کے ڈاکٹر عبدالقادر شمس بھے تھے جو ہرحال میں اپنی صحافتی دیانتداری کو نبھانا فرض عین سمجھتے تھے زبان و بیان کی خداداد صلاحیت کے مالک ڈاکٹر عبدالقادر اپنے کالم میں محض دینی وملی، سماجی اور سیاسی موضوعات پہ خامہ فرسائی نہیں کرتے تھے بلکہ وہ قومی و بین الاقوامی موضوعات پہ بھی بے لاگ لپیٹ لکھاکرتے تھے جس میں حکومت وقت کے لئے رہنمائی اور روشنی کی ایک کرن ہوتی تھی ابھی سال رواں میں چین کے ایغور مسلمانوں پہ حکومتی جبرو تشدد کے خلاف انہوں نے ایغور مسلمان، حال اور مستقبل کے عنوان سے قسط وار لکھا جس میں چین کے ایغور باشندوں پہ ہونے والے مظالم کی داستان خونچکا سنایا گیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ”چین کے سنگیانگ خطہ میں آباد بے یارومدگار مسلمانوں پر مقامی انتظامیہ کے ظلم وستم کا قصہ تو کافی پرانا ہے۔ مگر فی زمانہ ان کی عزت وعفت کی نیلامی کی ایک مہم چلائی گئی ہے جس کے تحت وہاں کی مسلم خواتین کو چائنیز سے خاندانی منصوبہ بندی کے شرط کے ساتھ شادی کروائی جاتی ہے اور مختلف طریقوں سے ایذا رسانی کی جاتی ہے“

ڈاکٹر عبدالقادر شمس کی ایک خوبی جو انہیں دیگر ہمعصر صحافیوں اور شخصیات سے ممتاز کرتی تھی وہ تھی ان کی اکابرین امت کے ساتھ والہانہ لگاؤ اور اپنے چھوٹوں کے ساتھ محبت و شفقت کا جذبہ جس سے وہ ہردل عزیز تھے سفر میں حضر میں غرض کہ ہمہ وقت متحرک و فعال رہنے والے البیلے شخصیت کی ہربات جدا تھی قول و فعل میں کوئی تضاد نہ تھا جب کوئی باف کہنی ہو تو نہایت نرم اور دھیمے لہجہ میں متانت اور سنجیدگی کے ساتھ کہتے تھے۔

بیک وقت وہ ایک صحافی، مصنف، مرتب اور منتظم تھے اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود اعتدال کی راہ سے کبھی نہیں بھٹکے ڈاکٹر عبدالقادر شمس کی اکابر پرستی اور ان کے کارناموں کے ذکرجمیل کی مثال ان کی ترتیبی و تصنیفی کتب ”چند نامور علماء، عبداللہ العلی المطوع اور علماء و دانشوران اور سیاسی قائدین کی خدمات پر مضامین کا مجموعہ“ جن سے روشن ہے کائنات ”شامل ہے ڈاکٹر عبدالقادر شمس کی شخصیت عموماً ملک و ملت خصوصاً جائے وطن سیمانچل کے لئے کسی سایہ دار شجر سے کم نہ تھی ان کا قیام دہلی ہوتا تھا مگر ہرلحظہ وہ اپنے آبائی وطن کے لئے بے کل رہتے تھے علاقے کی زبوں حالی کو دور کرنے کے لئے وہ سو سو جتن کرتے نہیں تھکتے تھے کبھی مشاورتی میٹنگ میں لوگوں کو دعوت عمل دے رہے ہیں تو کبھی عملی اقدامات کے لئے نوجوانوں کو ترغیب دلارہے ہیں غرض کہ ایک دھن اور لگن تھی کہ علاقہ کو رشک ماہتاب کرنا ہے لوگوں کو اسکلڈ بنانا ہے، بچوں میں تعلیم عام کرنا ہے۔

انہوں نے وسائل کی پرواہ کیے بغیر تقریباً ڈیڑھ ایکڑ میں جامعہ دعوۃ القرآن ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ ڈوبا ارریہ کے تحت فیٹکی میں تعلیمی ادارہ کو قائم کیاہے جہاں تین سو بچے زیر تعلیم ہیں اسی طرح این سی پوایل کی مدد سے کمپیوٹر سینٹر اور علاج ومعالجہ کے ایک ہاسپیٹل بھی قائم کیا گیا ہے شمال مشرقی بہار کے بنجر زمین کے اس ہونہار کے اچانک رحلت سے ہما شما سب کا نقصان ہے ان کی پوری زندگی ملی اور رفاہی کاموں کے وقف تھی بلکہ ان کے سینے میں سارے جہاں کا درد تھا یہی وجہ تھی کہ وہ سماجی خدمات میں ہمیشہ پیش پیش رہے چند ایک سطور میں ان کی حیات و خدمات پہ سب کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔

عبدالقادر جیسی شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں جن کا ہرقدم انسانی خدمت اور قوم کی فلاح و بہبود کے لئے اٹھتا تھا۔ قلم کے دھنی اور کردار کے پختہ اس سیماب صفت شخصیت کی موت سے ذاتی نقصان بہتوں کا ہوا ہے۔ خسارہ ان کا بھی ہے۔ جو بے آسرا بیوائیں سال سال بھر اپنے آنکھوں کے موتیا بند کے آپریشن کے انتظار کرتی تھی۔ کہ ڈوبا والے مولانا آئیں گے تو آپریشن کروائیں گے۔ عبدالقادر کا انتظار ان بچوں کو بھی شدت سے ہوگا جن کے لیے وہ ہرسال ڈپلومہ کو رسیز کی ڈگریاں لاکر بانٹتے تھے، انہیں بھی اب عبدالقادر کی کمی کھلے گی جو ہرسال سردیوں کے موسم میں کمبل کے انتظار میں رہتے تھے مگر اے کاش!

موت سے کس کو رستگاری ہے!

ان کے انتقال سے قومی اور علاقائی سطح پہ جو ایک خلا پیدا ہوا ہے اس کی بھرپائی مشکل ہے کتنے نیک دل، چھل کپٹ سے پاک اہل دل تھے وہ اللہ اللہ! انتہائی ملنسار اور شفیق اور بدگمانی تو جیسے وہ جانتے ہی نہیں تھے ہمیشہ شفقت نچھاور کرنے والے عبدالقادر صاحب خوبیوں اور کمالات سے مالا مال تھے علاقہ کے لئے جس دردمندی کا وہ بارہا اظہار کرتے تھے ایسا آج تک میں نے کسی کو نہیں پایا۔ اکثر ہم سے وہ مستقبل کے پلان شیئر کرتے تھے اور خود مجھے بھی کچھ بہتر کرنے کے مفید مشوروں سے نوازتے رہتے تھے۔ ابھی آخری ملاقات ہماری ایک ڈیڑھ ماہ قبل ہوئی تھی ہشاش بشاش تھے مگر ہائے رے موت! سب کو آنی ہے، سب کو جان جان آفریں کہنا ہے۔ مگر اتنی جلدی آپ داعی اجل کو لبیک کہہ دیں گے یہ ناقابل یقین ہے بقول کیفی اعظمی

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).