محرم کلیکشن، حسین کے کاپی رائٹس اور ہم سب


سب نہیں لیکن بیشتر شیعہ ذاکرین خون حسین کو بیچتے ہیں۔ ڈاکٹر علی شریعتی نے کہا تھا کہ امام حسین کے اذکار عبادات فلسفے کو چھوڑ کر ان کے زخموں کو نمایاں کیا جاتا ہے۔ ان کی پیاس پہ روشنی ڈالی جاتی ہے۔

میری تربیت اس طرح ہوئی ہے کہ میں ہاتھ باندھ کر نماز بھی پڑھتا ہوں اور محرم میں گریہ بھی کرتا ہوں۔ غم حسین منانا، مجالس میں جانا، جلوس، علم، سبیلیں، یہ سب ہماری ثقافت و روایات کا حصہ بن چکی ہیں۔

اہل تشیع حضرات میں جس طرح اختلافات بڑھ رہے ہیں میں خوفزدہ ہوں کسی دن شیعہ ہی شیعہ کو ثواب سمجھ کر ماریں گے۔ محب اہل بیت کے لیے شیعہ سنی کی تخصیص نہیں ہوتی تھی۔ ہم جب بچپن میں مجالس میں شریک ہوتے تو مقرر میرے شیعہ سنی بھائیو کہہ کر مخاطب ہوتا تھا۔ سنی سبیلیں لگاتے، نذر نیاز لنگر کا اہتمام کرتے مگر پچھلے کچھ عرصے سے نامحسوس انداز میں شیعوں میں اختلافات بڑھ رہے ہیں مجالس میں سنی گھٹ رہے ہیں۔

محرم اب اک ایونٹ کے طور پہ کمرشلائز ہو چکا ہے۔ مختلف برانڈز محرم کلیکشن کے نام سے کالے لباس فروخت کرتے ہیں۔ اس بار لبیک یا حسین والے ماسک مارکیٹ میں آ چکے ہیں۔ ذاکرین دس دنوں کے لاکھوں روپے ڈیمانڈ کرتے ہیں گویا محرم کاروباری موقع کے طور پہ دیکھا جانے لگا ہے۔

یہ سب تب سے شروع ہوا جب ذاکرین نے پیسے دے کر مجالس میں بندے پلانٹ کرنا شروع کیے جو دھاڑیں مار مار کر رونے کی ایکٹنگ کر کے انویسٹر ذاکر کی مارکیٹ ویلیو بڑھاتے کہ فلاں ذاکر کیا غضب مصائب بیان کرتا ہے اور یوں ذاکر صاحب ڈیمانڈ میں آ جاتے اور ان کی ”فیس“ آسمان کو چھونے لگتی۔ (برادر رضوان، یہ رجحان اہل تسنن میں بھی پیدا ہوا ہے۔ عید میلاد النبیؐ اور دیگر مواقع پر نعت خواں حضرات کا معاوضہ اور تشہیری مہم دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ مدیر)

جو ذاکرین پیسے انویسٹ نہیں کر پائے انہوں نے سٹیج پہ بغض و حسد کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا۔ سوشل میڈیا پہ درجنوں ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں ذاکرین مائیک کے لیے لڑ رہے ہیں اک دوسرے کو شرابی اور زانی کہہ رہے ہیں۔

اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ فلسفہ شہادت حسین کہیں پیچھے رہ گیا اور پیسے نام مقام کی دوڑ شروع ہو گئی۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ حاضرین مجلس اس سب کو روکنے کی بجائے اس میں شامل ہو گئے ان کا مہروں کی طرح استعمال کیا گیا۔

ڈاکٹر طاہرالقادری فقہ جعفریہ سے منسلک نہیں ہیں مگر ان کی کتاب ”فلسفہ شہادت حسین“ کسی بھی خون حسین کے سوداگر ذاکر کی تقریر سے زیادہ اثر پذیری رکھتی ہے۔

میں جانتا ہوں کہ شیعہ حضرات مجالس کی سٹیج سے ہونے والی ہر بات کی نہ تو تائید کرتے ہیں نہ ہی پسند مگر چونکہ مقرر مصائب اچھے طریقے سے بیان کرتا ہے، رلاتا خوب ہے، اس لیے برداشت کرتے ہیں۔

اہل تشیع کو اب کھل کر سامنے آنا ہو گا اور ایسے عناصر کی مذمت کرنا ہو گی، ان کا بائیکاٹ کرنا ہو گا۔

ادھر غیر شیعہ افراد کا بغض بھی انتہاؤں پہ ہے۔ دیگر مسالک کے لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید امام حسین صرف شیعوں کے ہیں یعنی امام کے کاپی رائٹس صرف انہی کے پاس ہیں اور شاید اہل بیت اور صحابہ کرام دو الگ الگ پارٹیاں ہیں۔ اس لیے کبھی حضرت امام حسین کے ساتھ علیہ السلام لکھنے پہ اعتراض کریں گے کبھی کربلا کو حصول اقتدار کی جنگ قرار دیں گے۔

یہ اہل تشیع سے بغض میں اپنی عاقبت خوار کر رہے ہیں۔ سنیوں کے نزدیک امام کا درجہ رکھنے والے اسمعیل جنہوں نے حضرت علی کے نام کے ساتھ کرم اللہ وجہ لگایا، اک شاگرد کے سوال کے جواب میں بولے کہ مجھ پہ شیعہ ہونے کے تاثر کا ڈر نہ ہوتا تو میں کرم اللہ وجہ کی جگہ علیہ السلام لگاتا۔ علیہ السلام کے معترضین کو پتا بھی ہے کہ علیہ السلام کا کیا مطلب ہے؟

حضرت امام حسین کی فضیلت میں درجنوں احادیث شیعہ سنی کتب میں موجود ہیں۔ حسین پہ کسی کے کاپی رائٹس نہیں۔ حسین سب کے ہیں حتیٰ کہ ہندو و عیسائی تک حسین کو اپنا مانتے ہیں حسین مسلک و مذہب سے بالاتر ہو کر تمام انسانیت کے لیے مثال ہیں۔ یہاں بغض میں کچھ لوگ یزید کو رضی اللہ اور شہزادے کا لقب دیتے ہیں۔ ان جیسوں کے لیے طاہرالقادری صاحب کہتے ہیں کہ حسنین کریمین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اور جنت میں کوئی بوڑھا نہیں ہو گا گویا وہ جنت کے سردار ہیں۔ تو پھر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اسی جنت میں جنت کے سردار کا قاتل بھی موجود ہو۔ اہل بیت کا مرتبہ کسی کے بغض سے کم نہیں ہو جائے گا، بس وہ اپنی آخرت خراب کر بیٹھے گا۔

کوئی شیعہ، کوئی سنی، کوئی ہندو، کوئی مسیحی، کوئی ملحد کچھ بھی سوچے یا کہے، یزید ظالم تھا، حسین مظلوم ہیں۔ حسین حق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).