کم عمر اقلیتی لڑکیوں کی جبری تبدیلی مذہب اور قانون سازی



پاکستان میں جبری مذہب کی تبدیلی ایک اہم اور سنگین مسئلہ ہے جس کے متاثرین ہندو اور کرسچئین کمیونٹی کے لوگ ہیں۔ پاکستان خصوصاً سندھ میں نابالغ ہندو لڑکیوں کو اغوا کر کے ان کا زبردستی مذہب تبدیل کروانے کے بعد شادی کے نام پر جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال ایک ہزار سے زائد لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کر کے ان کی شادیاں کی جاتی ہیں۔

ایسے واقعات میں اکثر نابالغ لڑکیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کے اغوا کار پہلے سے ہی شادی شدہ اور بیوی بچے رکھتے ہیں۔

حیران کن طور پر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے مرد اس طرح اسلام قبول نہیں کرتے نہ ہی بڑی عمر کی بالغ عورتیں تو آخر ایک 12 یا 15 سال کی نابالغ لڑکی اپنے مذہب کو ترک کر کے کسی ادھیڑ عمر شخص سے شادی کا فیصلہ کیسے کر سکتی ہے۔ چاہے کوئی بھی مذہب ہو اپنی عمر کے ابتدائی پندرہ سے بیس سال انسان اس کی تعلیمات کو درست ہی خیال کرتا ہے اور یہ فیصلہ مشکل سے ہی کر سکتا ہے مجھے کوئی دوسرا مذہب اپنانا ہے یا مذاہب کی نفی کرنی ہے۔

پاکستان میں اس گھناؤنے جرم کے خلاف قانون سازی میں سب سے بڑی رکاوٹ شدت پسند مذہبی طبقہ ہے۔ نومبر 2016 میں سندھ اسمبلی نے جبری مذہب تبدیلی اور کم عمری کی شادیوں کے خلاف ایک بل پاس کیا تھا جس کے مطابق 18 سال سے کم عمر کسی بھی نابالغ کے مذہب تبدیلی کے فیصلے کو درست تسلیم نہیں کیا جائے گا اور شادی کی صورت میں جو شخص مذہب تبدیل کرے گا اسے عدالتی کاروائی مکمل ہونے تک مخصوص مدت تک شیلٹر ہوم میں رکھا جائے گا یہ ثابت ہونے پر کہ شادی کے ذریعے کسی کا مذہب تبدیل کیا گیا اس شادی کو منسوخ قرار دیا جائے گا اور اگر کوئی بالغ مذہب کی تبدیلی کا فیصلہ کرے گا تو اسے 21 روز تک پناہ گاہ میں رکھا جائے گا تا کہ یہ تعین ہو سکے کہ اس نے یہ فیصلہ کسی دباؤ کے بغیر کیا ہے۔

اس کے علاوہ بل میں فوجداری ضابطوں کے تحت سزائیں بھی تجویز کی گئی تھیں۔ اس بل کو سندھ اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کر لیا تھا لیکن کالعدم تنظیموں کی جانب سے اسٹینڈنگ کمیٹی کے اراکین کو جن میں تین وزراء بھی شامل تھے دھمکیاں دیں گئیں اور کالعدم جماعت الدعوۃ، جماعت اسلامی، جمیعت علمائے اسلام اور دوسری شدت پسند مسلکی اور مذہبی دہشتگرد تنظیموں نے احتجاج کیا اور وزیراعلی ہاؤس اور سندھ اسمبلی کا گھراؤ کرنے کی دھمکی دی جس پر حکومت نے وہ بل واپس لے لیا تھا۔ اس کے علاوہ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی حسب روایت اس بل کو غیر اسلامی قرار دیا تھا۔

25 اگست 2020 کو مسلم لیگ کے سینیٹر جاوید عباسی نے جبری مذہب کی تبدیلیوں کے خلاف ایک بل سینٹ میں پیش کیا ہے جس میں جرم ثابت ہونے پر سات سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی تجویز دی گئی ہے۔

اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے اس بل کے مسودے کے مطابق ریاستی اقلیتی برادری کے زبردستی مذہب تبدیلی کو روکنے کے لیے اقدامات کرے گی اور ایسا واقعہ رونما ہونے پر متاثرین کو سپورٹ کرے گی۔ بل میں کسی کو شادی کے لیے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کی صورت میں 10 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی تجویز دی گئی ہے۔

مزید یہ کہ کسی نابالغ کا مذہب تبدیل کرنے کے بعد کی گئی شادی زبردستی کی شادی شمار ہو گی اور بغیر کسی تاخیر کے فوری طور پر منسوخ قرار دی جائے گی۔

بل کے مسودے میں ریاست کی طرف سے اقلیتوں کو فراہم کیے جانے والے تحفظ میں اضافے کے لیے

غیر مسلم کمیونٹی کے کسی فرد کے خلاف نفرت انگیز تقریر یا بدسلوکی پر تین سال قید اور پچاس ہزار جرمانے اور نصابی کتب سے امتیازی چیپٹرز پر پابندی کی تجویز دی گئی۔

اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک میں ملوث پایا گیا تو اسے پچیس ہزار روپے جرمانے اور ایک سال قید کی تجویز دی گئی ہے۔

اور ریاست غیر مسلم پاکستانیوں کی مذہبی علامات کی بھی حفاظت کرے گی۔ بل کے مطابق یہ تمام سزائیں ناقابل ضمانت ہوں گی۔

اس بل کو سٹینڈنگ کمیٹی کو ریفر کر دیا گیا ہے اگر یہ بل پاس ہو جاتا ہے تو اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی جانب ایک بڑا قدم ہو گا اور ان کی ناگفتہ بہ حالت میں کمی کا باعث بنے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).