ان بارشوں سے دوستی۔۔۔


ثمرین میری بہت اچھی دوست ہے وہ بہت سال سے سرجانی ٹاؤن کراچی کے علاقے میں رہائش پذیر ہے۔ میری اس دوست کو بارشیں بہت پسند تھیں لیکن پچھلے کچھ برسوں سے اس کا بارشوں سے پسندیدگی کا رشتہ بہت حد تک ناپسندیدگی میں بدل چکا ہے۔ ثمرین کے بقول برسات شروع ہونے سے قبل وہ شدید ڈیپریشن کا شکار ہو جاتی ہے اور یہی حال اس کے گھر کے دوسرے افراد کا ہوتا ہے۔ میری اس دوست کی اس ناپسندیدگی کے پیچھے دو بڑے حادثات کا عمل دخل ہے۔

چند سال پہلے اس کا جواں سال بھائی بارش کے بعد کھڑے پانی کے اندر سے اپنی بائیک گزار رہا تھا۔ اس پانی میں چند بجلی کی تاریں ٹوٹ کر گر گئیں۔ جس سے پانی میں کرنٹ آ گیا اور میری اس دوست کا بھائی موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ ابھی اس حادثے کو زیادہ وقت نہیں ہوا تھا کہ اسی علاقے کے ایک ٹیچر کے گھر کی چھت گر گئی جس سے چار افراد جاں بحق ہو گئے۔ ان ٹیچر کا گھر نمرین کے گھر کے قریب ہی تھا۔ ان واقعات کے بعد ثمرین کے لئے بارشیں درد کی علامت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں۔

پچھلے چند دنوں سے کراچی میں بارشوں نے جو تباہی مچائی ہے اس کے بعد رہ رہ کر مجھے ثمرین کا خیال آ رہا ہے۔ سرجانی ٹاؤن میں سیلابی پانی کے مناظر دیکھ کر میرا دل دکھ سے بھر گیا ہے۔ میں سوچتی ہوں ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں بارش ایک خوف کی علامت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ بارش کا پانی اپنے ساتھ کتنے ہی انسانوں کی جانیں ان کی برسوں کی کمائی ان کے خواب سبھی کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔ حکومت کہتی ہے برسوں کا کھڑا پانی وہ لمحوں میں کیسے صاف کر دے اور میں یہ کہتی ہوں کہ بارشوں سے پھیلتی تباہی ہو یا پھر برسوں پر محیط کرپشن کے کیسز ان کے سدباب کے لئے جس جانفشانی ،لگن اور جنون کی ضرورت ہے وہ ہمیں کہیں بھی نظر نہیں آتا۔

بارش شاعروں اور ادیبوں کے لئے محبت کی علامت ہے۔ بارش جس کی رم جھم بوندوں میں لکھنے والے اپنے محبوب کو دیکھتے ہیں جو ان کے ساتھ بارشوں میں بھیگتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے سنگ ان بارشوں کو امر کر دیتے ہیں۔ سوچتی ہوں آنے والے برسوں کے شاعر اور ادیب بارش کو محبت نہیں نفرت اور خوف کی علامت کے طور پر لیں گے۔ رم جھم کی جھڑی لگتے ہی سب بس ایک ہی بات کہیں گے

”زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے اور زیادہ بارش ہوتی ہے تو اور زیادہ پانی آتا ہے۔“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).