افغان طالبان کا دورہ پاکستان، افغان امن معاہدہ بچانے کی کوشش؟


پاکستان کا دورہ کرنے والے افغان طالبان کے چھ رکنی وفد نے سیاسی ٹیم کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں پاکستانی اعلیٰ حکام سے ملاقات کی۔ افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان کے مطابق ”وفد نے پاکستانی رہنماؤں کے ساتھ افغان امن عمل میں ہونے والی حالیہ پیشرفت کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان لوگوں کی آمد و رفت اور تجارت میں سہولیات کے امکانات پر بات چیت کی۔“ افغانستان میں امن کا قیام خطے کے تمام ممالک کے مفاد میں ہے، تاہم کچھ عناصر بین الافغان مذاکرات کے انعقاد کو موخر کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دوحہ میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان 29 فروری 2020 کو تاریخی مفاہمتی معاہدہ اصولی بنیادوں پر طے پایا، جس کے بعد فریقین پر ذمے داری عاید ہوگئی تھی کہ معاہدے میں طے شدہ شقوں کے مطابق جلدازجلد قیام امن کے لئے بین الافغان مذاکرات کے انعقاد کو یقینی بنانے میں تعاون کیا جائے، بادی النظر میں امریکا کو افغانستان میں کسی نئی حکومت کے قیام میں کوئی دلچسپی نہیں، صدر ٹرمپ کی تمام توجہ اس امر کی جانب مرکوز رہی کہ کسی بھی طرح امریکی افواج کے باحفاظت واپسی کو یقینی بنایا جا سکے اور بند گلی سے باہر نکلا جا سکے۔

واضح رہے کہ افغانستان پر جب امریکا اور نیٹو ممالک نے حملہ کیا تو اس وقت افغان طالبان کسی ایک گروپ کے خلاف جنگ نہیں کر رہے تھے، افغانستان پر فوج کش حملہ آور ممالک میں درج ذیل شامل تھے۔ امریکا کے 90000، برطانیہ کے 10000، کینیڈا 3000، فرانس 4000، ناروے 500، ڈنمارک 700، جرمنی 5000 اوراٹلی کے 4000 فوجی افغانستان میں گولہ بارود استعمال کر رہے تھے اور جنگ عظیم اول و دوم سے زیادہ بمباری کی گئی۔ آسٹریلیا اور فرانس کی جانب سے افغان طالبان کے اسیروں کو رہا نہ کرنے کی منطق بذات خود متنازع اورکابل انتظامیہ کا موقف بھی کمزور ہے، آسٹریلیا نے حکمت یار کی رہائی پر اعتراض کیا ہے، جس نے افغان نیشنل آرمی میں اپنے ہی اتحادی تین آسڑیلوی فوجیوں کو ہلاک کیا تھا، تو اس قسم کے ان گنت واقعات موجود ہیں کہ ’گرین آن بلیو اٹیکس صرف 2012 میں 52 فوجی مارے گئے۔

افغان طالبان کی حکمت عملی نے نیٹو افواج کے کئی فوجیوں کو ہلاک کیا، اس قسم کے واقعات میں اضافے کے بعد نیٹو افواج نے افغان نیشنل آرمی کے اہلکاروں کے ساتھ آپریشن روک دیے تھے۔ جبکہ فوجی بیس آنے پر پابندی لگا دی تھی۔ جنگ میں فریقین ایک دوسرے کو نقصان ہی پہنچاتے ہیں، کابل انتظامیہ کے ذریعے امریکا نے جن 4780 اسیروں کو رہا کیا تو وہ کسی کرفیو کی خلاف ورزی کے الزام میں نہیں بلکہ نیٹو و امریکی افواج کے خلاف جنگ میں ملوث ہونے پر گرفتار کیے گئے تھے، سب سے بڑھ کر اہم پہلو یہ ہے کہ دوحہ مذاکرات میں دوحہ سیاسی دفتر کے 31 رہنماؤں پر امریکا نے سنگین الزامات عاید کیے تھے تاہم مذاکرات میں معاہدے کو یقینی بنانے کے لئے ان کے ساتھ ہی مذاکرات اور دستخط کے بعد دوحہ معاہدے کی توثیق بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے کرائی۔

واضح رہے کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کی ایک رپورٹ کے مطابق نیٹو افواج انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمیت عا م شہریوں کی ہلاکتوں میں بھی ملوث رہے ہیں، رپورٹ کے مطابق آسٹریلوی وفاقی پولیس کے تحقیقات کاروں نے افغانستان کا دورہ کیا۔ دورے کا مقصد ان جنگی جرائم کی تحقیقات کرنا تھا جو آسٹریلوی اسپیشل فورسز نے 2006 سے 2013 کے دوران صوبے اروزگان میں اپنی تعیناتی کے دوران مبینہ طور سرزد کیے تھے۔ مبینہ جرائم میں افغان شہریوں کو موقع پر ہلاک کرنے اور دیگر مظالم شامل ہیں۔

افغانستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے آسٹریلوی نشریاتی کارپوریشن کو جو معلومات فراہم کیں وہ ان الزامات کی تصدیق کرتی ہیں کہ آسٹریلوی اسپیشل فورسز نے اروزگان میں ایک کسان اور اس کے بچے کو غیرقانونی طور پر قتل کیا تھا۔ اے ایف پی کی تحقیقات کے متوازی، 2016 سے، آسٹریلوی ڈیفنس فورس کے انسپکٹر جنرل افغانستان میں جنگی قوانین کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں عالمی فوجداری عدالت کے تین رکنی بنچ نے آئی سی سی کے پراسیکیوٹر فاٹو بین سوڈا کی افغانستان کی مسلح کشیدگی کے دوران ممکنہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات شروع کرنے کی درخواست رد کرچکے تھے کیونکہ امریکا کو خدشہ تھا جنگی جرائم میں امریکی فوجیوں کے خلاف فرد جرم لگ سکتی ہے۔

واضح رہے کہ جرائم کی بین الاقوامی عدالت (آئی سی سی) نے افغانستان میں مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات کرانے کی ایک درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔ ایک پریس ریلیز میں ججوں نے افغانستان کے عدم استحکام اور ملک کے تفتیش کاروں کی جانب سے عدم تعاون کی نشاندہی کی تھی 2016 میں آئی سی سی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس بات پر یقین کرنے کی خاطر خواہ وجوہ موجود ہیں کہ امریکی فوج نے افغانستان میں سی آئی اے کی زیر نگرانی خفیہ حراستی مراکز میں قیدیوں پر ٹارچر کیا تھا۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس بات پر یقین کرنے کی وجوہات موجود ہیں کہ افغان حکومت نے قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ بین الافغان مذاکرات کومحض چھ قیدیوں کی رہائی کی آڑ میں موخر کرانے سے خطے میں امن کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ افغان طالبان کے سیاسی وفد کی پاکستان آمد کا مقصد، واضح ہے کہ افغان طالبان و امریکا کے درمیان طے شدہ معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے تبادلہ خیال و اتفاق رائے پیدا ہو، کیونکہ پاکستان کی کوششوں سے دوحہ میں مفاہمتی عمل میں بار بار رخنہ ختم کرانے کے لئے سہولت کاری کی جاتی رہی ہے اور امریکا کی جانب سے دباؤ بڑھایا جاتا کہ افغان طالبان سے من و عن شرائط پر معاہدہ کرایا جائے، تاہم افغان طالبان نے اپنی سیاسی رسوخ کو دنیا کے اہم ممالک تک بڑھاچکے ہیں، جس میں روس، چین، ایران، جرمنی وسمیت کئی اہم ممالک ہیں، جن سے افغان طالبان نے سیاسی روابط کو بڑھایا۔ جب صدر ٹرمپ نے 10 ستمبر 2019 کو یک دم دوحہ مذاکرات کو مردہ قرار دے دیا تور افغان طالبان کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرا ت کرنے سے انکار کر دیا تو افغان طالبان نے سیاسی دوروں سے امریکا پر دباؤ بڑھایا اور بالاآخر امریکی ٹیم نے دوحہ میں دوبارہ مذکرات کیے اور 29 فروری 2020 کو تاریخی معاہدہ طے پا گیا۔

ذرائع کے مطابق یہ افغان طالبان کا پہلا دورہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی پاکستان آچکے ہیں، خطے میں امن کے قیام کے لئے پاکستان نے اپنے دائرے اختیار کے مطابق پائدار مذاکرات کے لئے اہم کردار ادا کیا، لیکن ہمیشہ مذاکرات کو سبوتاژ کیا جاتا رہا، ایک موقع پر افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکر ات اہم موڑ پر پہنچنے والے تھے کہ ملا عمر کی وفات کی خبر کو صدر اشرف غنی نے 29 جولائی 2015 کو عالمی میڈیا میں منکشف کر دیا، جس کے بعد مذاکرات کا سلسلہ رک گیا اور افغان طالبان کے درمیان دھڑے بندیوں اور اختلاف کی خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جانے لگا جس کے بعد مذاکرات سرد خانے کا شکار ہوگئے، تاہم ملا اختر منصور جو کہ ملا عمر کی وفات کے وقت سے امارات اسلامیہ کی قیادت سنبھالے ہوئے تھے، باقاعدہ سربراہ بنانے کے اعلان کے بعد دھڑے بندیوں کی تمام خبروں کا خاتمے کا سبب بنے۔

افغان طالبان کی شوریٰ اور اہم قائدین کو ملا عمر کی موت کے بارے میں معلوم تھا لیکن اس خبر کو طالبان کے مرکزی قائدین تک محدود رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ بیان کے مطابق 23 پریل 2013 کو جب ملا محمد عمر کا انتقال ہوا تو رہبری شوری کے کئی ارکان، علمائے کرام، گزشتہ 14 سالوں میں ملا محمد عمر کے خصوصی قاصدوں اور ان کے دائمی ساتھیوں، سب نے منصور کے ہاتھ پر بیعت کی اور انھیں امیر متعین کر دیا، امریکا نے ایک بار مذاکرات کے لئے پھر دباؤ بڑھایا، پاکستان نے اہم کردار ادا کیا، لیکن ملا اختر منصور 22 مئی 2016 کو ایران واپسی پر افغان سرحد کے قریب ڈرون حملے میں نشانہ بنا کر ایک بار پھر خطے میں امن کوششوں کو سبوتاژ کر دیا گیا۔

ملا اختر منصور کابل انتظامیہ کے بجائے امریکا سے بامعنی مذاکرات کے حق میں تھے تاہم امریکی اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی تھی کہ امریکا، افغانستا ن سے شکست خوردہ ہوکر نکلے، امریکی حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملا اختر منصور افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والی مفاہمت میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ تھے، کیونکہ افغانستان میں تنازع کے خاتمے کے لیے شروع کیے گئے امن عمل میں انہوں نے طالبان رہنماؤں کے شریک ہونے پر پابندی عائد کی ہوئی تھی۔

ملا اختر منصور کے بعد ایک بار پھر افغان طالبان میں دھڑے بندیوں و مجلس شوریٰ میں اختلافات کی خبروں کو ہوا دی گئی لیکن، افغان طالبان کے تمام رہنماؤں نے 25 مئی 2016 کو ملا ہیبت اللہ اخند زادہ پر اپنے اعتماد کا اظہار کرکے امریکی خواہشات کو ناکام کر دیا، ملا ہیبت اللہ اخند زادہ، افغان طالبان کی ایک ایسی شخصیت ہیں جن پر امریکا کی دہشت گردی کی فہرست میں نام شامل نہیں، واشنگٹن میں میڈیا بریفنگ کے دوران اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی ترجمان مارک ٹونر نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’(ملا ہیبت اللہ اخندزاد) کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل نہیں ہے‘ ۔

ملا ہیبت اللہ کا انتخاب امریکا کے لئے غیر متوقع تھا۔ بالآخر کئی نفسیاتی جنگوں میں بھی ناکامی کے بعد دوحہ مذاکرات کا باقاعدہ آغاز 23 جولائی 2018 کو ہوا، درد سر مذاکرات کئی بار تعطل کا شکار ہوئے، تاہم یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا، یہاں تک کہ صدر ٹرمپ نے عین وقت پر مذاکرات بھی ختم کردیئے لیکن امن معاہدے کے لئے عالمی برادری کا دباؤ بڑھتا رہا کہ افغانستان میں تشدد کے خاتمے کے لئے فریقین کو معاہدے پر دستخط کردینے چاہیں، امریکی صدر نے 24 نومبر 2019 کو بگرام ایئر بیس پر ایک بار پھر افغان طالبان سے مذاکرات کا اعلان کیا اور سفارتی و سیاسی کوششوں کے بعد بالآخر 29 فروری 2020 کو آٹھ مراحل کے بعد دوحہ میں افغان امن معاہدے پر دستخط ہو گئے۔

افغان طالبان نے دوحہ افغان امن معاہدے پر دستخط کے بعد آٹھ مہینوں میں غیر ملکی افواج کو معاہدے پر عمل درآمد کی وجہ سے نشانہ نہیں بنایا، لیکن افغان سیکورٹی فورسز کے ساتھ مل کر امریکی و نیٹو فورسز افغان طالبان کو نشانہ بناتی رہیں، افغان طالبان نے افغان سیکورٹی فورسز پر حملے کیے اور جواز دیا کہ کابل انتظامیہ سے ان کے کوئی مذاکرات نہیں ہوئے، افغانستان میں مکمل جنگ بندی کے لئے بین الافغان مذاکرات میں ہی فیصلہ کیا جائے گا۔

مکمل جنگ بندی اورافغانستان کے مستقبل کے مقننہ و نظام انصرام کا فیصلہ بین الافغان مذاکرات میں ہی ہوگا، جس میں بظاہر کابل انتظامیہ کو قانونی تسلیم نہیں کیا جا رہا ، یہی وجہ ہے کہ کابل انتظامیہ مسلسل تاخیر ی حربے استعمال کررہی ہے اور عالمی برداری کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ افغان طالبان، مذاکرات کے لئے سنجیدہ نہیں ہیں۔ اہم پہلو یہ ہے کہ جن نکات پر امریکا اور افغان طالبان کے درمیان اتفاق رائے پیدا ہوا، اس کے بعد کسی طور مناسب خیال نہیں کیا جاتا کہ بین الافغان مذاکرات کے اہم دور کو روکنے کے لئے تاخیری حربے استعمال کیے جائیں۔

افغان طالبان کے نزدیک معاہدے کے تمام نکات و قیدیوں کی فہرست پر سیر حاصل گفت و شنید ہوچکی ہے اور کئی مراحل کے بعد موجودہ فہرست پر اتفاق رائے کے بعد ہی دوحہ معاہد ہ ہوا تھا، اس لئے وہ کسی جواز کو تسلیم نہیں کر رہے۔ یہ امریکا کی ضمانت ہے کہ معاہدے کے تمام نکات پر عمل پیرا ہو، اور افغان طالبان بھی معاہدے کے مطابق قائم رہے تاکہ خطے میں امن کے لئے کی جانے والی کوششوں کا ثمر افغان عوام کو مل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).