کرب و بلا سے کربلا تک


عراق کے دارالخلافہ بغداد سے سو کلومیٹر دور جنوب مغرب میں 5034 کلومیٹر پر محیط صوبہ کربلا واقع ہے۔ کربلا تین ضلعوں مرکز کربلا، عین التمر، اور الہندیہ میں تقسیم ہے۔ پورے صوبے کی آبادی 12 لاکھ 18 ہزار 372 نفوس پر مشتمل ہے۔ تقریباً سات لاکھ افراد ضلع کربلا اور گرد و نواح میں آباد ہیں۔ کربلا سٹی 70 کلومیٹر پر محیط ہے۔ جہاں تعلیم، صحت، بلدیہ اور سیکورٹی سمیت دیگر سرکاری ادارے موجود ہیں۔ شرح خواندگی 79.4 فیصد، شرح بے روزگاری 9.6 فیصد جبکہ 11.4 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ پانی کی ضرورت مصنوعی جھیل ”مسطح مائی“ سے پوری کی جاتی ہے۔ تاہم یہاں کے گورنر عاقل التوریحی مسائل پر قابو پانے کا عزم رکھتے ہیں۔ شیرا ٹپکاتی کھجوریں، شہد سے میٹھے انار، گول مٹول رس بھرے کینو کے باغات یعنی زراعت اور زائرین کی آمد صوبے کی آمدن کے ذرائع ہیں۔

زائرین کی آمد کا سلسلہ سارا سال ہی جاری رہتا ہے۔ جو ذوالحجہ میں یوم عرفہ سے شروع ہو جاتا ہے۔ رمضان اور شعبان میں زائرین کی آمد نسبتاً زیادہ جبکہ محرم اور صفر میں عروج پر ہوتی ہے۔ گو کہ کربلا میں ”فندق“ یعنی چھوٹے بڑے ہوٹلز کی بھرمار ہے۔ مگر عاشورہ اور اربعین پر ہوٹلز میں جگہ کم پڑ جاتی ہے۔ تاہم زائرین بھی بین الحرمین اور گرد و نواح میں زمین پر شب بسری کو سعادت سمجھتے ہیں۔ 20 صفر المظفر کیونکہ امام حسین علیہ السلام کا چہلم ”اربعین“ منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر زائرین سنت زینبیہ پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے نجف اشرف سے کربلا تک 80 کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرتے ہیں۔ اور بعض زائرین تو بصرہ سے کربلا یعنی پانچ سو کلومیٹر تک پیدل سفر کرتے ہیں۔ اس سفر کو ”مشی“ کرنا کہا جاتا ہے۔ اربعین کا یہ پیدل سفر اب دنیا کی سب سے بڑی واک کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

2016 کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے ساٹھ ملکوں سے بلا رنگ و نسل مذہب و ملت تقریباً تین کروڑ کے لگ بھگ افراد نے شرکت کی تھی۔ اربعین کا یہ اجتماع کمبھ میلے کے بعد دنیا کا سب سے بڑا اجتماع شمار کیا جاتا ہے۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ قبر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو آنے والے سب سے پہلے زائر صحابی رسول حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔

سن 680 عیسوی بمطابق 61 ہ دو محرم الحرام امام حسین علیہ السلام اپنے ساتھیوں سمیت بے آب و گیاہ بنجر و بیابان صحرا میں یزید ملعون کے کمانڈر عمر ابن سعد لعین کے ہاتھوں گھیر کر کربلا لائے گئے۔ آپ علیہ السلام نے یہاں پہنچ کر اس علاقے کا نام پوچھا تو جواب ملا کہ یہ کرب و بلا ہے۔ یعنی دکھ، درد، الم، اور مصائب سے پر سرزمین۔

یہ زمین قبیلہ بنو اسد کی ملکیت تھی۔ امام عالی مقام نے قبیلے کے سردار کو بلاکر ساٹھ ہزار درہم ادا کرکے اس زمین کو خرید کیا اور پھر اسی قبیلے کو واپس ہبہ کردی۔ سردار نے حیرت سے اس سنسان اور ویران جگہ کی قیمت مارکیٹ ویلیو سے کہیں زیادہ ادا کرنے اور پھر اسے واپس ہبہ کرنے کی وجہ پوچھی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ سات یوم بعد یہاں ہماری سر بریدہ اور خاک و خون میں غلطاں لاشیں ملیں گی آپ نے انہیں دفنانا ہے اور یہاں آنے والے زائرین کی تین دن تک میزبانی کرنی ہے۔ جس پر بنو اسد نے من عن عمل کیا۔

یہی وجہ ہے کہ آپ لاکھ کوشش کے باوجود سات محرم سے دس محرم تک پورے کربلا سٹی میں کسی بھی ہوٹل یا دکان سے اشیاء خورد و نوش خرید کر نہیں کھا سکتے کیونکہ انواع و اقسام کے کھانے اور مشروبات مفت ملتے ہیں۔ اشیاءخوردنوش کی فراہمی میں بنو اسد سے کہیں زیادہ دیگر عراقی قبائل بلا تخصیص ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر نہایت عاجزی و انکساری اور فراخ دلی سے بہترین مہمان نوازی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔

سونے کی ٹائیلوں سے تعمیر شدہ 89 فٹ بلند سنہری گنبد دنیا کے ساتوں براعظموں میں بسنے والے حق پرستوں کے لیے کعبہ کا درجہ رکھتا ہے۔ حرم امام حسین علیہ السلام کے گیٹ نمبر ایک کو باب القبلہ کہا جاتا ہے۔ جس میں داخل ہوتے ہیں دائیں جانب لائبریری اور ثقافتی دفتر ہے۔ جبکہ بائیں طرف استقبالیہ اور انتظامیہ کے دفاتر ہیں۔ مذہبی امور کا دفتر بھی پاس ہی ہے۔ گیٹ نمبر 2 کو باب الرجا کہا جاتا ہے۔ یہاں سے بین الحرمین کی حد شروع ہوتی ہے۔

جو گیٹ نمبر 5 یعنی باب الکرامہ پر ختم ہوتی ہے۔ گیٹ نمبر 3 اور 4 کو بالترتیب باب قاضی الحاجات اور باب الشہداء کہا جاتا ہے۔ دونوں دروازے بین الحرمین کے عین سامنے واقع ہیں۔ بین الحرمین کے بالکل دوسری جانب حضرت غازی عباس علمدار ابو الفضل عباس کا روضہ اقدس واقع ہے۔ باب السلام اور باب السدرۃ دراصل گیٹ نمبر 6 اور 7 ہیں۔ جبکہ گیٹ نمبر 8 کو باب السلطانیہ کہا جاتا ہے۔ گیٹ نمبر 9 باب الراس شریف کہلاتا ہے۔ جس میں داخل ہوتے ہی دائیں جانب میڈیا کا دفتر ہے۔

باب الزینبیہ گیٹ نمبر 10 ہے۔ جس کے ساتھ نذورات کا دفتر ہے۔ آپ کسی بھی گیٹ سے داخل ہوجائیں داخل ہوتے ہی آپ ایک بڑے صحن کو عبور کر کے برآمدوں میں پہنچتے ہیں۔ سونے کے دروازوں سے ہوتے ہوئے آپ سونے اور چاندی سے مزین انتہائی پر کشش اور جاذب نظر ضریح مطھر تک پہنچ جاتے ہیں۔ بس یہی زائرین کی منزل عشق ہے۔ یہاں زائرین دنیا و جہاں سے بے نیاز ہو کر نم آنکھوں سے امام عالی مقام کو خراج عقیدت پیش کرتے اور حال دل بیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ بعض زائرین کے ضبط کے بندھن ایسے ٹوٹتے ہیں کہ بلند آہ و بکا و گریہ و زاری سینہ چیر دیتی ہے۔ ضریح مطہر کے ہال کے باہر والے برآمدے میں گنج شہداء یا لطف شہداء ہے۔ جس میں تمام شہدائے کربلا کے سر مبارک مدفون ہیں اور ان کے نام آویزاں ہیں۔

قبر مبارک امام عالی مقام اس ضریح کے اندر واقع ہے قبر اطہر کے تعویز کو ضریح کی جالیوں سے صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ کچی قبر مبارک اس تعویز کے عین نیچے بہترین حالت میں موجود ہے۔ آپ کی ضریح مبارک سے بالکل متصل آپ کے بڑے فرزند ارجمند حضرت علی اکبر علیہ السلام کی ضریح مبارک ہے۔ ہر دو ضریحوں کے میلاپ سے یہ گمان ہوتا ہے جیسے حسین علیہ السلام نے علی اکبر کو اپنی آغوش میں سلا رکھا ہو۔

باب السلام کے گیٹ نمبر 6 کے سامنے سے داخل ہوں تو صحن عبور کر کے برآمدے میں داخل ہوتے ہی ایک کونے میں حضرت ابراہیم مجاب کی ضریح موجود ہے۔ جبکہ باب قبلہ کی طرف سے آئیں تو برآمدے کے کونے میں ضریح قتل گاہ امام عالی مقام موجود ہے۔ ضریح کی جالیوں سے جھانک کر دیکھیں تو امام عالی مقام کے خون سے رنگین وہ پتھر بھی نظر آتا ہے جس پر شمر ملعون نے آپ علیہ السلام کا سر اقدس جسم اطہر سے جدا کیا تھا۔ عاشقان امام عالی مقام یہاں دھاڑیں مار مار کر روتے ہیں اور روتے روتے بالآخر غش کھا کر گر پڑتے ہیں۔ قتل گاہ کے قریب حضرت حبیب ابن مظاہر کی ضریح مبارک ہے۔

حضرت حبیب ابن مظاہر علیہ السلام دراصل امام عالی مقام کے بچپن کے دوست ہیں۔ کربلا پہنچ کر امام عالی مقام نے انہیں خط لکھا تھا کہ اگر مجھ سے ملاقات چاہتے ہو تو دس محرم سے پہلے کربلا پہنچ جانا اور خط کا آغاز ”انا للہ وانا الیہ راجعون“ کیا تھا۔ حبیب ابن مظاہر یہ خط پڑھ کر تڑپ اٹھے اور سات محرم کو کربلا پہنچ گئے۔

حرم امام حسین علیہ السلام کے احاطے سے باہر نکلیں تو ”مخیم“ وہ جگہ ہے جہاں امام عالی مقام اور ان کے اصحاب کے خیمے نصب تھے۔ کچھ فاصلے پر ٹیلہ زینبیہ ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں آپ کی ہمشیرہ مخدرہ عصمت سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے بوقت شہادت امام عالی مقام زمین کو حکم دے کر اونچا کیا اور اپنے بھائی کی شہادت کی چشم دید گواہ بن گئی۔ کیونکہ یہ جگہ سرزمین کربلا سے نسبتاً اونچی ہے اسی لئے اسے ٹیلہ یا تلہ زینبیہ کہا جاتا ہے۔

اس کے عقب اور قرب و جوار میں مختلف مارکیٹیں اور بازار واقع ہیں۔ انہی میں سے گزر کر آپ مقام حضرت علی اکبر علیہ السلام پر پہنچ جاتے ہیں۔ اس مقام پر ہمشکل پیمبر، شجاعت اور جرات کے پیکر مولا علی اکبر علیہ السلام کو برچھی لگی تھی۔ زائرین کی اس مقام پر گریہ وزاری آسمان کو چھوتی نظر آتی ہے۔ یہاں سے قریب ہی دوسرے بازار میں مقام علی اصغر علیہ السلام ہے۔ اس مقام پرملعون حرملا نے اپنا تیر ششماہے مجاہد کے گلو میں ترازو کر دیا تھا۔

یہاں موجود جھولے کے اردگرد خواتین زائرین کا بہت زیادہ رش ہوتا ہے اور ان کی آہ و بکا کلیجہ چیر کے رکھ دیتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ سطریں تحریر کرتے ہوئے میری آنکھوں میں پانی کیوں اتر آیا ہے۔ ہاتھ میں کپکپاہٹ اور قلم رک گیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دراصل علی اصغر ع باب الحوائج ہیں۔ باب الحوائج سے مراد وہ دروازہ ہے جہاں سے تمام حاجتیں پوری ہوتی ہوں۔ سرزمین کربلا پر صرف دو ہی باب الحوائج مدفون ہیں۔ دوسرے باب الحوائج کا ذکر آگے چل کر کروں گا۔ ان کے وسیلہ سے اللہ تعالی کی گئی دعا نہایت سریع الاثر یعنی جلد قبول ہونے والی ہوتی ہے۔

امام حسین علیہ السلام کے روضے کے بالکل سامنے بین الحرمین کے 378 میٹر فاصلہ پر ثانی حیدر سرکار وفا ابوالفضل حضرت غازی عباس کا روضہ ہے۔ حیرت انگیز طور پر دونوں روضوں کا درمیانی فاصلہ وہی ہے جو صفا و مروہ کا ہے۔ یہ روضہ درحقیت دنیا بھر کے دلیر، نڈر، بہادر، شجاع اور وفا کے علمبرداروں کا قبلہ ہے۔ آپ کو پاکستان میں جہاں بھی سیاہ جھنڈے نظر آئیں تو سمجھ لیجیے یہ مولا عباس کا علم مبارک ہے۔ اس روضے کے 9 دروازے ہیں جن میں سے 2,3,4 اور 5 بین الحرمین کی جانب کھلتے ہیں۔

گیٹ نمبر 1 باب قبلہ کہلاتا ہے۔ 2 باب امام حسن علیہ السلام، نمبر 3 امام حسین علیہ السلام، نمبر 4 باب صاحب الزمان، نمبر 4 باب امام موسی کاظم، نمبر 6 باب امامت، نمبر 7 باب امام ہادی، نمبر 8 باب فرات العلقمی، نمبر 9 باب نجف کہلاتا ہے۔ باب فرات کے عین سامنے شاہراہ فرات واقع ہے۔ اسی شاہراہ پر آگے جاکر دریا فرات سے نکلنے والی ندی ”علقمہ“ موجود ہے جو پورے کربلا میں پیچ و تاب کھانے کے بعد شاید ”الرزاذہ“ جھیل میں جا گرتی ہے۔ مقام صاحب الزماں کے قریب علقمہ کے عین وسط میں اس جگہ کی نشاندہی سیمنٹ کے ہاتھ میں علم نصب کر کے گئی ہے جہاں سے حضرت عباس علمدار نے اپنے مشکیزے میں پانی بھرا تھا۔

یہاں سے تھوڑے فاصلے پر مقام ”کف العباس“ ہے مولا عباس کا ایک بازو اس بازار میں جبکہ ایک اور مقام پر دوسرابازو قلم ہوا تھا۔ زائرین کسی بھی داخلی دروازے سے داخل ہوتے ہوئے گنبد اقدس کے عین نیچے والے برآمدوں سے گزر کر ضریح مطہر تک پہنچتے ہیں یہ ضریح مطہر 1964 کے بعد آج سے چار سال قبل یعنی 2016 میں نئی نصب کی گئی ہے۔ سونے اور چاندی سے مزین یہ ضریح مکمل طور پر عراقی ہنرمندوں کے فن کا شاہکار ہے۔ یہاں پر موجود انتہائی مودب اور شفیق خدام ایک منظم طریقے سے داخلی اور خارجی راہداریوں کی نشاندہی کرتے نظر آتے ہیں۔

گنبد کے نیچے تقریباً تمام دروازوں پر سونے کی پرتیں چڑھائی گئی ہیں۔ تاہم لکڑی کا ایک دروازہ بھی موجود ہے جو نیچے سرداب کی طرف کھلتا ہے۔ سیڑھیوں سے نیچے اتر کر آپ اس پانی تک پہنچ جاتے ہیں جو قبر کے اردگرد حالت طواف میں ہے۔ اس نہایت ہی صاف و شفاف پانی کی مقدار، معیار، رنگ و بو اور ذائقے میں چودہ صدیوں سے کوئی کمی بیشی یا تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ اگر اس پانی میں مزید پانی شامل کر لیا جائے یا نکال لیا جائے اس کا لیول بس ایک سا ہی رہتاہے۔ اس پانی میں سال میں صرف ایک بار چند پھول کھلتے ہیں جنہیں ”گل عباس“ کہا جاتا ہے۔ جنہیں منتظمین ضریح مطہر کے گلدستوں کی زینت بنا دیتے ہیں۔ ابوالفضل عباس علیہ السلام کربلا کے دوسرے باب الحوائج ہیں۔ اللہ تبارک و تعالی کو ان کا واسطہ اور وسیلہ دے کر کی گئی دعا جلد شرف مقبولیت پا جاتی ہے۔

ہر سال تین اور چار شعبان کو حضرت امام حسین علیہ السلام اور ابوالفضل عباس کے ایام ولادت کی مناسبت سے جشن کے پروگرام منعقد ہوتے ہیں مگر کرب و بلا سے کربلا بننے میں تقریباً چودہ سو سال کا عرصہ بیت جانے کے باوجود بھی فضا میں سوگ، کرب، دکھ اور درد و الم کا سماں بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بقول جالب

حسرت سی برستی ہے در و بام پہ ہر سو
روتی ہوئی گلیاں ہیں، سسکتے ہوئے گھر ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).