شکاگو کا ویلنٹائین ڈے قتل عام اور ماں کے ہاتھ کی بنی ایپل پائی


چند سال قبل میں اور بڑے بھائی ڈاکٹر شفیق احمد ان کے گھر کے پچھواڑے چھوٹی سی ندی کنارے بنی بارہ دری میں بیٹھے چائے پیتے گپ مار رہے تھے۔ کہ بات خدا تعالی کی معجزانہ حفاظت کی طرف چلی گئی۔ اچانک بولے۔ کیا تم نے شکاگو کے ویلنٹائین ڈے قتل عام کا سنا ہے۔ عرض کیا سرسری پڑھا ہے, تفصیل نہیں معلوم۔ ۔ ۔

تو چلئے تھوڑی سی آگاہی آپ کو بھی دوں تاکہ اس کہانی کا پورا لطف لے سکیں

جنگ عظیم اول سے لے کر انیس سو پینتیس تک خصوصاً یو ایس کے اکثر بڑے شہر بالکل ایسے ہی حالات سے گزر رہے تھے جیسے نوے کی دہائی سے لے کر چند برس قبل تک کراچی تھی۔ لوٹ مار قتل عام۔ ڈاکے۔ اغوا برائے تاوان۔ ڈرگ مافیا۔ کی حکومت تھی۔ بالکل اسی طرح اکثر پولیس افسر اوپر سے نیچے۔ بیوروکریسی۔ سیاستدان۔ حتی کہ ہماری طرح یا ان سے حصہ لیتے۔ ضرورت پڑتے مدد لیتے سرپرستی کرتے یا بے بس تھے۔ کبھی کوئی مافیا ممبر سزا چھوڑ، گرفتاری تک نہ پہنچتا۔

اور پھر جیسے کراچی میں رحمان ڈکیت۔ بابا لاڈلا۔ عزیر بلوچ۔ پشتون۔ الطاف بھائی اور بعض مذہبی عناصر کے دہشت گرد ونگ۔ کراچی کو لہو میں نہلاتے عروس البلاد کو کچرا کنڈی میں تبدیل کرنے کے ساتھ آپس میں بھی دست و گریبان رہے۔ اور لیاری گینگ وار قسم کے کھیل چلے۔ اسی طرح یہاں اکثر بڑے شہر بھی مافیاز کے یرغمال تھے۔ شکاگو، نیو یارک اور ڈیٹرائیٹ مکمل ان کے ہاتھوں یرغمال تھے۔ بے شمار چھوٹے بڑے گروہ نہ صرف سمگلنگ منشیات اور اوپر بیان شدہ سمیت ہر قسم کے جرائم میں نہ صرف خود ملوث تھے بلکہ اپنے زیر عمل علاقوں میں دوسرے کی مداخلت برداشت نہ کرتے، آپس میں بھی دست و گریبان تھے اور گینگ وار چلتی رہتی۔

شکاگو میں سب سے زیادہ ہیبت اٹالین ساؤتھ سائڈ گینگ اور اس کے سربراہ الکیپون کی تھی جو کھلے عام پھرتے رہنے کے باوجود اور ہر ایک کو علم کے باوجود اول تو کسی جرم میں نامزد ہی نہ ہوتا یا دوسرے روز ضمانت پہ ہوتا۔ صدر روزویلٹ تک اس کی پہنچ میں ہونے کی افواہیں تھیں۔ اس کے مقابلے میں شمالی علاقے کے آئرش نارتھ سائیڈ گینگ اور اس کے لیڈر جارج بگز موران کا گروہ تھا۔ دونوں کے ذیلی یا آزاد گروہ بھی موقع کے مطابق ایک دوسرے سے تعاون یا بدلہ لیتے۔۔۔ اب موران اور الکیپون کی رقابت ایک دوسرے کے شکار پر ہاتھ مارنے یا دوسرے کے علاقے میں کام دکھانے پر بڑھ چکی تھی۔ ( کوئی فرق کراچی اور اس وقت کے شکاگو میں سوائے ساٹھ ستر کے وقت کے فاصلے کے؟)

آخر الکیپون نے موران گینگ سے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا اور ایک ذیلی گینگ کے سپرد یہ مشن کیا گیا۔ کینیڈا سے چوری شدہ یا چھینی گئی وہسکی کی ایک بہت بڑی لاٹ ( مقدار) جو ڈیٹرائیٹ پہنچ چکی تھی۔ کی موران گروپ کو خاصے رعائتی نرخ پر بیچنے کی پیش کش کی گئی اور سودا کی شرائط اور ڈلیوری کا طریق کار طے کرنے کے لئے چودہ فروری 1929ء ویلنٹائین ڈے چھٹی کے روز فریقین کے جمع ہونے کا مقرر ہوا۔ موران گروپ کے سات افراد نے وہاں عین ساڑھے دس بجے صبح پہنچنا تھا۔

مقررہ وقت سے خاصا پہلے نزدیک ہی ایک عمارت میں دو آدمی فون کے پاس بیٹھے چوکس بیٹھے تھے۔ جیسے ہی انہوں نے ساتواں آدمی (ان کے یقین کے مطابق موران اور اس کے نائب سمیت) ان گروہوں کی روایت کے مطابق اپنے بہترین لباس اوور کوٹ مخصوص ہیٹ میں ملبوس داخل ہوتا نظر آیا۔ فون کھڑکایا۔ ایک دو منٹ بعد دو پولیس کی گاڑیاں آ رکیں۔ دو بظاہر پولیس افسر دو بندوں کے ساتھ اترے تیزی سے گیراج کے پچھلے دروازے سے اندر داخل ہوئے۔

سنبھلنے سے پہلے ان ساتوں کو اسلحہ کی نوک پر دیوار کے ساتھ کھڑا کیا اور اس طرح بھونا کہ کم از کم چار کا چہرہ قابل شناخت ہی نہ رہا۔۔۔ اور پھر ساتھ جانے والے دو آدمیوں کو دو پولیس والے اپنے آگے مجرموں کی طرح ہاتھ اٹھوائے تاکہ جمع ہو جانے والے پولیس کی کارروائی ہی سمجھیں۔ گیراج سے نکلے گاڑیوں میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔ پولیس موقع پر پہنچی تو ایک ابھی شدید زخمی تھا۔ تین گھنٹے کی سر توڑ کوشش کے باوجود وہ یہی کہتا رہا مجھے نہیں پتہ کیا ہوا اور اس کے ساتھ کون تھے اور دم توڑ گیا۔ پولیس تحقیقات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی کہ ساتوں موران گروپ کے ممبر مارے گئے اور انہوں نے ان کے نام بھی جاری کر دیے۔ پورے ملک میں ہاہا کار مچی۔ ہر ایک کو الکیپون کے ملوث ہونے کا یقین تھا۔ مگر اس کا کچھ نہ بگڑا۔ اور چھ سال گزر گئے۔

آئیے اب واپس بھائی کے گھر کی بارہ دری میں چلتے ہیں۔

کہنے لگے نوے کی دہائی کے اوائل میں میرے پاس ایک بہت بوڑھا مریض آیا جس کو ایک دو سرجری اور لمبے علاج کی ضرورت تھی۔ اس دوران میری اس سے خاصی دوستی ہوگئی اور اکثر اکٹھے بیٹھ گپ شپ کرتے۔ جس دن اس کا علاج مکمل ہو کر اس نے وداع ہونا تھا تو کہنے لگا۔ ڈاکٹر تمہیں عجیب دھچکا دوں۔ تو پھر کہنے لگا کہ اب وقت تو میرا آخری ہے ہی۔ آج گیا کہ کل۔ چلو میں تمہیں بتاتا ہوں میں اصل میں کون ہوں۔ ۔ ۔ میرا اصل نام میک ہے۔ اور میں ویلنٹائین ڈے میساکر میں مرنے والوں میں شامل تھا۔ ۔ ۔ پھر اس نے کہانی سنائی۔ ۔ ۔

”میں موران کے سات کے اس خصوصی گروپ میں شامل جنہوں نے ساڑھے دس بجے مقررہ جگہ پہنچنا تھا۔ میں کچھ پہلے گھر سے نکل آیا۔ رستے میں خیال آیا کہ ماں کا گھر راستے میں پڑتا ہے دس پندرہ منٹ فالتو ہیں کیوں نہ کھڑے کھڑے ماں سے ملتا چلوں۔ دو چار منٹ ماں سے بات کر کے نکلنے لگا تو ماں نے کہا بیٹا ایپل پائی کھاتے جاؤ۔ میں نے وقت کم ہونے کا بہانہ کیا تو کہنے لگی، بیٹا ماں کے اپنے ہاتھ کی بنی ایپل پائی بھی نہ کھاؤ گے۔ جو کبھی شوق سے کھایا کرتے تھے۔ میں انکار نہ کر سکا اور مجھے چند منٹ فالتو باتیں کرتے لگ گئے۔ میں تیزی سے جائے مقررہ کی طرف جا رہا تھا۔ کہ ایک منٹ بھی لیٹ ہونا قواعد میں نہ تھا۔۔۔ بہر حال میں پانچ منٹ لیٹ ہوگیا تھا۔ دور سے ہی پولیس کاریں کھڑی نظر آئیں۔ ماتھا ٹھنکا۔ قریب پہنچا تو گولیوں کی آواز تھی۔ میں فوراً منہ دوسری طرف کر بغیر کار آہستہ کیے، آگے نکل گیا۔ تھوڑی دور آگے جا ایک ویران گیٹ کے اندر کار کی نمبر پلیٹ تبدیل کی۔

اور اپنے ایک خفیہ ٹھکانے پر آ چھپا۔ دو تین روز میں مرنے والوں کی فہرست میں میرا نام شامل تھا۔ اور جب ہر جگہ یہ کنفرم کر دیا گیا۔ تب میں نے جرائم کی دنیا سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے موقع پاتے ہی شکاگو چھوڑا اور کئی سو میل کسی چھوٹے سے قصبہ میں نئے نام سے زندگی شروع کی۔ اور اگرچہ چھ سال بعد ہی تحقیقات سے میرا لیٹ ہونا اور بچ نکلنا ثابت ہوگیا تھا۔ مگر چونکہ میری کوئی تصویر پولیس یا کسی بھی ریکار ڈ میں موجود نہ تھی، اس لئے میں اطمینان سے نئے نام کے ساتھ زندہ ہوں۔ اب جب مجھے یقین ہو چکا کہ میرے تمام ساتھی اور پہچان والے مارے گئے یا اللہ کو پیارے ہو گئے تو واپس شکاگو کی سڑکیں مجھے کھینچ لائیں۔ اکثر سوچتا ہوں اگر ماں کے اپنے ہاتھ سے بنی ایپل پائی کھانے کی خوشی مجھے قواعد کی خلاف ورزی کرتے چند منٹ لیٹ نہ کرا دیتی تو میں یقیناً آٹھویں لاش ہوتا۔“ ہم دونوں بھائی اپنی چائے ختم کر بارہ دری کے پیچھے بنی چھوٹی ندی جس کا بند لگا یہاں لاٹ چوڑا کیا گیا تھا میں تیرتی بطخیں دیکھنے میں مصروف ہو گئے۔۔۔

گوگل پہ ڈھونڈیں تو پتہ لگتا ہے کہ چھ سال کی تفتیش سے ثابت ہوگیا تھا۔ کہ سات مرنے والوں میں سے تین جن میں ایک اس گیراج میں کام کرتا مکینک اور دو موران کے اکاؤنٹنٹ تھے۔ جن کا جثہ اور لباس قاتلوں کو موران اور اس کے نائب ہونے کا دھوکا دے گیا تھا۔ موران اور اس کا دوسرا ساتھی دوسرے دروازے سے اندر داخل ہو رہے تھے۔ کہ پولیس کار آتی دکھائی دی اور وہ الٹے پاؤں واپس لوٹ گئے تھے اور چند سال کے اندر گینگ وار کا شکار ہو چکے تھے۔

جب کہ ولیم میک کے متعلق اتنا ہی ذکر ہے۔ کہ وہ چند منٹ لیٹ ہوتے آگے نکل گیا تھا۔ البتہ کسی نے دور سے ایک راہداری میں کسی کو نمبر پلیٹ پہ جھکا دیکھا تھا۔۔۔ اور کوئی پچھتر سال بعد ڈاکٹر شفیق احمد شاید واحد یا ایک آدھ اور یہ جانتے تھے کہ ولیم میک ماں ہاتھوں بنی ایپل پائی کے مزے کو یاد کرتے ایک عام شہری کی زندگی گزار رہا تھا۔۔۔

الکیپون کو کوئی قانون کوئی عدالت اس کے جرائم پر سزا نہ دے سکی۔ البتہ 1945ء کے لگ بھگ آمدنی کے وسائل سے زیادہ اثاثوں کے جرم میں ٹیکس کا محکمہ اسے عمر قید کی سزا دلوانے میں کامیاب ہو گیا۔۔۔ دیکھیں اب پاکستان میں کون یہ سہرا اپنے ماتھے سجاتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).