ڈوبا ہوا شہر، بارش کہانی


شہر ڈوب گیا تھا۔ ہر سڑک اک دریا میں بدل چکی تھی اور پانی تھا کہ راستہ ڈھونڈ کر ہر سو گھستا چلا جا رہا تھا۔ یہ وہی شہر تھا جہاں بارش برسوں پہلے اک کہانی بن گئی تھی۔ سال میں اگر کسی دن بارش کے نام پر پانی کا چھینٹا پڑ جاتا تو جیسے لوگ جشن منانے لگتے۔

اور اب بارش تھی کہ بند ہونے کا نام نہیں لیتی تھی۔ پانی آسمان سے کچھ یوں برس رہا تھا کہ جیسے کوئی دریا آسمان سے زمین کی جانب رواں دواں ہے۔ پانی کا ریلا بہت طاقت ور ہوتا ہے اک بے قابو ہجوم کی مانند، جو خود کو بھی قابو نہیں کر سکتا اور اس کی ہر اک حرکت دباوٰ ڈالتی ہے۔

سڑک کے بیشتر حصوں کو پانی نے چھپا لیا تھا اور اب کیسے معلوم ہو کہ کہیں کوئی گڑھا ہے یا گٹر۔ کہیں کہیں بچے اور نوجوان پانی سے بھری ہوئی سڑکوں کو سوئمنگ پول سمجھ کر تیرنے کی مشق بھی کر رہے تھے۔

شہر کی سڑکوں پر اک جنگ سی جاری تھی، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر سوار ہوں یا پیدل لوگ، سب پانی سے بچ کر نکلنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھے، مگر پانی تو ہر اک سو تھا۔ اوپر سے برس بھی رہا تھا اور نیچے زمین کے ہر نشیبی حصے میں جمع تھا اور مسلسل بارش ہونے کی وجہ سے بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ کہیں کہیں بھاری اشیا اور گاڑیاں بھی پانی کے اگے مجبور ہوکر کشتیوں کی طرح بہہ رہی تھیں۔

ائرپورٹ کے علاقے میں کئی دھائی پرانی مگر مضبوط اور اونچے فرش والی عمارت کی زمینی منزل (گراونڈ فلور) پر واقع اک کمرے کے سامنے لان کی ہری گھاس، درختوں اور پودوں پر برستی بارش کا منظر شہر کی سڑکوں پر برستے اور بہتے پانی کی تباہی کے منظر سے یکسر مختلف تھا۔

یہاں یا تو گھاس تھی یا پختہ فرش جس پر آسمان سے برستا ہوا پانی جمع تو ہو رہا تھا مگر جیسے اک اور منظر کی تخلیق کرتا ہوا۔ ہاتھ میں چائے کی پیالی لیے یا اس بارش میں بھیگتے ہوئے اس بارش کو محسوس کرنا اک بالکل الگ اور محفوظ سا منظر تھا۔

لیکن باہر سے انے والی خبریں اور ٹی وی کی اسکرینوں پر دکھائی دینے والے مناظر اک اور المیہ کی خبر دے رہے تھے۔ اب چاہے اک جیسے منظر کو بار بار دکھانے کی ٹی وی چینلز کی مجبوری کے باوجود اندازہ ہونے لگا تھا کہ آج شہر میں بارش اک الگ انداز سے برس رہی ہے۔

کچھ لوگ جو دوپہر کو ہی موسم کے تیور بھانپ کر گھروں کی طرف روانہ ہوئے اب کچھ گھنٹے بعد وہ واپس اتے نظر ائے اور پوچھنے پر بتایا کہ ہر اک راستہ پانی سے یوں بھر چکا ہے کہ گاڑی چلانا محال ہے، مسلسل جاری بارش اور سڑکوں پر پانی کے طاقت ور ریلے تو گویا ہر اک چیز کو بہا لے جا رہے ہیں۔

بہت سے چہروں پر پریشانی نمایاں طور پر بڑھتی چلی جارہی تھی کیوں کہ محسوس ہونے لگا تھا کہ آج کی بارش معمول سے کہیں زیادہ شدت کی حامل ہے۔

صبح سے جاری بارش، گزرتی ہوئی دوپہر، سہ پہر سے ہوکر اب اترتی ہوئی شام میں بھی جاری تھی۔ پانچ بج کر تیس منٹ ہوچکے تھے، دفاتر میں موجود باقی ماندہ لوگ بھی گھر جانے کے لیے پر تولنے لگے مگر اندیشے پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہے تھے کہ گھر کیسے پہنچا جائے اور ملنے والی خبریں بتا رہی تھیں کہ سڑکوں پر جمع پانی کے ریلے اب اس قدر شدید ہوگئے ہیں کہ گاڑی چلانا محال ہے، مزید براں سڑکوں پر جمع گاڑیوں کا ہجوم بھی راستوں کو ناقابل رسائی بنا چکا ہے۔

کچھ علاقوں کو متعدد راستے شہرکے باقی علاقوں سے جوڑتے ہیں اور کچھ علاقوں کو صرف ایک ہی راستہ میسر ہوتا ہے۔ اک راستے والے علاقوں کے رہائشی کچھ زیادہ پریشان کہ راستے بارش کی وجہ سے ناقابل رسائی ہونے کی صورت میں ان کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں۔

انسان کی فطرت میں درج سا ہے کہ شام ہوتے ہی گھر کا رخ کرے اور جب کسی بھی وجہ سے گھر جانے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو عموماً طبیعت بوجھل ہونے لگتی ہے اور انسانی مزاج بجھ سا جاتا ہے۔

شام میں ہم بھی اپنے گھر جانے کے لیے دفتر سے نکلنے کا سوچنے لگے تو مختلف خبریں بھی ٹیلی ویژن کی اسکرینوں اور سینہ گزٹ کے ذریعے پریشانی پھیلانے لگیں۔

پتہ چلا کہ شاہراہ فیصل جو شہر کے بہت سے علاقوں کو ائرپورٹ اور دیگر بہت سے علاقوں کو مربوط (کنیکٹ) کرتی ہے بارش کے پانی سے بری طرح متاثر ہے اور ویسے بھی فیصل بیس کی حدود میں کراچی کے دیگر علاقوں کی نسبت اوسط بارش کی سطح سب سے زیادہ رہی ہے اور جاری ہے۔ بارش کے پانی کے بپھرے ہوئے ریلے اور ٹریفک جام اب شاہراہ فیصل کو ناقابل عبور بناچکی ہیں کہ بارش جمعرات کی صج سے ڈھلتی ہوئی شام تک جاری ہے۔

محکمہ موسمیات کی یاداشتوں (ریکارڈ) کے مطابق یہ بارش گزشتہ کئی دہائیوں کی شدید ترین بارش ہے جبکہ پورا مہینہ وقفے وقفے سے شدید اور ہلکی بارش برسنے کا سلسلہ جاری ہے۔

ائرپورٹ سے دو اور راستے شہر کے مختلف علاقوں کی جانب جاتے ہیں۔ اک گلستان جوہر کی جانب سے اور دوسرا ماڈل کالونی کی اک جانب سے گزرتا ہوا ملیر کینٹ کے سامنے کی سڑک سے ہائی وے اور گلشن اقبال کو مربوط (کنیکٹ) کرتا ہے۔

ماڈل کالونی سے ملیرکینٹ کو جانے والی راہ بھی پانی کا شکار اور پھر خبر ملی کہ گلستان جوہر کو جانے والے راستے پر ائرپورٹ سیکیورٹی فورس کی چوکی کے ساتھ واقع پل جس کا ایک حصہ ندی میں گزشتہ روز ہی گر چکا تھا۔ اب اس پل کا دوسرا حصہ بھی شکست و ریخت کا شکار ہونے لگا۔

بہت سے لوگ دوپہر کو ہی دفتروں سے نکل گئے تھے اور جو گھروں کو پہنچ چکے ان کے علاوہ باقی ماندہ لوگ پانی میں ڈوبی ہوئی سڑکوں اور چوراہوں پر کہیں بھٹک رہے ہیں یا پانی کے ریلوں سے بچنے کی کاوشوں میں سرگرداں۔

بغیر کسی الزام اور ذمہ داری دوسرے کے کاندھوں پر ڈالنے کی دوڑ کے، اگر سادہ طور پر کہا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ شہر ڈوب سا گیا ہے۔

کیوں، کیسے، کب اور بہت سارے سوالات متقاضی ہیں کہ ان کا جواب ڈھونڈا جائے، اس لیے نہیں کہ کسی کو مطعون کیا جائے یا رائے عامہ کو کسی کے حق اور کسی کے خلاف کیا جائے۔ جواب ڈھونڈنا اس لیے ضروری ہے کہ اسباب کو حقیقی معنوں میں دریافت کیا جائے اور ائندہ کے لیے اس طرح کی صورتحال کا سدباب کیا جائے۔

شہر آج کچھ دن کی بارش سے ڈوب سا گیا ہے اور موسمی تبدیلیوں کی بدلتی ہوئی صورتحال سے انے والے سالوں میں اس نوعیت یا اس سے شدید بارشوں کی توقع کی جاسکتی ہے تو کیا ضروری نہیں کہ صرف تکنیکی، تحقیقی بنیادوں پر شہر کی جغرافیائی صورتحال، برساتی پانی کی گزرگاہوں اور نالوں پر تجاوزات، غلط منصوبہ بندی سے بننے والی رہائشی اسکیمیں اور عمارات، ناقص اور فرسودہ نکاسی آب (سیوریج) کے نظام اور دیگر متعلقہ امور کو مدنظر رکھتے ہوئے اس طرح کی منصوبہ بندی کی جائے کہ ائندہ ہونے والی بارشوں میں شہر کو ڈوبنے سے بچایا جائے، اس کے ساتھ ساتھ بلدیاتی اداروں، غیرسرکاری اداروں (این جی اوز) ، فلاحی اداروں، پولیس کی شہری سیلاب، شدید بارش یا کسی اور قدرتی آفت یا حادثے کی صورت میں ایک مربوط (انٹیگریٹیڈ) متحرک (ایکٹو) ، موثر اور نتیجہ خیز حکمت عملی ترتیب دی جائے کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں اس کو فوری طور پر بروئے کار لاکر صورتحال کو قابو کرنے کے اقدامات اٹھانا ممکن ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).