سیاسی قائدین کی ناکامی پر عوامی تحریک


اپنے منفرد اور اسٹریٹجک حدود اربعہ کے اعتبار سے چترال، بحیثیت ایک قبائلی ریاست، مشرق براستہ شندور پاس گلگت سے اور جنوب میں لواری پاس، دیر سے ہوتے ہوئے پاکستان کے دوسرے علاقوں سے منسلک ہو جاتی ہے۔ چترال میں زمینی رابطے کا ذریعہ یعنی روڈ ایک اندازے کے مطابق 1970 سے بننے شروع ہوئے۔ گو کہ روڈ کی ضرورت پہلے سے محسوس کی جا رہی تھی اور کام بھی ہو چکے تھے لیکن جو کام بھی ہوا جو کہ بجائے سہولت کے نظریہ ضرورت کے طور پر ہوئے۔

روڈ کی سہولت بننے سے پہلے قافلے، جنگی ساماں اور جنگجو، مشینری اور تجارتی ساز و سامان وغیرہ چترال آنے اور وہاں سے باہر جانے کے لئے چند مشہور گزرگاہوں /دروں سے گزرتے تھے جن میں شندور پاس، لواری پاس، ارندو پاس، بروغل پاس، دورا پاس، ڈرکوٹ، شاہ سلیم پاس کے علاوہ کئی اور راستے ایسے تھے جو ثقافت، صنعت و حرفت، تجارت اور جنگ و جدل کے لئے استعمال ہوتے رہے۔

ریاست چترال کے مغربی جغرافیائی حدود سے متصل ملک، افغانستان، اس وقت چترال میں قبائلی شخصی حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج تھا۔ ریاست چترال سامراجی نظام کی زیرنگرانی اختیار کرنے سے پہلے کشمیر کے مہاراجہ کی رعیت تسلیم کرنے کا وجہ بھی وہی خوف تھا جو تلوار کی طرح ان کے ذہن میں لٹک رہی تھی۔ چترال میں مقامی حکمران برطانوی حکومت کی طرف سے گلگت میں مقیم افسر، کارنیل لوکھرٹ، کے مشن کے ساتھ 1886 کے ایک معاہدے کے تحت پروٹیکٹوریٹ اسٹیٹ بن گئی اور یہ حیثیت آزادی تک جاری رہی۔

چترال میں سامراجی زیرنگرانی کے دوراں کوئی ترقیاتی پیش رفت دیکھنے میں نہ آئی بلکہ ان کا اثر سیاست، ادب، دفاع اور تمدن میں تغیر، ہندوستاں کے دوسرے حصوں کی طرح، واضح رہی۔ ایک طرف مقامی حکمران نہ صرف فوجی اعتبار سے مضبوط رہا بلکہ دفاع کے حوالے سے مقامی لوگوں کی ضرورت ختم ہوئی تو دوسری طرف برطانوی حکومت کا روس کے خلاف دفاعی حکمت عملی مضبوط ہو گئی جو وقت کی اہم ضرورت تھی۔

پاکستان بننے کے بعد چترال، بشمول اس سے متصل قبائلی علاقوں، پر حکومتی توجہ نہ ہونے کے برابر رہی جسے محمد یعقوب بنگش اپنے کتاب میں ”گریجویلیزم“ کی پالیسی قرار دیتی ہے۔ اور یہ گریجویلیزم نہ صرف قانون سازی میں تھا بلکہ ترقیاتی کاموں کے حوالے سے وہی حالت رہی۔ گو کہ اس کے کئی ایک وجوہات بھی تھے بہرحال یہ علاقے روڈ، بجلی، پانی اور دوسرے بنیادی سہولیات سے محروم رہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قبائلی علاقوں میں رائج قانون ایف۔ سی۔ آر (ڈراکونین لا ) دو سال پہلے ختم ہوئی اور یہ علاقہ صوبہ خیبرپختونخوا کے ساتھ ضم ہو گئے۔ اب یہ علاقے قانونی اعتبار سے ان تمام حقوق، بنیادی ضروریات اور سہولیات کے آئینی اعتبار سے متقاضی ہیں اور یہ حق رکھتے ہیں کہ ریاست ان کے قانونی اور آئینی حقوق کو پورا اور تحفظ کرے۔

ضلع چترال، دوسرے قبائلی علاقوں کی نسبت، جو کہ اب دو ضلعوں پر محیط ہے، میں صحت، تعلیم، لنک روڈز، بجلی اور پینے کا پانی اور دوسرے سہولیات زیادہ تر علاقوں میں موجودگی سول سوسائٹی اداروں، خصوصاً آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کے ذیلی اداروں، کی بدولت ہے۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ گزشتہ ہفتے ایک عوامی تحریک، ایک غیر سیاسی اکیڈیمک پروفیسر ڈاکٹر اسماعیل ولی، کی قیادت میں اپنی مدد آپ کے تحت اپر چترال کے ہیڈکوارٹر، بونی، سے مستوج تک تقریباً 30 کو میٹر روڈ کو ٹریفک کے لئے ہموار کرنے کی غرض سے کام شروع کرچکے ہیں، جو ایک تبدیلی سے کم نہیں۔ یہ صورتحال اس وقت شروع ہوئی جب بھوک ہڑتال کو ختم کروانے کے لئے عوامی نمائندے اس روڈ پر نوجوانوں اور عوام سے ملاقات کی اور اس پر جلدی کام شروع کرنے کے وعدے کر کے چلے گئے لیکن وہ دن سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد نہیں آیا تو عوام حرکت میں آ گئے ہے۔

اپر چترال کی عوام اس سال کے بچت میں کم ازکم اس روڈ کے لئے بچت مختص کرنے کی توقع رکھتا تھا وہ بھی نہ ہوا تو عوام اپنی مدد آپ کے تحت کام شروع کر چکے ہیں۔ اپر چترال میں موجودہ صورتحال یہ ہے کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما وہاں عوام کا سامنا نہیں کر سکتا خصوصاً حکمران جماعت کے قائدین۔

اپر چترال میں یہ جو عوامی تحریک شروع ہو چکی ہے یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ علاقے میں سیاسی قیادت عوام سے تعلق اور عوامی مسائل کو حل کرنے کی طاقت کھو چکی ہے اور عوام سیاسی راہنما اور نمائندگان سے نالاں ہیں۔ سیاسی راہنما اس عوامی تحریک کو اپنے سیاسی ایجنڈا اب تو نہیں بنا سکتے کیونکہ وہ اسے پہلے بنا چکے ہوتے تو یہ نوبت نہ آتی کیونکہ ہمارے علاقے میں سیاست شخصی، مسلکی، قبائلی (قومی) ، اتحادی مفادات اور رشتہ داری کی بنیاد پر کی جاتی ہے اور ”ایشو بیسڈ“ سیاست اب تک چترال میں شروع نہیں ہو چکی ہے جو کہ ملک میں بھی محدود حد تک موجود ہے اور چترال کے لوگ انہی طبقات میں بٹے سیاست کا شکار ہیں۔

ایک بات واضح ہے کہ روڈ بنانے کا یہ عوامی قدم، جو اپنی مدد آپ کے تحت جاری ہے، اس طرح کامیاب نہیں ہو سکتا جس طرح حکومت کی موجودگی سے ہو سکتا ہے۔ کام کو جاری رکھنے کے لئے مخیر حضرات چندہ بھی دے رہے ہیں لیکن یہ ناکافی ہے۔ اس تحریک کو کامیاب کرنے کے لئے علاقے میں تمام سیاسی جماعتوں کے راہنما، چہرہ بچانے کے لئے بھی، اس عوامی تحریک کا حصہ بن کر، عوام کے ساتھ مل کر حکومت پر سیاسی دباؤ ڈال کر اس میں مشینری، انسانی اور دوسرے وسائل لانے کی کوشش کریں گے تو یہ قدم کامیاب ہو سکتا ہے۔ اس روڈ کا مسئلہ حل اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اسے پختہ نہ کیا جائے۔

یہ جو حکومت کی ذمہ داری ہے جسے عوام کرنا شروع کریں تو حکومت کیا کرے گی؟ اور جس طرح یہ کام ہونا چاہیے اس کے لئے وسائل غریب عوام کہاں سے لائیں اور اسے حتمی شکل کس طرح دی جا سکتی ہے۔ سیاسی راہنما اور نمائندے مل کر ایک آل پارٹیز کانفرنس منعقد کر کے جس میں اس تحریک کے لوگوں کو شامل کر کے ایک نمائندہ جماعت بنا کر صوبائی حکومت سے اس حوالے سے نشست کر کے اس روڈ کے لئے فنڈ جاری کر کے اسے جنگی بنیادوں پر پختہ کرنے کے عمل کو شروع کرنے کو یقینی بنایا جائے تو اس عوامی تحریک کا ایک مثبت نتیجہ ہو سکتا ہے۔

الحاج محمد خان
Latest posts by الحاج محمد خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).