ہمارے بچپن کا محرم صرف شیعوں کا نہ تھا


یوں تو مجھے اسلامی مہینے اب جا کر کہیں یاد ہوئے ہیں۔ مگر بچپن میں بس دو ہی مہینوں کا پتہ ہوتا تھا۔ رمضان اور محرم۔ رمضان میں روزوں کے لیے اہتمام کرتے ہوئے بڑوں کو دیکھ کے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ کوئی خاص مہینہ ہے۔ اور خوشی یہ ہوتی تھی کہ عید آئے گی تو نئے کپڑے جوتے اور عیدیاں ملیں گی۔ محرم میں یکم محرم سے دس محرم تک امی اور خالائیں ہر چیز پہ پابندی لگا دیتیں۔ وی سی آر پہ فلمیں دیکھنا بند ہو جاتا۔ ڈیک پہ گانے نہ چلتے۔ اور ٹی وی پہ سوائے کارٹون کے ہمیں دیکھنے کو ویسے ہی کچھ نہ ملتا تھا۔

میں نے اپنے بچپن کا کچھ حصہ کراچی گزارا ہے۔ کچھ گاؤں اور زیادہ تر لاہور۔ میں آج اپنے بچپن کا دور یاد کرتی ہوں۔ تو یاد آتا ہے کہ اس وقت لوگوں کے دکھ سکھ سانجھے ہوتے تھے۔ ایک دوسرے کا احترام تھا۔ لاہور ہمارے محلے میں ایک گھر شیعوں کا تھا۔ تو محرم کے دنوں میں خاص خیال رکھا جاتا کہ ان کی دل آزاری نہ کی جائے۔

بچپن میں میری دوست اور میں نے گڈے گڑیا کی شادی رکھ لی۔ اب جب دن وغیرہ طے ہو گئے تو گھر والوں سے پتہ چلا کہ جس دن ہم نے مہندی رکھی ہے۔ اس دن تو دس محرم بن رہی ہے۔ ہم بچے تھے۔ ہمیں تو بس یہ ضد تھی کہ سہیلیوں کو شادی کا کہہ دیا ہے۔ تو اب منع نہیں کر سکتے۔ ہم نے تو شادی کر کے رہنا ہے۔ شادی کی اجازت اس شرط پہ ملی کہ نہ تو ڈیک پہ گانے لگیں گے۔ نہ ہی ڈھولکی بجے گی۔ چونکہ دس محرم ہے۔ سوگ کا دن ہے۔ تو بس آپس میں بیٹھ کے مہندی کرو۔ اور شور نہیں کرنا۔ ہم ایسی بے سری مہندی پہ بہت روئے چلائے۔ مگر ہمارے بڑوں نے اپنی منوا کے چھوڑی۔ یہ احترام ہی تھا۔ کہ محلے میں رہنے والے اہل تشیع ہمسایوں کی دل آزاری نہ ہو۔

میں مہندی سے پہلے ان کے گھر سے رونے کی آواز سن کے ان کے گھر چلی گئی۔ چونکہ ان کی بچیاں میری سہیلیاں تھیں۔ تو مجھے لگا کہ شاید کچھ ہو گیا ہے ان کے گھر۔ جب میں وہاں پہنچی تو وہ لوگ ماتم کر رہے تھے۔ میری عمر دس سال کی ہو گی تقریباً۔ مجھے نہیں علم تھا واقعہ کربلا کا۔ بس یہی پتہ تھا کہ غم مناتے ہیں۔ خیر وہ لوگ یا حسین کر کے سینوں پہ ہاتھ مار رہے تھے۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ یہ کس کے لیے رو رہے ہیں۔ کہ حسین نام کا تو ان کا کوئی بھی بھائی یا رشتے دار نہیں۔

مگر اس مجلس کا اثر یہ ہوا کہ میں نے بھی ان کی تقلید شروع کر دی۔ اتنی دیر میں میری دوست نے مجھے دیکھ لیا۔ تو اس نے پریشانی سے مجھے کہا کہ یہاں کیا کر رہی ہو۔ اس نے مجھے گھر جانے کا کہا۔ اتنی دیر میں میری دوسری دوست مجھے ڈھونڈتے ہوئے وہاں آ گئی۔ اور تقریباً گھسیٹتے ہوئے مجھے وہاں سے لے کر آئی۔ اس نے مجھے کہا کہ تم پاگل ہو۔ یہ شیعہ ہیں۔ یہ ماتم کر رہے تھے۔ تم یہاں کیوں آئی۔ کوئی دیکھ لیتا تو مسئلہ بن جاتا۔ مگر مجھے گھر میں کچھ نہ کہا گیا۔ بس یہ کہا کہ اب مت جانا۔

نویں میں جا کر شیعہ اور سنی دو الگ مسلک ہیں۔ یہ پتہ چلا۔ تب بھی امی نے پوچھنے پہ یہی کہا کہ سب اللہ تعالی کی بنائی مخلوق ہیں۔ کسی سے بحث نہیں کرنی۔ سب سے اچھے سے ملو۔ مذہب پہ بحث نہیں کرنی۔ یہ نکتہ آج تک دماغ میں بٹھا رکھا ہے۔

محرم کا پہلا جلوس، باقاعدہ ماتم کرتے اہل تشیع زنجیریں اور چھریاں یہ سب میں نے گاؤں میں دیکھا۔ چونکہ ہمارا گھر شہر میں تھا۔ اور مین سرکلر روڈ تھی۔ تو وہاں پہ باقاعدہ جلوس رکتا تھا۔ ذوالجناح کے سامنے ماتم ہوتا۔ لوگ منتیں اٹھاتے۔ اور پھر یہ جلوس کچھ فاصلے پہ واقع امام بارگاہ میں جا کر ختم ہو جاتا۔ ہمارے گھر کے سامنے جلوس جب رکتا۔ تو ماموں ٹھنڈے پانی کا کولر بنا کر باہر بیٹھ جاتے۔ اور پانی پلاتے۔

چونکہ کافی محلے دار اہل تشیع ہوتے۔ تو ان سے بات چیت بھی کرتے۔ بیٹھنے کے لیے بینچ رکھتے۔ اور مسلسل موجود رہتے۔ کہ کسی کو پانی پینا ہے۔ یا کسی چیز کی ضرورت ہو تو وہ کام آ سکیں۔ ماموں کی شادی کو اس وقت پانچ سال ہو چکے تھے۔ تب ممانی کو میں نے کھیر کے پیالے منت کے طور پہ اٹھاتے دیکھا۔ اور بھی دو تین طرح کی منتیں مانی گئیں۔ اور جب اولاد ہوئی تو وہ منتیں اتاری بھی گئیں۔ مگر اس وقت تک منتیں بھی شیعہ سنی کی تکرار سے بچی ہوئی تھیں۔ اس لیے کسی نے ماموں ممانی پہ کفر کے فتوے نہ لگائے۔

میری فیملی کے لوگ درباروں پہ جاتے ہیں۔ میں نے بچپن سے دربار پہ جانے کی تیاریاں دیکھی ہیں۔ محرم میں بی بی پاکدامن کے مزار پہ جانا لازم ہوتا۔ اور عام دنوں میں داتا صاحب و پیر مکی پہ حاضری لازم ہوتی۔ محلے میں نیاز بٹتی تو سب کے گھروں میں آتی بھی تھی اور جاتی بھی تھی۔ نیاز کی چیز کو چوم کے کھایا جاتا۔ نہ تو گرانے کی رسم تھی۔ نہ ہی ماسیوں کو دیا جاتا۔ بلکہ اس بات کی سختی بھی ہوتی کہ کوئی زرہ زمین پہ نہ گرے۔ کوئی لقمہ ضائع نہ ہو۔ ہم نے اپنے بچپن و نوجوانی کے دنوں میں کبھی فرقہ ورانہ لڑائی نہیں دیکھی۔ ہاں مگر اس کی فصل شاید اسی دور میں بوئی جا رہی تھی۔ جس کو آج ہماری نسل بھگت رہی ہے۔

جن جلوسوں کے نکالنے والوں کو کبھی ٹھنڈے پانی، شربت و باداموں والے دودھ پیش کیے جاتے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ کافر ہونے لگے۔ لہجوں میں نفرت اترنے لگی۔ دہشت گردی نے جگہ بنالی۔ احترام کی جگہ بم دھماکوں نے لے لی۔ سنی، شیعہ دیوبندی بریلوی اہل حدیث سب نے آپس میں کافر کافر کھیلنا شروع کر دیا۔ اب مسجد مسلمان کی نہیں رہی۔ مسلک کی ہو گئی ہے۔ اب اپنے مسلک کی مسجد میں ہی جا سکتے ہیں۔ دوسرے مسلک والے کے لیے کوئی جگہ نہیں رہی۔ اب امام حسین کے سوگ پہ بس شیعوں کا حق ہے۔

آپ محرم میں کالے کپڑے پہن لیں۔ لوگ پوچھنے لگیں گے کہ آپ شیعہ ہیں کیا؟ اب کوئی رافضی بن گیا ہے۔ کوئی ناصبی۔ ہر ایک نے دوسرے کو کافر ثابت کرنے کی دوڑ لگا لی ہے۔ ہم اگر بچپن میں کبھی کھیلتے ہوئے ایک دوسرے کو کافر کہہ دیتے۔ تو فوراً سے بیچ میں سے کوئی بچہ کہتا۔ کہ ایسے نہیں کہتے۔ اللہ میاں ناراض ہوں گے۔ اب اللہ میاں کی ناراضی کی کسی کو پرواہ نہیں۔ پرواہ بس یہ رہ گئی ہے کہ کسی پہ کافر کا ٹھپہ لگنے سے رہ نہ جائے۔

میرے وہی گھر والے جو کبھی نیاز پہ کوئی بات نہ کرتے تھے۔ آج ان کے بقول وہی نیاز کھانا گناہ ہے۔ کسی کا دعوی ہے کہ اس میں تھوک ڈالتے ہیں۔ کسی کا دعوی ہے کہ خون۔ اور کسی کے بقول لید۔ آج تک کسی نے اپنی آنکھوں سے یہ سب ہوتے نہیں دیکھا۔ مگر دعوے سے باز کوئی نہیں آتا۔ جبکہ اللہ تعالی نے تو بہتان لگانے سے بھی منع کیا ہے۔

مجھے تو دو دن پہلے بھی یہی سب کا لیکچر ملا۔ جس پہ میں نے کہا کہ میں تو ربیع الاول کی نیاز بھی کھا لیتی ہوں۔ مولا علی کا لنگر بھی۔ مجھے نہ تو کسی کرسچن کے کھانے سے موت آئے گی۔ نہ ہی ہندوؤں کا کھانا کھانے سے میرے ایمان پہ کوئی فرق پڑے گا۔ مسئلہ بس یہ ہے کہ ہم نے خدا کے کرنے والے کام اپنے ذمے لے لیے ہیں۔ ہم نعوذ باللہ خدا بننے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ہم ترازو پکڑے لوگوں کے ایمان تولتے پھر رہے ہیں۔ جبکہ ایمان کی کسوٹی پہ تو اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندے کو پرکھ سکتے ہیں۔

ہم حقوق اللہ کے چکر میں حقوق العباد بھول چکے ہیں۔ ہم نے بطور انسان دوسرے انسان کو عزت دینا چھوڑ دیا ہے۔ جو ہمارے نظریات و عقائد کے مخالف ہے۔ اسے کافر کہہ کے مار دو۔ بھئی مرنے کے بعد سب نے اپنی اپنی قبر میں جانا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ نیاز دین کی قبر میں حساب نوشی جا کر دے گی۔ اور نوشی کے اعمال کا حساب کسی شازیہ نے دینا ہے۔ تو جب حساب اپنا اپنا ہے۔ دینا اللہ کو ہے۔ تو پھر خود کیوں فرعون بنتے ہیں۔ میں تو درخواست ہی کر سکتی ہوں۔ کہ ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کریں۔ حلیم، حلوے، بریانی اور زردے کو مسلک کی جنگ سے نکال دیں۔ ہمارے جیسے انسانیت پرستوں کے لیے یہ دنیا جینے کے قابل رہنے دیں۔ اور اللہ کے کرنے کے کام اللہ کے لیے رہنے دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).