ہاسٹل میں خودکشی یا قتل؟


ستائیس اگست 2017 ء کی صبح نو بجے کے قریب مجھے کلاس فیلو عدنان رانا کی کال آئی کہ خالد بن ولید ہاسٹل (اولڈ کیمپس) جامعہ پنجاب کے کمرہ نمبر 169 میں ایک لاش پڑی ہے اور کئی دن پرانی لگ رہی ہے۔ چہرے اور جسم کی حالت اس قدر بگڑ چکی ہے کہ پہچان ناممکن ہے اور تعفن کی وجہ سے قریب جانا مشکل ہے۔ ہاسٹل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ کمرہ شعبہ اردو کے طالب علموں کو الاٹ تھا لہٰذا آپ کسی اردو کے طالب علم کو بلائیں تاکہ پہچان ممکن ہو۔

میں ان دنوں لاہور کے ایک نجی کالج میں بطور اردو لیکچرار ملازمت کر رہا تھا جو اورینٹل کالج (اولڈ کیمپس) سے چند منٹ کی پیدل مسافت پہ تھا۔ میں دس منٹ میں ہاسٹل پہنچا، انتظامیہ نے بتایا کہ اس کمرے میں ہمارے دوست شاعر تہذیب حافی اور شاہد خان نامی طالب علم کی الاٹ مٹ ہے اور حافی تو کچھ روز قبل ہی ہاسٹل سے پرائیویٹ فلیٹ پہ شفٹ ہوا تھا اور شاہد خان کئی دن سے گھر (بہاول نگر) تھا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ جن دو لوگوں کے نام الاٹمنٹ ہے وہ دونوں ہاسٹل میں نہیں جبکہ ایک تیسرا شخص کمرے میں کیسے موجود ہو سکتا تھا؟

اس کمرے کی چابی کسی تیسرے شخص کے پاس کیوں تھی جو ہاسٹل کا الاٹی بھی نہیں تھا؟ اگر اس سوال پہ بات کریں تو معاملہ بہت گمبھیر ہو جاتا ہے کہ غیر الاٹی لوگ ہاسٹل کے کمروں میں کیسے جاتے ہیں اور کس تعلق کی بنیاد پر رہتے ہیں۔ یہ بات ہمیشہ میری سمجھ سے باہر رہی کہ ”الیگل“ لوگ کن کی سپورٹ سے سالوں ہاسٹل کے کمروں پہ قابض رہتے ہیں اور انتظامیہ خاموشی کا مظاہرہ کس لیے کرتی ہے؟ آپ آج بھی پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹلز کی دیانتداری سے فہرست مرتب کر لیں، پچاس فیصد سٹوڈنٹ نجی اداروں کے نکلیں گے یا پھر ایسے ہوں گے جن کی ڈگری مکمل ہوئے سالوں گزر گئے مگر کوئی جمعیت کی سرپرستی میں دن گزار رہا ہے تو کوئی کسی دوسری سیاسی و مذہبی جماعت کی تعلق داری میں۔

خیر مجھے کمرہ نمبر 169 میں لایا گیا، تعفن سے وہاں کھڑا ہونا ناممکن تھا۔ لاش کے چہرے پر لگی عینک سے کچھ شکل واضح ہوئی اور کچھ پاس پڑے بٹوے سے واضح ہوا کہ یہ میرا ہی کلاس فیلو منظور جمشید کمبوہ ہے جو کئی دن سے ہمیں نظر نہیں آیا لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا کمرہ نمبر تو گراؤنڈ فلور پر 60 نمبر تھا، یہ اس کمرے میں کیا کر رہا ہے اور پھر خودکشی کرنے کی وجہ کیا ہے؟ خیر منظور کی لاش پوسٹ مارٹم کے بعد رات کے گیارہ بجے نیلا گنبد ”ڈیڈ ہاؤس“ سے اس کے اہل خانہ کے سپرد کر دی گئی، لاش کے پاس سے ملنے والی چیزوں کو فرانزک کے لیے ٹیم کے سپرد کر دیا گیا۔

آج تین سال ہو گئے میں اس واقعے کو بھول نہیں سکا، میں ہمیشہ ان چند سوالوں پہ غور کرتا ہوں جو منظور جمشید کی اس ناگہانی موت نے اپنے پیچھے چھوڑے تھے۔ آپ جان کر حیران ہوں گے کہ خود کشی کرنے والا شخص کی لاش بالکل سیدھی چارپائی پر کیسے ہو سکتی ہے؟ خود کشی کرنے والا کیا بالکل بھی نہیں تڑپا؟ لاش کی حالت یہ تھے کہ ایک عینک اس نے پہن رکھی تھی جبکہ ایک عینک اس کے ہاتھ میں تھی، کتنی عجیب بات ہے کہ خودکشی کرنے والا دوسری عینک ہاتھ میں پکڑ کر مرا۔

لاش پر سفید رنگ کا پاؤڈر گرا ہوا تھا، یہ پاؤڈر کہاں سے آیا اور کیسے آیا، فرانزک کی رپورٹ بالکل خاموش ہے۔ منظور جمشید نے ایک آخری ”ڈیڈ نوٹ“ بھی لکھا مگر وہ نامکمل کیسے رہ گیا؟ دو صفحات پر چند کلاس فیلو کے نام کے بعد اس کی تحریر خاموش کیوں ہو گئی، نہ الوداعی سلام، نہ گھر والوں سے کوئی گلہ شکوہ اور نہ ہی اختتامی کلمات۔ اس کے موبائل فون کا ڈیٹا بھی اسی طرح محفوظ ہے یعنی خودکشی سے پہلے اس نے اپنی پرائیویسی کس کے لیے چھوڑی؟

کمرہ اندر سے بند تھا یا باہر سے لاک یا کہ کھلا تھا، یہ بات بھی آج تک پوشیدہ رکھی گئی۔ کیا فرانزک والے اس معاملے میں بہتر رپورٹ پیش نہیں کر سکے؟ یا فرانزک ٹیم اس معاملے میں خاموش کرا دی گئی؟ پوسٹ مارٹم رپورٹ تک آج تک سامنے نہیں آئی اور اگر آئی بھی تو منظور کے اہل خانہ اس کو سامنے کیوں نہیں لا سکے۔ مذکورہ سوالات وہ ہیں جو منظور کے اہل خانہ سمیت کئی قریبی احباب آج تین سال بعد بھی اٹھا رہے ہیں۔ میں منظور کا دوست ہونے کے ناتے ان سوالات کی حمایت کرتا ہوں کہ واقعی ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے چاہیں تاکہ آئندہ کوئی منظور کسی کمرے سے مردہ نہ پایا جائے۔

میں نے اس واقعے کے بعد انتظامیہ سے کہا کہ کیمروں کی مدد سے دیکھیں کہ کمرے میں آخری دفعہ کون آیا تھا؟ مگر انتظامیہ کیسے دیکھتی کیونکہ کیمرے تو ہاسٹل میں لگے ہی نہیں۔ اس سارے واقعے کو گزرے تین سال گزر گئے لیکن آپ ظلم دیکھیں کہ ابھی تک بھی پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹلوں میں کیمرے نہیں لگائے جا سکے، ہر سال پنجاب یونیورسٹی میں خودکشی کے کیسز ہوتے ہیں مگر معاملہ ہمیشہ خودکشی کہہ کر دبا دیا جاتا ہے حالانکہ مجھے یقین ہے کہ منظور جیسے واقعات کی اگر حقیقی بنیادوں پر تحقیق کی جائے تو معاملہ خودکشی سے یقیناً مختلف ہوگا۔

جامعات میں ہونے والے ایسے واقعات کو عموماً محبت کے کھاتے میں ڈال کر دفن کر دیا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے واقعات آج بھی پنجاب یونیورسٹی کے در و دیوار میں زندہ و جاوید ہے اور ہم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہہ ہمارے قاتل پکڑے جائیں، انہیں سزا دی جائے۔ میں نے گزشتہ کالم میں کہا تھا کہ خود کشی کچھ نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی قتل ہوتا ہے۔ کبھی گھر والے، کبھی دوست، کبھی محبوب یا کبھی ہمارے سماجی رویے قاتل ٹھہرتے ہیں اور ہم ہمیشہ مرنے والے کو برا بھلا کہہ کر معاملہ دبا دیتے ہیں۔

منظور جمشید سے جڑی انارکلی عباسی ٹی اسٹال کی یادیں، اورینٹل کالج کے لان اور کیفے ٹیریا میں گزاری گئی کتنی شامیں، مختلف شہروں کے کتنے ہی سفر اور کتنے ہی تحائف میری یادوں کے ”میموری کارڈ“ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہیں مگر منظور کا قاتل کون ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جس نے گزشتہ تین سال مجھے سکون سے نہیں بیٹھنے دیا۔ اگرچہ میرے کلاس فیلوز جن سے منظور کے مجھ سے زیادہ اچھے تعلقات تھے، وہ اس معاملے میں ہمیشہ دور رہے حالانکہ یہ اجتماعی مسئلہ تھا۔

کبھی کسی نے اس پر بات کی اور نہ ہی تحقیق، منظور کے گھر والے بھی اس معاملے میں ہمیشہ خاموش نظر آئے حالانکہ انہیں اس معاملے کی مکمل تحقیق کرنی چاہیے تھے مگر نہیں کی جا سکی، نہ جانے کون سے مصلحت آڑے آئی۔ دوسری جانب یونیورسٹی ہاسٹلز انتظامیہ کا رویہ بھی ناقابل بیان، نہ کبھی کسی نے ایسے واقعات کی تحقیق کی اور نہ ہی ان کی روک تھام کے لیے کوئی خاص حفاظتی اقدامات کیے جا سکے۔ یعنی آج بھی اولڈ کیمپس ہاسٹل میں کیمرے یا حفاظتی اقدامات نہیں ہیں۔

کئی کمروں سے دن دیہاڑے موبائل اور پیسے چوری کر لیے جاتے ہیں، ہاسٹل گراؤنڈز سے کتابیں، کپڑے تک اٹھا لیے جاتے ہیں مگر کوئی تحقیق یا کیمرہ نہیں۔ لہٰذا جب تک ان واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی بنیادی لائحہ عمل ترتیب نہیں دیا جائے گا، یہ واقعات ہوتے رہیں گے۔ کتنے ہی منظور، کتنی عائشہ اور کتنی ہی جویریہ نامی لڑکیاں آئے دن جامعات میں قتل ہوتی رہیں گی مگر ہم خودکشی کہہ کر معاملہ اپنے سر سے ٹال دیا کریں گے اور یوں ایک دن جامعات مقتل کا روپ دھار لیں گی۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).