مصنوعی نہیں حقیقی تبدیلی کی ضرورت ہے


پچھلی صدی میں دو بڑے انقلاب لائے گئے تھے۔ روس میں دعوا کیا گیا تھا کہ لوگوں کی زندگیوں میں انقلابی اور بنیادی تبدیلی لائی جائے گی۔ کم و بیش یہی وعدے چین میں بھی کے گئے تھے۔ مگر ستر سال گزرنے اور لاکھوں لوگوں کے جان سے چلے جانے کے باوجود حالات دوبارہ وہیں پہنچ گئے جہاں سے شروع ہوئے تھے لوگوں نے انقلاب کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔

پاکستان میں بھی دو سال قبل تبدیلی کے نعروں نے نئی بلندیوں کو چھو لیا تھا۔ ایک نیم سیاسی جماعت کی طرف سے انقلاب کے نعروں کو سونامی کا نام بھی دے دیا گیا تھا۔ انقلاب کی بات اتنی زور پکڑ گئی تھی کہ بہت سارے لوگ انقلابی بینڈ ویگن میں شامل ہو گئے۔ لیکن حکومت میں آنے کے بعد آج ان سب کو بد ترین ناکامی کا منھ دیکھنا پڑ رہا ہے۔

پاکستان کو تبدیلی کی ضرورت ہے مگر نظام کو تبدیل کرنا اور اس کو بہتر بنانا ایک ارتقائی عمل اور نسلوں کا کام ہے۔ تبدیلی کا عمل راتوں رات رونما نہیں ہو جاتا بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہے جو سالوں نہیں بلکہ عشروں جاری رہتا ہے۔ تبدیلی ایک مکان بنانے جیسا کام ہے۔ پہلے نقشہ بنتا ہے پھر ایک کے بعد دوسری اینٹ رکھی جاتی ہے، آخر میں عمارت کو بنایا سنوارا جاتا ہے اور نکھارنے کا یہ عمل مسلسل ارتقا پذیر رہتا ہے۔

تبدیلی چاہے کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو اس کے لئے مستقل کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں تبدیلی کا نعرہ بلند کرنے والی جماعت اور اس کو لانے والوں کے پاس مستقبل کا کوئی نقشہ موجود ہی نہی تھا کیونکہ ان سب کا مقصد تعمیر نہیں تخریب تھا۔ انہیں دراصل جمہوریت کی اس عمارت کو زمیں بوس کرنا تھا جو آئینی بنیاد سے اوپر اٹھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ آج اس تخریب کا نتیجہ سب دیکھ دیکھ سکتے ہیں، دو سال بعد ملک مزید انتشار کا شکار ہے اور آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے جا رہا ہے۔

پاکستان اور بھارت کو یکساں سماجی و معاشی اور انتظامی ڈھانچہ وراثت میں ملا تھا اور دونوں ملک ایک ہی طرح کے برطانوی نوآبادیاتی نظام سے آزاد ہوئے تھے۔ مگر 70 سال بعد حالات کتنے مختلف ہیں۔ پاکستان لا متناہی بحرانوں کی زد میں ہے اور سیاسی و سماجی نظام میں مستقل مزاجی کا فقدان ہے۔

دوسری طرف ہندوستان میں بڑی حد تک ہموار سیاسی اور معاشی تبدیلی کا مظہر نظر آتا ہے۔ نظم حکمرانی میں نیم انتشار کی کیفیت وہاں بھی رہتی ہے لیکن جمہوری عمل میں کوئی تعطل پیدا نہیں ہوتا اور انتخابات جیتنے کے بعد عوامی نمائندے ملک کا نظم و نسق چلاتے ہیں۔

پاکستان کی بانی جماعت عوامی نمائندگی کے حق میں تھی لیکن وہ صنعتی اور متوسط طبقے کی عدم موجودگی کے باعث مضبوط و منظم سول اور فوجی اداروں کے دباؤ کا مقابلہ نہیں کر سکی اور نظام حکومت چلانے کے لئے سول اور فوجی افسرشاہی پر انحصار کیا۔ اس نے نظام کو جمہوری بنانے، بیوروکریسی کو تبدیل کرنے، امن و امان میں بہتری لانے اور سرخ فیتے کے انتظامی کلچر میں تبدیلی کی کوئی کوشش نہیں کی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ ملک تخلیق کرنے والے سیاست دان جمہوری نظم تخلیق نہ کر سکے اور ملک پر آمرانہ نظام مسلط ہو گیا۔

آمرانہ نظام کا المیہ یہ ہے کہ وہ تبدیلی کے نام پر جمود کو برقرار رکھتا ہے یہ نظم بیرونی تبدیلیوں کا اثر قبول کرتا ہے لیکن اپنے سماج کے اندر حقیقی تبدیلیوں کی مزاحمت کرتا ہے کچھ ایسا ہی پاکستان میں ہوا۔

قرضوں اور امداد پر انحصار نے مصنوعی طور ترقی کو آگے بڑھایا۔ برین ڈرین کے نتیجے میں بہت باصلاحیت پیشہ ور افراد ملک سے باہر چلے گئے۔ ایک رجعت پسند مڈل کلاس نے خلا کو پر کیا۔ سرد جنگ کے دوران پاکستان میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ پاکستان ایک طفیلی ریاست میں تبدیل ہو گیا عوامی رائے عامہ چوں کہ امریکہ کے خلاف تھی اس لیے امریکا نے فوجی آمریتوں کو مستحکم کیا فوجی آمروں نے جمہوری حقوق سلب کیے جس سے سیاسی بحران پیدا ہوا اور ملک ہی ٹوٹ گیا۔

ستر کی دہائی میں صنعتوں، بنکوں اور چھوٹے کاروبار کو قومیانا ملک کی صنعتی ترقی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔

افغان جہاد سے مزید تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کو عروج ملا جس نے سماجی، سیاسی اور معاشی طور ملک کو تباہ کر دیا۔ 9 / 11 کے بعد ہونے والی تبدیلیوں نے نئی صورت حل پیدا کر دی۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں دراڑ پڑ گئی اور پاکستان کو پہلی بار عالمی تنہائی کا سامنا ہے۔ اس تنہائی نے ملک کو بد ترین معاشی اور سیاسی دلدل میں دھکیل دیا ہے اس خوف ناک دلدل سے نکلنے کا راستہ وہ تبدیلی نہیں ہے جو 2018 میں مسلط کی گئی ہے۔ اس کا واحد راستہ یہی ہے کہ طاقت ور غیر سیاسی قوتیں پس منظر میں جا کر اصل جمہوری قوتوں کو منظر پر ابھرنے دیں۔
پاکستان کو مصنوعی نہیں حقیقی تبدیلی کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).