پولیس اصلاحات ضروری مگر کیسے؟


جب شعور کی وادی میں قدم رکھا تب ایک سوال ہمیشہ ذہن پر دستک دیتا رہا کہ اس ملک میں جتنی عزت خاکی وردی کی ہے اتنی کالی وردی کی کیوں نہیں؟ اس ملک کے ادیبوں، دانشوروں شاعروں اور گلوکاروں نے اپنے فن کا جادو صرف خاکی وردی کے لیے ہی کیوں جگایا؟ پولیس کے ساتھ سوتیلا رویہ کیوں روا رکھا گیا؟ کسی ادیب دانشور، قلم کار، شاعر یا گلوکار کی اس طرف توجہ کیوں نہیں گئی؟

دوسرا سوال یہ تھا کہ پولیس فرنٹ پر لڑتی ہے۔ پولیس کے پاس وسائل بھی نہیں ہوتے اس کے باوجود اس کے جوان ہتھیار نہیں پھینکتے، بھاگنے کی بجائے موت کو ترجیح دیتے ہیں۔ قوم ان سے نفرت کیوں کرتی ہے؟ یہ مر جائیں تو لوگ دکھی کیوں نہیں ہوتے؟ ان کے لیے کوئی آنسو بہانے والا کیوں نہیں ہوتا! قوم کے اس سلوک خاص کی وجہ کیا ہے؟

کوئٹہ جب پولیس پر دھماکہ ہوا تھا تب نوجوانوں کے لیے ایمبولینس بھی میسر نہیں تھی۔ سپاہیوں کی لاشیں گاڑیوں کی چھتوں پر رکھ کر گھروں کو روانہ کی گئیں، پھر بھی کسی کی آنکھ نم نہیں ہوئی تھی۔ کسی دل میں درد نہیں اٹھا تھا۔ کسی ادیب و دانشور کو چار حرف لکھنے کی توفیق نہیں ہوئی تھی۔ آج کی نورجہاں کو بھی ”اے پتر ہٹاں دے“ گاتے نہیں سنا! یہ سب کیوں ہے اور آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا؟

یہ سوال اس سماج کے سامنے بھی رکھا، یہی سوال پولیس افسران کے سامنے بھی رکھا ہر ایک نے اپنا مشاہدہ بیان کیا، ایک عام شہری کے طور پر میں نے چند روز پولیس کے ساتھ گزارے، پولیس کے نظام کو قریب سے دیکھا چند چیزیں محسوس ہوئیں جنہیں زیر قلم لانا ہے۔

عوام اور پولیس کے درمیان دوری کی پہلی وجہ پولیس کا کمزور بیانیہ ہے۔ فوج نے اس قوم کو یہ منوایا کہ ہم جاگتے ہیں تب آپ سوتے ہیں۔ آپ بے غم سوئیں آپ کے محافظ جاگ رہے ہیں جب کہ پولیس لوگوں کو یہ سمجھانے سے قاصر رہی کہ پولیس آپ کی محافظ ہے۔ لوگ پولیس سے خوف کھاتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں پولیس طاقت ور کی غلام ہے۔ پولیس کسی بھی وقت ظلم کر سکتی ہے۔ پولیس کو تشدد کا بہانہ چاہیے، اور لوگوں کی یہ رائے کسی حد تک درست بھی ہے۔

ادھر کسی نے ایف آئی آر کٹوائی ادھر پولیس چھاپہ مارنے گھر پہنچ گئی۔ چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کر دیا، ایف آئی آر کٹوانے والا کون ہے پولیس یہ نہیں دیکھتی، پولیس کی جیب جس نے گرم کی پولیس اسی کی ہے۔ تھانہ وہ جگہ ہے جہاں ظالم بھی پیسہ دیتا ہے اور مظلوم ہے۔ تفتیش کے نام پر جو تشدد تھانوں میں ہوتا ہے اس سے اللہ ہی بچائے۔

دنیا بھر میں بارِ ثبوت مدعی پر ہوتا ہے۔ ہماری پولیس اور ہمارے نظام انصاف میں بنیادی فرق ہے۔ نظام ثبوت مدعی سے مانگتا ہے اور پولیس ملزم سے کہتی ہے خود کو بے گناہ ثابت کریں، پولیس کا تشدد ملزم پر ہوتا ہے۔ الزام لگانے والے کو پولیس نہیں پوچھتی، کیس جب عدالت میں چلتا ہے تو مدعی ثبوت پیش نہیں کر پاتا اور ملزم چھوٹ جاتے ہیں۔

پولیس کے نظام میں بہتری لانے کے لیے ایف آئی آر کا اندراج آسان ہونا چاہیے لیکن ایف آئی آر کے درج ہوتے ہی چھاپوں کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، جس کے خلاف شکایت آئے اسے بلا کر تفتیش کی جائے اور جب تک ثبوت ہاتھ نہ لگ جائیں تب تک گرفتاری نہیں ہونی چاہیے، پولیس ملزم کو بتائے آپ کے سفر کا دائرہ یہ ہے۔ اس حد سے آپ باہر نہیں جا سکتے۔

دوم خفیہ گرفتاری نہیں ہونی چاہیے، گرفتاری سرعام ہونی چاہیے، گھر والوں کو خبر ہو کہ بندہ پولیس کے پاس ہے۔ اس سے تفتیش جاری ہے۔ تشدد مار دھاڑ، بھتہ لینا یہ پولیس کا کام نہیں ہے۔ پولیس پر ایک کمیشن مقرر ہو جو تھانوں کا روزانہ کی بنیاد پر وزٹ کرے، تھانوں میں کیمرے ہونے چاہیں، جدید بنیادوں پر تفتیش ہو، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہمارے ہاں وہی پرانا سسٹم جاری ہے۔

تھانوں پر تشدد کی ایک بنیادی وجہ ان دیہاتی لوگوں کی بھرتی بھی ہے جن کی پرورش تشدد کے ماحول میں ہوتی ہے۔ گھر میں ماں باپ مارتے ہیں۔ اسکول میں اساتذہ تشدد کرتے ہیں مدرسے میں قاری صاحبان تشدد کرتے ہیں۔ اس ماحول میں جو بچہ بڑا ہوتا ہے وہ جب پولیس میں جاتا ہے اور اس کے پاس اختیار آ جاتا ہے تو وہ مار ہی کو حل سمجھتا ہے۔ پولیس میں ایسے لوگوں کو بھرتی کیا جائے جو تشدد کے ماحول میں پروان نہ چڑھے ہوں، جو سفارش کی بنیاد پر بھرتی نہ ہوئے ہوں، جو انسانی نفسیات سمجھتے ہوں، دس جماعت پاس لوگ جب سفارش کی بنیاد پر تھانوں میں نوکری کریں گے تو تشدد میں کمی کی بجائے اضافہ ہو گا۔ بھرتی کا نظام بہتر بنایا جائے۔

ایک اہم چیز تھانوں میں بولی جانے والی زبان ہے۔ تھانوں میں پولیس والے جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ کوٹھوں پر بھی نہیں بولی جاتی، پولیس والوں کا رویہ ہر ایک کے ساتھ ایک سا ہوتا ہے جس کے پاس پیسہ نہیں جس کا پیچھا کرنے والا کوئی نہیں اس کے ساتھ وہ زبان بولی جاتی ہے جو شریف لوگ سن نہیں سکتے، ان کی نگاہیں گالیاں اور ذہنی ٹارچر بندے کو شرمندہ کر دیتا ہے۔ پولیس کی تربیت کرنی ہو گی۔ انہیں یہ سمجھانا ہو گا کہ آپ عدالت نہیں، آپ کسی کے بارے میں فیصلہ نہ کریں، آپ کسی کو مجرم نہ ٹھہرائیں، سزا جزا عدالت کا کام ہے۔ عدالتی فیصلے سے پہلے کسی سے مجرم والا سلوک ٹھیک نہیں۔

تھانوں میں پولیس خواتین کی کمی بھی ایک مسئلہ ہے۔ اگر کسی عورت کا کوئی مسئلہ ہو جائے تو مرد پولیس والے عورت کو ہی دباتے ہیں غلطی آپ کی ہو گی۔ مردوں کے ماحول میں عورت اپنا مسئلہ کس طرح بیان کر سکتی ہے۔ تھانوں میں عورتوں کا کوٹہ مقرر ہونا چاہیے، ہر تھانے میں خواتین ہونی چاہیں، تاکہ خواتین کھلے ماحول میں آ کر اپنا مسئلہ بیان کر سکیں۔

بنیادی طور پر چار چیزیں انتہائی ضروری ہیں۔

ایف آئی آر کا اندراج، جدید طریقہ تفتیش، تھانوں میں بولی جانے والی زبان، خواتین کا کوٹہ اور سیاسی ماحول سے پاک تھانے۔

اگر یہ بنیادی کام ہو جاتے ہیں تو پولیس بہتری کی طرف جا سکتی ہے نہیں تو اس ماحول میں جو آئے گا وہ اسی رنگ میں رنگ جائے گا۔ پولیس میں بہتری کی کوشش نہ حکمرانوں نے کی اور نہ کبھی پولیس نے ضرورت محسوس کی، دنیا بہتری کی طرف جا رہی ہے اور ہم ابھی انگریز کے دور میں کھڑے ہیں۔ یہ نظام دیر تک نہیں چل سکتا، پولیس میں اصلاحات وقت کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).