چودھری الحاج شیخ شجاعت حسین، سی ای او، چیف ایگزیکٹو، وی سی


الحاج شیخ صاحب، جنوبی پنجاب کے درمیانے درجے کے زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے، گھرانے میں سب ہی پیٹ بھر کے کنجوس مکھی چوس، یعنی کنجوس ہونے کی انتہا یہ کہ بڑے شیخ صاحب کی دھوتی کئی جگہ سے پھٹی ہوئی ہوتی۔ لیکن جب تک وہ تار تار نہ ہو جائے نئی دھوتی حرام۔ بچوں کو وہ صرف لنڈے کے کپڑے ہی پہناتے، ان کا عقیدہ تھا کہ کپڑوں پہ پیسا بیوقوف لوگ خرچ کرتے ہیں۔ عقل مند جمع کرنے والے ہوتے ہیں۔ ان کے خاندان میں لوگوں کی زندگی بھی بڑی ہی طویل تھی، جیسا کہ عام طور پر خسیس لوگوں کا خاصہ ہے کہ جب وہ کوئی پیڑ پودا لگاتے ہیں تو وہ خوب پھلتا پھولتا ہے، اور پھر سارا گھر اس پھل دار درخت کے ایک ایک پھل کی چوکیداری کرنا اپنا فرض سمجھتا۔ ہر جمعرات کو بڑے صاحب چنے کے چاولوں کی نیاز کرتے، پھر برکت کے لیے میلاد کی محفل منعقد کی جاتی، بیٹے نے بھی باپ کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے آگے بڑھایا۔

الحاج شیخ شجاعت بڑے صاحب کا بڑا لڑکا تھا۔ باپ کے مقابلے میں ہزار گنا تیز، اور چالاک، وہ بارہ جماعت پڑھنے کے بعد باپ کے ساتھ کام میں لگا کام کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ ایم اے تک پڑھائی کی، باپ کی بچت سے اس نے اپنے ہی کھیت میں لگنے والے اناج سے گھی کی فیکٹری لگائی۔ اور یوں وہ اب ایک انڈسٹری کا مالک تھا، فیکٹری میں اس نے اپنے لیے ایک شاندار کمرہ بنوایا، جس کے دروازے پہ تختی پہ لکھا تھا، چودھری الحاج شیخ شجاعت حسین سی ای او۔

گھی اور تیل کی فیکٹری سے ہی اس کی دوسری اشیاء کی فیکٹریوں کی بھی داغ بیل پڑی، صابن، کارن فلور، کارن فلیکس، اور پھر ایک بعد ایک نئی فیکٹری وہ انتہائی تیزی سے ترقی کر رہا تھا۔ اپنی فیکٹری کے ساتھ ہی اس نے زرعی زمین کے بڑے حصے پہ یونیورسٹی بنانے کا پروگرام بنایا ہوا تھا تو یعنی چند ہی سالوں میں وہ سی ای او پھر چیف ایگزیکٹو اور وی سی بھی بنے جا رہا تھا۔

باپ اور بیٹے میں جہاں ذہانت میں زمین آسمان کا فرق تھا وہاں فرعونیت میں بھی بیٹا انتہائی خوفناک، وہ اپنے ملازمین کو غلام بنا کر رکھتا۔

وہ چھوٹی سی بھی غلطی پہ ایسی سزائیں دیتا کہ دوسرے تمام ملازمین کی روح لرز جاتی۔

جس زمانے میں کمپیوٹر عام ہوا اس نے اپنے دفتر اور فیکٹری کے لیے ایک آئی ٹی والے لڑکے کو کراچی سے نوکری پہ بلا کے رکھا، اب چونکہ فیکٹری میں کھانے اور تیل کی اشیاء تھیں تو وہاں چوہے بھی تھے جو وائرنگ کو کاٹ دیتے، اور کمپیوٹر کی نیٹ ورک سپلائی میں مسئلہ آ جاتا، چیف ایگزیکٹو، سی ای او صاحب نے نئے لڑکے سے بہت پیار سے پوچھا، نوجوان کوئی مسئلے مسائل تو نہیں؟ اس نے یوں ہی کہہ دیا سر باقی سب تو صحیح ہے ہے بس چوہوں کی وجہ سے کام تھوڑا بڑھ جاتا ہے۔

اگلے روز صفائی والے کو حاضری کے لیے بلایا گیا،
جی حاجی صاحب خیر ہے آپ نے یاد فرمایا۔ جمعدار نے لرزتے ہوئے سوال کیا۔
تم یہ بتاؤ کے چوہے آخر کیسے آئے؟

مائی باپ، میں سب چوہوں کو مار دوں گا، ہو سکتا ہے تیل اور کھانے کی اشیاء کے گودام میں ہو گئے ہوں، کبھی کبھی ہوتے ہیں میں مارتا رہتا ہوں، آپ کو آئندہ شکائت کا موقع نہیں ملے گا۔

کل صبح ایک ایک چوہا ختم ہو جائے۔ ٹھیک ہے؟
جی صاحب، جی صاحب۔

ایک دن کے وقفے سے چودھری الحاج پھر آئی ٹی والے کے کمرے میں گئے، وہ یوں بھی نیا تھا پھر دوسرے شہر کا تھا اس کے وہم وگمان میں بھی اس طرح کے غلام کلچر کا کوئی تصور نہیں، نا ہی جمعدار سے ہوئے مکالمہ کی کوئی سن گن۔

شیخ صاحب۔ ہاں بھائی لڑکے اب تے کوئی پرابلم نی ناں؟
نوجوان۔ جی سر اب تو چوہے کافی کم ہو گئے ہیں ایک دو دن سے سکون ہے۔
شیخ صاحب۔ کافی کم؟
جی دو دن ہوئے صفائی ہوئی تو کافی مر گئے ہیں، اب اس لئے سکون ہے۔
شیخ صاحب۔ اچھ اچھا۔ ۔ ۔
شدید غصے میں کمرے سے باہر نکلنے اور پھر جمعدار کو بلوایا۔
جمعدار۔ ہاتھ جوڑے کھڑا لرزتے ہوئے پوچھتا ہے، جی مائی باپ؟
شیخ صاحب۔ حرام زادے، سور کی نسل تجھے ایک کام کہا تھا، کیا؟
جمعدار۔ جی صاحب کیا۔
شیخ صاحب۔ سب مر گئے؟ تیرے سگے؟
جمعدار۔ صاحب مارا بھی زہر بھی دیا ہے اب ایک دو اور ہوں گے میں مار کے ختم کر دوں گا۔
شیخ صاحب۔ باہر چل میرے سامنے

باہر آتے وقت مینجر اور فیکٹری کے اور لوگوں کو بھی بلایا گیا۔ ساتھ والے میدان میں سب جمع ہو گئے بیچ میں جمعدار کھڑا لرز رہا تھا۔ شیخ صاحب اپنی چمکتی ہوئی گاڑی میں سوار اب حکم ہوا کے جمعدار گاڑی سے آگے دوڑے گا اور جب تک شیخ صاحب کا دل بھر نہیں جاتا سزا جاری رہے گی۔

کئی منٹ جمعدار کو گاڑی سے آگے دوڑایا گیا، یہاں تک کے وہ گر کے بے ہوش ہو گیا۔ تو غصہ کسی درجے میں کم ہوا اور تماشا ختم ہوا۔

اگلے روز الحاج شیخ صاحب نے اسی میدان میں تمبو لگوائے سجاوٹ کی آج عید میلادالنبی کا دن تھا اس لیے پورے گاؤں کی میلاد کی دعوت تھی، سفید کلف لگے کپڑوں میں سارے خاندان کے مرد بیچ میں بیٹھے تھے۔ سارے مصاحب دائیں بائیں ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ بہت بڑا نعلین پاک مرکز میں تھا جو سونے اور نگوں سے بنا تھا۔

آج کے دن الحاج شیخ صاحب کا ایک اور بڑا سپنا پورا ہونے والا تھا اسی میدان میں یونیورسٹی کی بنیاد رکھی جا رہی تھی۔ یوں اب یونیورسٹی بنے کے بعد وہ وی سی بھی اپنے نام میں جوڑنے والے تھے۔

کچھ دنوں کے بعد جمعدار کی درگت کی کہانی آئی ٹی والے کے کانوں تک پہنچی تو اس کی راتوں کی نیند اڑ گئی، ان دنوں اس ایک دوست کسی کام سے پنجاب آ رہا تھا اس نے راتوں رات اپنا سامان باندھا اور اپنے دوست کے ہمراہ کراچی بھیج دیا۔ ابھی وہ خاموشی سے فیکٹری سے نکلنے کے لیے پر ہی تول رہا تھا کہ اس کے پاس نائب قاصد آیا کہ شیخ صاحب نے ابھی آپ کو یاد کیا ہے۔

نوجوان کی روح لرز اٹھی کے کہیں اب اس کا وہی حال نہ ہو۔
وہ ڈرتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا۔
آئیں نوجوان، آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔
جی سر حکم؟

جیسا کہ آپ کو پتا ہی ہے ہم یونیورسٹی بنا رہے ہیں۔ وہ آپ کے لیے یونیورسٹی میں جاب ہے، میں چاہتا ہوں آپ ہاں کر دیں۔

نوجوان جی سر جیسے آپ کی خواہش۔
بہترین now you can go back to your work، I will inform you
جی سر حاضر۔ شکریہ۔

اگلی صبح نوجوان فجر پڑھنے کے بہانے باہر نکلا تو واپس مڑ کر نہیں دیکھا۔ کچھ دور پیدل چلنے کے بعد دوڑنے لگا اور نا جانے کب وہ ریل گاڑی میں بیٹھ کر کراچی کی طرف چل پڑا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).