محرم الحرام اور ہم (شیعہ و سنی)۔


محرم الحرام کا چاند افق پہ ابھرا تو دل ناتواں نے اک قوی و مصمم ارادہ باندھا کہ مذہبی بحث مباحثہ نہیں کرنا اور حسب معمول کی تکرار سے بچنا ہے تو بعطائے فضل رہی سو فیصد تو نہیں مگر پچانوے فیصد اپنے مصمم ارادے کی تکمیل میں کامیاب رہا ہوں۔ ایک دو جگہ پہ تھوڑی بہت بات کی بھی تو معاملے کی نزاکت و طوالت کو دیکھتے ہوئے خاموشی میں ہی عافیت جانی۔

چونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم و فضل سے بخیر و عافیت دسویں محرم الحرام کا مبارک، عظیم اور دکھوں سے بھرا دن گزر چکا تو سوچا کہ جو جو اس محرم میں دوستوں سے سیکھا اس کو سہارے قلم کے زینت بنا دوں کاغذ کی۔

محرم الحرام کا مہینہ حرمت والے مہینوں میں شمار ہوتا ہے تو بطور مسلمان ( شیعہ و سنی) اس کا احترام بھی واجب ٹھہرا۔ بے شک واقعہ کربلا سے پہلے بھی عاشورہ کا دن کئی حوالوں سے متبرک و عظیم سمجھا جاتا تھا مگر جو عظمت و حرمت واقعہ کربلا کے بعد عاشورہ کے دن اور محرم الحرام کو ملی اس کا گواہ ہے آج کا چھوٹا بڑا مذہبی و غیر مذہبی، مسلکی و غیر مسلکی ہر دین اور ہر دھرم کا ہر انسان۔

61 ہجری یعنی آج سے تقریباً چودہ سو سال قبل ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیارے نواسے سید الشہدا نواب کربلا سردار جنت مولا حسین علیہ السلام نے اسلام کی خاطر ایسی عظیم قربانی دی جس کا ذکر تاقیامت جاری رہے گا۔ مولا حسین علیہ السلام نے اپنے ساتھ پیاس، محرم اور کربلا کو بھی امر کر دیا ہے۔

آج بطور مسلمان ہمیں ضرورت تو اس بات کی تھی کہ ہم مولا حسین کی اس عظیم قربانی کے عظیم مقصد کو سمجھتے ہوئے آپس میں اتفاق و اتحاد سے کام لیتے اور اسلام کا پرچم بلند کرتے اور وقت کے ہر یزید کے سامنے سینہ سپر ہو جاتے مگر ہم اس نکتہ اتفاق (حسین علیہ السلام) پہ بھی متفق نہ ہو سکے اور حسین علیہ السلام کے نام پہ بھی کاروبار شروع کر دیے ہیں۔ شیعہ و سنی دونوں یہ دعویٰ لئے پھرتے ہیں کہ ”حسین“ صرف ان کے ہیں جب کہ میری رائے میں ”حسین علیہ السلام“ ان کے ہیں جو حسین علیہ السلام کے ہیں۔

حسین مسلک و مذہب کی قید سے آزاد ایک یونیورسل ٹرتھ کا نام ہے۔ حسین حریت و حمیت کا نام ہے۔ حسین کا تعلق ہر اس انسان سے ہے جو ظلم کے خلاف لڑنا جانتا ہو۔ جو وقت کے ہر یزید کو شکست دینا جانتا ہو وہ حسینی ہے۔ حسین زندہ ضمیروں کا سردار ہے حسین غیرت والوں کا راہنما ہے حسین جرات والوں کا سربراہ ہے۔ حسین بھٹکے ہوؤں کے لئے راستہ ہے۔ حسین منزل ہے۔ حسین محبت والوں کا محبوب ہے۔ حسین علیہ السلام عاشقوں کے لئے معشوق ہے۔ اور حسین میرا عشق ہے۔

اس لئے مولا حسین علیہ السلام کے نام پہ اسی کی اجارہ داری ہو گی جو حسین علیہ السلام کے متعین کردہ اصولوں پہ چلے گا۔

اس لئے آپ تمام سے گزارش ہے کہ کم از کم محرم الحرام کے دنوں کو آپس میں تنازعات کا شکار نہ بنائیے کوئی جس طریقے سے بھی یوم حسین علیہ السلام منائے منانے دیں۔ کوئی صرف تنہائی میں بیٹھ کر آنکھوں سے اشک بہائے یا کوئی سرعام سینہ کوبی کرے۔ کوئی حسین علیہ السلام کے نام پہ سبیلیں لگائے یا کوئی دیگیں پکائے۔ کوئی عقیدتوں سے حسین علیہ السلام کا الم اٹھائے یا کوئی منقبتوں کا نذرانہ پیش کرے۔ سب کے اپنے اپنے طریقے ہیں سب کو کرنے دیں۔

رہی بات ان علما و ذاکرین کی جو ان پاک ہستیوں کا نام لے کر صرف تماشا لگاتے ہیں نفرتیں بانٹتے ہیں تو خدارا ایسے لوگوں سے بچیں۔ یہ چودہ سو سالہ اختلافات قیامت تک ختم نہیں ہونے والے۔ ان مباحثوں سے ذرا آگے نکلیں محبت کی دنیا دیکھیں۔ سکھ کا سانس خود بھی لیں اور دوسروں کو بھی لینے دیں۔

اہلبیت علیہ السلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دونوں ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں ان کو ضد نہ بنائیں آمنے سامنے کھڑا کرنے کی کوشش نہ کریں۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے ان سنیوں پہ جو کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا ”کہ علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے“ اور حضرت عمر فاروق رض اللہ عنہ نے فرمایا تھا ”ہم سادات کے نوکر ہیں“ ۔ اور جب یہ باتیں عملی طور پہ ماننے اور اپنانے کا وقت آتا ہے تو ڈنڈی مارنا شروع کر دیتے ہیں۔

مجھے افسوس ہوتا ہے ان شیعوں پہ جو اہلبیت کی محبت میں صحابہ کرام کو برا بھلا کہتے اور گالی دیتے ہیں۔ یقین جانئیے یہ محبت نہیں نفرت ہے یہ بغض ہے۔ دنیا کا کوئی ایسا مسلک، فرقہ یا مذہب نہیں ہے جس کی بنیاد گالی ہو۔ گالی دینا ایک قبیح عمل ہے۔ گالی دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ کوئی منطق نہیں ہے۔ (خادم رضوی صاحب کو بطور سند نہ پیش کر دینا) ۔

اگر آپ بھی گالی کو ہی فتح کی علامت سمجھتے ہیں تو اپنا محاسبہ خود کر لیجیے کہ آپ انسانیت کے کس مقام پہ کھڑے ہیں۔

میری رائے یہی ہے کہ سنیوں کو اہلبیت کی فضیلت کو ماننا ہو گا اور شیعوں کو خلفائے راشدین و صحابہ کرام کا احترام کرنا ہو گا۔ یہی راہ نجات ہے یہی حقیقت ہے۔ ورنہ پھر لگے رہیں سب نے پیٹ کی خاطر کاروبار جو کرنے ہیں۔

انشا اللہ مستقبل میں بھی کوشش ہو گی کہ ان مباحثوں سے بچ کے رہوں اب بڑا ہونا چاہتا ہوں میں۔

(اخلاق کی حدود میں رہتے ہوئے تحریر سے اختلاف و اتفاق آپ کا حق ہے کرتے رہیں۔ میں خود فضیلت اہلبیت اور احترام صحابہ کرام کا انشا اللہ قائل ہوں اور دعا ہے کہ اسی عقیدے پہ موت آئے۔ اگر فضیلت اہلبیت ماننے کا نام شیعہ ازم ہے تو میں شیعہ ہوں اگر حرمت صحابہ کرام ماننے کا نام سنی ازم ہے تو میں سنی ہوں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).