مسلم لیگ (نون) اپنے لیڈر نواز شریف کی پالیسی پر چلے گی: مریم نواز


رات کے آخری پہر اسلام آباد میں بوندا باندی شروع ہوئی۔ صبح تک بارش میں شدت آ گئی۔ آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کے خلاف نیب کیسز کی سماعت ہونا تھی۔ میں ٹھیک ساڑھے سات بجے سری نگر ہائی وے پر تھا۔ میں اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے سینئر صحافی سہیل رشید کو کہا کہ آج ہمیں جی الیون کے اشارے سے گھوم کر جانا پڑے گا۔ کیونکہ پولیس کی بھاری نفری نظر آ رہی تھی۔ ہائی کورٹ کے چاروں اطراف ایک سے ڈیڑھ کلو میٹر تک خاردار تاریں اور سیمنٹ کے بلاک سے سڑکیں بند کی ہوئی تھی۔

پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ رینجرز، ایف سی اور سی ٹی ڈی کے اہلکار جگہ جگہ نظر آ رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا کہ یہ عدالت نہیں بلکہ چھاونی ہے۔ ہمیں ایک کلومیٹر دور گاڑی پارک کرنا پڑی۔ عدالتی احاطے میں داخل ہونے تک تقریباً بھیگ چکے تھے۔

سیکیورٹی کے سخت ترین انتظامات تھے تین سے چار جگہ چیکنگ کے مراحل سے گزر کر ہائی کورٹ کی بلڈنگ میں داخل ہوئے۔ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے کیس کی سماعت کرنا تھی۔

مریم نواز کمرہ عدالت میں لگ بھگ سوا گیارہ بجے داخل ہوئی ان کے دائیں طرف کیپٹن صفدر اعوان اور سینیٹر پرویز رشید براجمان تھے۔ مریم نواز نے کمرہ عدالت میں موجود ایک ایک صحافی کا نام لے کر ان کی خیریت دریافت کی۔ وہ خاموش ہوئیں تو ڈان کے رپورٹر اسد ملک نے عدالتوں سے ریلیف ملنے کا سوال کیا تو مریم نواز کا کہنا تھا کہ عدالتوں پر بھروسا ہے وہ ہمیں ضرور انصاف دیں گی۔

دوسرا سوال میں نے کیا کہ نون لیگ اپوزیشن کی اے پی سی میں شرکت کرے گی یا میاں شہباز شریف کے دائروں کو فالو کرے گی؟ میرا اشارہ نواز شریف اور مریم کی وطن واپسی پر شہباز شریف کے جلوس کی طرف تھا جو ائرپورٹ پہنچنے کی بجائے لاہور کی سڑکوں پر دائروں میں گھومتا رہا تھا۔

اس کے جواب میں مریم نواز شریف کا کہنا تھا کہ نون لیگ میاں نواز شریف کے احکامات کو فالو کرے گی۔ نون لیگ کے لیڈر نواز شریف ہیں پارٹی انہی کی پالیسیوں پر چلے گی۔ نواز لیگ کسی دائروں پر عمل کرنے کی پابند نہیں۔

نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ میری ضد ہے جب تک میاں نواز شریف کی صحت ٹھیک نہیں ہوتی وہ واپس نہ آئیں۔ ہمیں اپنی اپنی نہیں سوچنی چاہیے بلکہ ملک کا سوچنا چاہیے۔ عمران خان نے دو سالوں میں ملک کو اس حالت تک پہنچا دیا جہاں سے واپسی ناممکن ہے۔ نواز شریف تین بار اس ملک کے وزیراعظم رہے ان پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔ جھوٹے مقدمات ہوتے ہوئے ہم نے قانون کا احترام کیا اور عدالتوں کے سامنے پیش ہوئے۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ عمران خان کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کے جانے سے احتساب کا عمل رک گیا تو عمران خان عاصم باجوہ کے معاملے پر کیوں خاموش ہیں۔ یہاں ان کا احتساب کیوں رک گیا۔

اس موقعے پر صحافی مطیع اللہ جان نے مریم نواز شریف سے سوال کیا کہ ان کا پسندیدہ پیزا کون سا ہے؟ جس پر فضا قہقہوں سے گونج اٹھی۔

کمرہ عدالت میں مریم نواز جب میڈیا سے گفتگو کر رہی تھی تو بتایا گیا کہ سابق وزیراعظم شاید خاقان عباسی، احسن اقبال اور درجنوں دوسرے لیڈروں کو مختلف ناکوں پر روک دیا گیا۔ کمرہ عدالت میں سردار ممتاز، دانیال عزیز، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، ملک ابرار، انجم عقیل، میاں نواز شریف کے کاروباری دوست حامد میر، مریم اورنگزیب کے علاوہ دیگر افراد بھی موجود تھے۔

پونے گیارہ بجے عدالت سے متصل کمرے سے دو اہلکار کمرہ عدالت میں آئے جو اس بات کا اشارہ تھا کہ معزز ججز صاحبان کمرہ عدالت میں آنے والے ہیں جسٹس محسن اختر کیانی کے بعد جسٹس عامر فاروق کمرہ عدالت میں آنے کے بعد کرسی منصف پر بیٹھ گئے۔

پکارا لگا میاں نواز شریف بنام نیب، عدالتی کارروائی شروع ہوئی میاں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور نیب کی طرف جہانزیب بھروانہ عدالت میں موجود تھے۔ جسٹس عامر فاروق نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ میاں نواز شریف کو عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے کا آخری موقع دیں گے اگر وہ عدالت کے سامنے پیش نہ ہوئے تو انھیں مفرور قرار دینے کی کارروائی شروع کی جائے گی۔

کمرہ عدالت میں سماعت کے دوران کچھ نامعلوم افراد بھی تھے جو آپس میں کھسر پھسر کر رہے تھے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت کے باہر اتنا سخت پیرا ہے کہ وکلا کو اندر نہیں آنے دیا گیا جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہمیں بھی اس بات کا احساس ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے، میں صبح جب عدالت آیا تو مجھے بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا بہرحال یہ ایگزیکٹو کے معاملات ہیں اس میں عدالت کچھ نہیں کر سکتی۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی میرٹ پر ضمانت منظور ہوئی۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا معطلی کے بعد ضمانت منظور ہوئی۔ العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو مشروط ضمانت ملی نواز شریف علاج کے لیے بیرون ملک گئے واپس نہ آنے کی وجوہات درخواست میں لکھی ہیں۔

عدالتی استفسار پر وکیل نے بتایا کہ نواز شریف کا موجودہ سٹیٹس یہ ہے کہ وہ اس وقت ضمانت پر نہیں ہیں۔ یہ لیگل پوزیشن ہے کہ وہ ضمانت پر نہیں نواز شریف علاج کے لیے بیرون ملک گئے ہوئے ہیں۔ ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد ہوئی تو وہ بیرون ملک زیر علاج تھے۔ نواز شریف کی بیماری پر متعدد میڈیکل بورڈز تشکیل دیے گئے تھے۔ نواز شریف کی بیماری کے باعث پرائیویٹ اور سرکاری میڈیکل بورڈز نے بیرون ملک علاج تجویز کیا۔ بیان حلفی دیا گیا کہ صحت یابی کے بعد ڈاکٹرز نے اجازت دی تو پاکستان واپس آ جائیں گے۔

جس پر عدالت نے کہا کہ کیا ضمانت ختم ہونے کے بعد نواز شریف کو عدالت میں سرنڈر نہیں کرنا چاہیے تھا؟ وکیل نے کہا کہ نواز شریف کو جو بیماریاں تھیں اس کا علاج پاکستان میں نہیں ہو سکتا تھا۔

خواجہ حارث نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کا کیس منفرد ہے۔ عدالت سرنڈر نہ کرنے پر تفصیلی آگاہ کروں گا۔ پنجاب حکومت نے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جس نے نواز شریف کی بیماری کا جائزہ لیا۔ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ نواز شریف کو طبی بنیادوں پر علاج کے لیے ایک مرتبہ بیرون ملک جانے کی اجازت ملی۔

عدالت نے کہا کہ اگر لاہور ہائیکورٹ نے نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا تو کیا العزیزیہ کی سزا ختم ہو گئی؟ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نواز شریف کی ضمانت مشروط اور ایک مخصوص وقت کے لیے تھی۔ خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف دونوں نے صحت یابی پر وطن واپسی کی ضمانت دی تھی۔ عدالت نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ کی سزا مختصر مدت کے لیے معطل کی تھی۔ کیا لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے آرڈر کو سپرسیڈ کیا جاسکتا ہے؟

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا حکم صرف نام ای سی ایل سے نام نکالنے کا تھا خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس جمع کرائی گئیں کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں اس کے باوجود نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کر دی گئی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ پنجاب حکومت نے ضمانت میں توسیع کی درخواست کب مسترد کی؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ 27 فروری کو پنجاب حکومت نے ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کیا پنجاب حکومت کو تمام دستاویزات فراہم کی ہیں؟ جس پر وکیل نے کہا کہ ہم نے اس متعلق رجسٹرار ہائی کورٹ کے پاس رپورٹ جمع کرائی ہے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے کوئی نمائندہ یا ہائی کمیشن کے کسی فرد نے نواز شریف کی صحت کا جائزہ نہیں لیا عدالت کے استفسار پر ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد کیانی نے کہا کہ مجھے کوئی ہدایات نہیں ملیں جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ وفاقی حکومت کو پتہ ہونا چاہیے تھا کہ عدالت کو آگاہ کرنا ہے؟

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ایک سوال ہے کہ اگر نواز شریف کی غیر حاضری میں اپیل خارج ہو گئی تو کیا ہو گا؟ اگر عدالت نواز شریف کو مفرور ڈیکلیئر کر دے تو پھر اپیل کا کیا سٹیٹس ہو گا؟ اس موقع پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ نواز شریف کو اپیل کی سماعت کے لیے عدالت پیش ہونا پڑے گا۔ اگر نواز شریف مفرور ہیں تو الگ 3 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے ٹرائل یا اپیل میں پیشی سے فرار ہونا بھی جرم ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم نواز شریف کو اس وقت مفرور قرار نہیں دے رہے لیکن نواز شریف کے بغیر اپیل کیسے سنی جا سکتی ہے؟ عدالت کو مطمئن کریں اگر ہم نواز شریف کو مفرور قرار دیں تو اپیل کی کیا حیثیت ہوگی؟ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ نے دلائل شروع کرتے ہوئے نواز شریف کی حاضری سے استثنی کی درخواستوں کی مخالفت کی اور کہا کہ نواز شریف کی حاضری سے استثنا کی دونوں درخواستیں ناقابل سماعت ہیں۔ درخواستوں کے ساتھ تفصیلی بیان حلفی لف نہیں آج ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف دونوں اپیلیں سماعت کے لیے مقرر ہیں۔ نواز شریف کا پیش نہ ہونا عدالتی کارروائی سے فرار ہے۔ نواز شریف جان بوجھ کر مفرور ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر آپ کی بات مان لی جائے تو پھر دونوں اپیلوں کا کیا ہو گا؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جج ارشد ملک کی وڈیو کا معاملہ بھی عدالت کے سامنے ہے۔ اس پر عدالت نے کہا کہ ابھی جج ارشد ملک کی ویڈیو پر دلائل نہ دیں پہلے حاضری سے استثنی پر ہی دلائل دیں نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگر نواز شریف مفرور ہو گئے تو عدالت نمائندہ مقرر کر سکتی ہے۔ نواز شریف مفرور ہونے کے بعد عدالت نیب کو سن کر میرٹ پر فیصلہ کر سکتی ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کیا نواز شریف نمائندے کے ذریعے اپیلوں کی پیروی کر سکتے ہیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نواز شریف کی ضمانت منسوخی کا حکم نامہ حتمی ہوچکا۔ پنجاب حکومت کا نواز شریف کی ضمانت مسترد کرنے کا حکم نامہ کہیں چیلنج نہیں ہوا۔ جس پر عدالت نے نواز شریف کو سرنڈر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف عدالت پیش ہوں ابھی نواز شریف کو مفرور قرار نہیں دے رہے نواز شریف کو عدالت میں پیش ہونے کا موقع دیتے ہیں۔ نواز شریف کی حاضری سے استثنی کی درخواست پر مناسب حکم جاری کریں گے۔ وفاقی حکومت بھی اپنا موقف پیش کرے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ آپ تو عدالت میں پیش نہ ہونے کی وجوہات بھی بتانے کا موقع نہیں دے رہے۔ جس پر عدالت نے مریم نواز اور کیپٹن صفدر کا کیس نواز شریف سے الگ کر دیا اور نواز شریف کیس 9 ستمبر تک ملتوی کر دیا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ 9 ستمبر کی تاریخ نہ دیں 3 ہفتوں کا وقت دے دیں جس پر عدالت نے 10 ستمبر کو نواز شریف کو طلب کر لیا العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس کی نواز شریف کی اپیلوں پر سماعت 10 ستمبر کو ہوگی جبکہ ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی اپیلوں پر سماعت 23 ستمبر تک کے لئے ملتوی کردی گئی۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui