کون سا معاشرہ؟


مختلف افراد کا مجموعہ ایک معاشرہ کہلاتا ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔ ہمیں اس معاشرے میں رہنے کے لیے خود کو اس نام نہاد معاشرے کے مطابق ڈھالنا پڑتا ہے۔ اپنی سوچ کے زاویوں کو بدلنا پڑتا ہے۔ اپنے شوق ختم کرنے پڑتے ہیں۔ اپنی عادات بدلنی پڑتی ہیں۔ اپنا کردار ”درست“ کرنا پڑتا ہے۔ اپنی پسند اور ناپسندیدگی دیکھنی پڑتی ہے۔ سمجھنا پڑتا ہے کہ کہیں ہمارے ساتھ چلنے والوں کو ہماری کوئی بات بری نا لگ جائے۔ ستم دیکھیں کہ اس دنیا میں آپ کو چلنا ہے، لیکن معاشرے کے مطابق۔

کون سا معاشرہ؟

وہ معاشرہ کہ جس کے ہر فرد کی سوچ آپس میں اختلاف رکھتی ہے؟ جس طرح پانچوں انگلیاں برار نہیں ہوتیں، ایک گھر میں رہنے والے افراد ایک جیسی عادات اور سوچ نہیں رکھتے، اسی طرح ایک معاشرے میں رہنے والے لوگ ایک جیسا کیسے سوچ سکتے ہیں جو آپ کہتے ہیں کہ ہم نے اگر ایسا کر دیا تو معاشرہ کیا کہے کا ؟ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جس معاشرے کا حوا بنا کر آپ اپنے فیصلوں کو ، اپنے آپ کو تبدیل کرتے ہیں، اس معاشرے کے تو اپنے مسائل نہیں ختم ہوتے۔

اپنے اختلافات ختم نہیں ہوتے۔ اور نہ آپ اس کے لئے اتنے اہم ہیں کہ وہ آپ پر غور کرے۔ ہاں کریں گے ضرور لیکن صرف تنقید کے لئے۔ جب سوچ نہیں ملتی تو معاشرہ چل کیسے سکتا ہے؟ یہ وہی نام نہاد معاشرہ ہے جس کو دیکھ کر آپ اپنے فیصلے کرتے ہیں اور حیرت ہے کہ وہی معاشرہ انتشار میں ڈوبا ہوا ہے۔ کہتے ہیں طعنہ زنی سگے رشتوں کو کھا جاتی ہے، تو یہ طعنہ زنی سکھائی کس نے؟ معاشرے کے ایک آدمی نے۔ اس کی ایجاد کی وجہ کیا بنی؟

اس آدمی کی سوچ۔ یہ سوچ ہی ہے جو لے ڈوبتی ہے۔ اور یہ معاشرہ تو آپ کا ماضی آپ کے منہ پہ مارنے کی دیر بھی نہیں لگاتا۔ ایک موقعہ چاہیے ہوتا ہے اور لوگ آپ کو وہاں سے پکڑتے ہیں جہاں سے آپ بہت حساس ہوتے ہیں۔ کبھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ معاشرہ غیروں کو نہیں، آپ کے اپنوں کو کہتے ہیں۔ اور تجربہ رکھنے والے میری اس بات سے اتفاق کریں گے۔ کسی غیر کی آپ کو لگائی ہوئی بات اتنا دل نہیں دکھاتی جتنا کسی اپنے کا آپ کو ایک سخت نظر دیکھنا قبر میں اتار جاتا ہے۔

اب اس معاشرے کو بالکل غلط کہنا صحیح نہ ہوگا کیونکہ جہاں اچھے لوگ ہیں، اچھے کام ہیں وہاں برے لوگ اور برے کام بھی ہیں۔ لیکن مجھے یہاں برائی نظر آ رہی ہے کیونکہ مجھے دکھتی ہی خامیاں ہیں۔ اس معاشرے نے مجھے بد زن کر کے برائیوں کو غور سے دیکھنا سکھا دیا ہے۔ اور اچھائیاں میں نے نظر انداز کر کے کوڑے دان میں پھینک دی ہیں کیونکہ میں نے اس معاشرے سے یہی سیکھا ہے۔

غور کریں آپ نے اگر گھر میں کھانا بھی بنانا ہو تو جتنے لوگ گھر میں کھانے والے ہوتے ہیں اتنے ہی مشورے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پریشانی شروع ہوجاتی ہے کہ کس کی بات مانی جائے۔ خاطر میں آپ سب کے مشورے لاتے ہیں لیکن آخر میں آپ بناتے وہی ہیں جو آپ کا دل کہتا ہے۔ تو پھر اپنی زندگی آپ معاشرے پر کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟ لیکن مسئلہ پھر وہیں اڑ گیا۔ اکیلے سروائیو کیسے کریں گے؟ بڑوں کے علاوہ کیسے چلیں گے؟ چل ہی نہیں سکتے۔

روایات آڑے آ گئیں اور بڑے ان روایات کو معاشرے کے ساتھ جوڑ کر ہمارے گلوں میں لٹکا گئے اور نسل کا بیڑہ غرق کر دیا۔ جب آپ کے پاس اپنی سوج بوجھ ہے جو کہ اللہ کی طرف سے بڑی نعمت ہے تو فیصلے معاشرے کو دیکھ کر کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ لیکن یہی بڑے آپ کے کوئی دلیل دینے پر آپ کے اوپر نافرمانی کے فتوے لگا دیتے ہیں۔ پھر منافقت کی انتہا ایسی کہ ایک طرف اسی معاشرے کو گالیاں دیتے ہیں اسی طرف اس معاشرے سے آپ ڈرتے ہیں، اس کے بغیر ہل بھی نہیں سکتے۔

آپ سب کو یہ بات نہیں سمجھا سکتے لیکن خود سمجھ سکتے ہیں۔ جینے کے لئے ہر خوف کو دل سے نکالنا ضروری ہوتا ہے۔ مسئلے سب کے ساتھ ہوتے ہیں۔ یہ دنیا ہے اور سب کچھ اسی دنیا میں ہوتا ہے۔ لیکن معاشرے کے مطابق اپنے فیصلے کرنا اور اپنے آپ کو ڈھالنا کوئی سمجھداری اور درست بات نہیں ہے۔ آپ خود یہ چیزیں سمجھ جائیں کیونکہ یہ سلسلہ تو نسل در نسل چلتا آ رہا ہے اور اس کو اب بھی نہ سمجھا گیا تو آنے والی نسلیں زمانے کے ساتھ نہیں چل پائیں گی۔ دعا یہ کریں کہ آپ ایسے معاشرے کا حصہ نہ بنیں جو کسی کا دل دکھانے کا باعث بنے یا جس کے کسی عمل یا زبان سے اللہ کے کسی بندے کو تکلیف پہنچے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).