ہم منافق


کس طرح ہری ہوں گی اعتماد کی بیلیں
جب منافقت سب نے اوڑھ لی زبانوں پر
ہم ایک منافق دنیا کے باسی ہیں۔ ہمارے قول ہمارے فعل سے ذرا میل نہیں کھاتے۔ ہم منہ پر کچھ اور پیٹھ پر کچھ اور ہوتے ہیں۔ لیکن نہیں!

ہر انسان ان سب جملوں سے ”ہم“ نکال کر ”تم“ لگانا پسند کرے گا۔ کیونکہ اپنی خامیوں کو ماننا تو دور ہم تو اپنی برائی سننے سے بھی انکار کر دیں۔ یہی کام جب ہم فرداً فرداً کرتے ہیں تو مل کر معاشرہ بناتا ہے۔ اور پھر ہم اپنی ہر بری عادت بھول کر دوسروں کو معاشرے کی خرابی پر مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔

یہ اتنی لمبی تمہید بلاوجہ نہیں باندھی گئی۔ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہ واقعی ایک دوغلا معاشرہ ہے۔ کہتے ہیں اگر آپ بولنے کی بجائے سامع کا روپ دھار لیں تو فائدے میں رہتے ہیں۔ بالکل سولہ آنے صحیح بات ہے۔ پہلے بھی مجھے کم بولنے والے لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ کچھ لوگ مجھے انٹراورٹ بھی کہا کرتے تھے لیکن یہ بات کسی قریبی دوست کو ہی پتہ تھی کہ میں کتنا بولتی ہوں۔

بہرحال، کچھ عرصہ ہوا جب میں نے خود سے تہیہ کیا کہ چاہے کچھ ہو جائے زیادہ سے زیادہ سننے پر توجہ دوں گی۔ یہاں یہ بتاتی چلوں کہ سننا بھی ایک فن ہے جو میں نے کسی سے سیکھا ہے۔ اب اس بات پر عمل شروع کر دیا تھا۔ اس کارنامے سے سب سے پہلا نتیجہ یہی اخذ کیا کہ ”ہم بہت دوغلے لوگ ہیں“ ۔ کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں۔ چند لوگوں کو دیکھا جو ایک شخص کے منہ پر اس کا بہت احترام کر رہے تھے۔ لیکن وہی شخص جب ان کے سامنے سے چلا گیا تو اس کی شان میں وہ قصیدے پڑھے کہ الحفیظ الامان۔

میں نے لوگوں کو دیکھا ہے کہ دل میں برائی بھی رکھتے ہیں اور ان کا ہی احسان بھی لیتے ہیں۔ ایک اور منافقت۔

میرے تجربے اور مشاہدے خاموش رہنے کی وجہ سے زیادہ ہوتے جا رہے تھے۔ کہ مجھے منافقت کے ساتھ ساتھ مادہ پرستی کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور کانوں سے سننے کا موقع ملا۔ ایک انسان اپنے بیوی بچوں سب کو ایک طرف رکھ کر صرف اپنے خونی رشتوں سے وفا نبھانے کی خاطر جان تک پہ کھیل کر بستر پر آ گیا۔ لیکن پیسوں کے پجاریوں نے پیسہ دے کر ایسے سمجھا جیسے زر خرید غلام۔ کچھ ہی دن بستر پر رہنے کی وجہ سے اس شخص کے لیے بولے جانے والے الفاظ اس بات کا یقین دلانے میں کامیاب رہے کہ کتنے بڑے منافق ہیں ہم، جب تک آپ کسی کے کام کے ہیں آپ سے اچھا کوئی نہیں لیکن جب آپ کام کے نہیں رہے تو آپ ”ناکارہ، زیرو اور فیل“

واہ رے قدرت تیرے عجیب کھیل۔

آئیے اگلا مشاہدہ بھی آپ کو بتاتی چلوں۔ یاد کیجیے کچھ دن پہلے جب بچیوں اور لڑکیوں سے زیادتی کے واقعات آئے روز منظر عام پر آنے لگے تو کچھ حضرات نے اس پر خوبصورتی سے مذہبی پہلو میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر لڑکیاں صحیح کپڑے اور پردہ نہیں کرتیں تو وہ مردوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں۔ اور پھر جو ہوتا ہے وہ بیبیوں کے پردہ نہ کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مطلب مرد حضرات صاف اپنا دامن بچا کر نکل جاتے ہیں۔

حال ہی میں کرونا کی وجہ سے ماسک پہننا لازمی ہوا تو میں نے غور کیا کہ اب تو لوگ مزید گھور کر دیکھتے ہیں۔ کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے آنکھوں کی جگہ ایکسرے مشین فٹ ہو۔

یہاں ہمیں مذہبی منافقت بھی ملتی ہے۔ مذہب کو اپنے لئے استعمال کریں گے۔ مذہب میں بھی صرف اپنا ہی فائدہ ڈھونڈے گے۔

دلوں میں کینہ، مذہبی بغض، مادیت پرستی، اپنی غرض اور منہ پر تعریف، محبت بھری باتیں، دل میں گھر کرنے کی ادھورے دل سے کی گئی تدبیریں، یقین کریں معاشرے میں بد اعتمادی کی فضا قائم کر رہی ہیں۔ تعلقات محض مفادات پر مبنی رہ گئے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ ”منافقت“ ہے۔
اس کو اپنے دل سے نکال لیں گے تو ہی معاشرہ سدھار کی طرف جائے گا۔ اس لیے جب فرداً فرداً کردار ادا کریں گے تو ہی وہ معاشرہ بنے گا جو خوشیوں اور بہاروں کا گہوارہ ہو گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).