نواز شریف ایل بی ڈبلیو ہو گئے


سیاست اور کھیل دونوں میں مخالف کے حربوں کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے اور اردگرد نگاہ بھی رکھنا پڑتی ہے چونکہ یہ کھیل ابتداء میں نوابوں نے شروع کیا تھا۔ اس لیے کرکٹ کے کچھ نخرے بھی اٹھانا پڑتے تھے۔ خاص کر مراعات یافتہ کھلاڑی بڑے ناز برداری کے قائل ہوتے ہیں۔ میاں نواز شریف کو کرکٹ کا بڑا شوق تھا۔ اس لیے بطور وزیراعظم بھی اس کی تکمیل کے لیے میدان میں اتر جاتے، ویک اینڈ پر لاہور آمد ہوتی، میاں نواز شریف باغ جناح میں کٹ پہن کر پہنچ جاتے، وہاں عمران خان کے کزن جاوید زمان خان پروٹوکول کے لئے موجود ہوتے، وہ جم خانہ کلب کے منتظم تھے۔ نواز شریف کو پیڈ کرائے جاتے اور وہ بیٹ تھامے گراؤنڈ میں قدم رکھتے، مخالف ٹیم ایک روز پہلے اپنی باری لے چکی ہوتی، اس روز انہوں نے جم خانہ کلب بلکہ کہہ لیں میاں صاحب کو باری دینا ہوتی تھی۔

میاں نواز شریف نے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل کر اپنے شوق کی تسکین کرلی تھی جب وہ تین روزہ میچ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف اسی میدان میں اپنے وقت کے تیز ترین بولر میلکم مارشل کے خلاف اوپن پر آئے، میاں صاحب بیٹنگ کرنا جانتے تھے لیکن اس سطح کی کرکٹ تھوڑی مشکل ہوتی ہے۔ اس لیے آؤٹ وہ بہت جلد ہو گئے لیکن ریکارڈ میں بات آ گئی۔ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔

میری یادداشتوں میں ایک میچ اور کچھ باتیں تھیں، 1998 کا ذکر ہے۔ لاہور کے اخبار نویسوں کی ایک ٹیم تشکیل دی گئی۔ ہم نے جم خانہ کے خلاف بیٹنگ کی، مجھے بلے بازی کا موقع ملا، چونکہ ٹھیک کھیل لیتے تھے۔ اس لئے مناسب کارکردگی دکھائی۔ ہم سب کو اگلے روز وزیراعظم کے خلاف کھیلنے کا اشتیاق تھا۔ ان دنوں میاں صاحب کی باغ جناح میں کرکٹ کے بڑے چرچے تھے۔ یہ ایسا میچ تھا جسے عوام کو دیکھنے کی اجازت نہ تھی۔

ہم لوگ ایک گھنٹہ پہلے گراؤنڈ میں پہنچ گئے۔ وزیراعظم کی آمد کا انتظار شروع ہو گیا۔ وہ آئے ہم سب سے تعارف کرایا، انہوں نے پیڈ کیے اور ایک ماہر کرکٹر کا روپ دھارے میدان میں اتر گئے۔ ہمارے کپتان اخبار کے چیف رپورٹر اور نون لیگ کی رپورٹنگ کرنے والے صاحب تھے۔ انہوں نے تعلقات کے پیش نظر بولنگ کا خود آغاز کرنے کی ٹھان لی۔ میاں صاحب کے لئے انہیں کھیلنا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ انہوں نے بڑی تسلی سے چاروں طرف چوکے لگائے اور سکون سے بلے بازی کی۔

ہمیں میاں صاحب کو آؤٹ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ہماری خواہش یہی تھی۔ وزیراعظم میدان میں ڈٹے رہیں اور ہر کوئی کسی نہ کسی بہانے کوئی بات کر لے، یہ سیلفی والا دور نہیں تھا وگرنہ اکثر یہی کرتے رہتے، میاں صاحب سے ایک آدھ ملاقات پہلے بھی ہو چکی تھی۔ ان کے مزاج سے واقف تھے۔ حس مزاح ان دنوں اچھی تھی۔ بڑے ہلکے پھلکے موڈ میں سب کچھ چل رہا تھا۔

مجھے بولنگ کا موقع ملا، اس دن فیصلہ کیا، سپن کرتے ہیں۔ زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں، بڑی توجہ سے بولنگ کی میاں صاحب کے پیڈ پر گیند لگی میں نے اپیل کردی اور امپائر سے آؤٹ مانگا۔ اس جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہ آیا، خیر ایسا اکثر ہوتا ہے۔ ہم نے تھوڑا سا تعجب ظاہر کیا، پھر امپائر سے ہلکا سا پوچھ لیا، کیا یہ آؤٹ نہیں تھا۔ انہوں نے محض انکار میں سر ہلا دیا۔

امپائر بھی ان کے اپنے تھے جب میاں صاحب نان سٹرائیک اینڈ یعنی بولنگ اینڈ پر ہوتے، اس دوران میں کسی بہانے وزیراعظم سے کوئی بات کر لیتا، وہ ہنس کر جواب دے دیتے، ایک موقعے پر انہوں نے کسی بات کا بہت قریب آ کر مسکراتے جواب دیا، جس پر مجھے لگا کہ ہمارے کپتان جن کا میاں صاحب سے قریبی تعلق تھا انہیں تھوڑا ناگوار گزر رہا ہے۔ خیر میں نے زیادہ پروا بھی نہ کی، کیونکہ میں کوئی کام تو کہہ نہیں رہا تھا۔

میاں صاحب کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ ایک مصروف انسان تفریح کے لئے وقت بھی نکال لیتا ہے اور تمام پریشانیوں کو بالائے طاق رکھ کر اس سب عمل میں شریک ہوتا۔ یہ میاں صاحب کی زندہ دلی تھی۔ شاید یہی آج بھی تنقید کا باعث بنتی ہے۔ وہ اپنی غیرسیاسی سرگرمیوں میں بہت دلچسپی لیتے بلکہ کئی نازک حالات اور دباؤ کے باوجود انہیں ترک نہیں کرتے۔

کرکٹ بھی نشہ ہے اور میاں صاحب اسلام آباد میں کسی عمارت کی چھت پربھی نیٹ لگا کر اپنا رانجھا راضی کرلیتے تھے۔

ہمارے کپتان کو لگا جیسے میں میاں صاحب کے ساتھ مل کر میچ فکسنگ کر رہا ہوں، انہیں میرا وزیراعظم کے ساتھ باتیں کرنا اور مسکرانا اچھا نہ لگا، پانی کے وقفے میں انہوں نے بڑے آرام سے مجھے ہدایت دی کہ میں باہر جاکر بیٹھ جاؤں، کسی اور کھلاڑی کو اندر بھیج دوں۔ میں ٹیم کا بنیادی پلیئر تھا۔ مجھے تھوڑا سا دکھ ہوا، کپتان شاید اپنے تعلقات میں کوئی شراکت ہوتے دیکھ رہے تھے۔

میں نے باہر آ کر کسی کھلاڑی سے پوچھا میاں صاحب کو ایل بی ڈبلیو آؤٹ کیا مگر امپائر نے کیوں نہ دیا، وہ بولا انہیں صرف بولڈ اور کیچ آؤٹ کیا جاتا ہے۔ مجھے سن کر تھوڑا تعجب ہوا، خیر دوستانہ میچز میں ایسا ہوجاتا ہے پھر وہ ہمارے ملک کے وزیراعظم تھے۔ انہیں آؤٹ کر کے کیا خوشی ملنا تھی۔ وہ کوئی اور ہیں جنہیں نواز شریف کو آؤٹ کرنے سے تسکین ملتی ہے۔

بیس برس بعد میاں صاحب کو 2017 میں میدان سے آؤٹ کر کے باہر نکال دیا، مجھے یاد آیا، کیسے وہ اپنی مرضی سے وکٹ پر کھڑے رہتے، صرف تھکنے کے بعد کریز چھوڑتے لیکن اس بار امپائر نے انہیں نہ صرف میدان سے باہر کیا بلکہ کھیلنے کے لیے نا اہل بھی قرار دے دیا۔

میاں صاحب کو شاید کرکٹ کے وہ دن یاد آتے ہوں۔ انہوں نے دوران اقتدار بھی ایسا ہی کیا، مگر امپائر کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ وہ ایل بی ڈبلیو دے یا نہ۔ کھلاڑی کچھ نہیں کر سکتا۔ مجھے ایسا ہی لگا کہ اس بار میاں صاحب ایل بی ڈبلیو آؤٹ ہو گئے۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar