عمران خان کی حکومت کا مستقبل


وزیر اعظم عمران خان کے سیاسی مخالفین کی کوشش ہے کہ کسی طریقے سے عمران خان کی حکومت اپنی سیاسی مدت پوری نہ کرسکے اور ملک نئے انتخابات کی طرف فوری طور پر گامزن ہو سکے۔ اسی نکتہ کو بنیاد بنا کر تمام حزب اختلاف کی جماعتیں دو نکاتی بیانیہ پر توجہ دے رہی ہیں۔ اول عمران خان کی حکومت ناکام ہو گئی ہے اور ملک شدید ترین سیاسی، انتظامی اور مالی بحران کا شکار ہو گیا ہے۔ دوئم اس موجودہ بحران کا واحد حل نئے منصفانہ اور شفاف انتخابات ہیں۔

لیکن ان دونوں نکتوں پر حزب اختلاف کی جماعتیں عملی طور پر کوئی بڑی تحریک چلانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہم محض سیاسی دباؤ یا میڈیا میں دباؤ ڈال کر حکومت کو مجبور کردیں گے کہ وہ یا تو خود مستعفی ہو جائے یا ان کے بقول سلیکٹرز خود حکومت کو گھر بھیجنے کا فیصلہ کر لے تاکہ ملک نئے انتخابات کی طرف گامزن ہو سکے۔

اسی طرح پاکستان کی سیاست کے بڑے سیاسی اور صحافتی پنڈتوں نے بھی تواتر کے ساتھ یہ پیش گوئی پہلے بھی کی تھی اور اب بھی تسلسل کے ساتھ کر رہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت جانے والی ہے۔ بالخصوص ایک نکتہ پر زیادہ زور دیا جاتا ہے کہ عمران خان، ان کی حکومت اور اہم فریق یعنی اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان بہت سے امور پر ٹکراؤ ہے یا اسٹیبلیشمنٹ عمران خان سے سخت مایوس ہو چکی ہے۔ حکومت کے گھر بھیجنے کے معاملے میں ان کے بقول جو تاخیر ہے اس کی وجہ عمران خان کے سیاسی متبادل پر اتفاق نہیں ہے۔

ایک منطق یہ بھی دی جاتی ہے پس پردہ قوتوں نے شہباز شریف اور چوہدری پرویز الہی کی صورت میں مرکز اور پنجاب کی قیادت کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں نے تو یہ بھی منطق دی تھی کہ اسٹیبلیشمنٹ نے عمران خان کو چھ ماہ کی سیاسی وارنگ دی تھی کہ اگر انہوں نے ان کے مطابق کام نہ کیا تو ان کی حکومت کو چلتا کیا جائے گا۔

لیکن ان ساری خواہشات اور تجزیوں کی موجودگی میں عمران خان اپنی حکومت کے تیسرے برس میں داخل ہو گئے ہیں۔ حکومت کے اتحادی جماعتوں کے بارے میں یہ خبریں پھیلائی گئی کہ وہ اب عمران خان سے نالاں ہو گئے ہیں اور متبادل راستے کی تلاش میں ہیں۔ کیونکہ عمران خان کی حکومت مرکز اور پنجاب میں محدود اکثریت کے ساتھ حکومت میں ہے اور ان کے اقتدار کا ایک بڑا انحصار ان ہی اتحادی جماعتوں کی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ ایک منطق یہ بھی دی گئی کہ کچھ پس پردہ قوتیں یا ہم خیال دوست مسلم لیگ نون اور مسلم لیگ ق کے درمیان تلخیوں کو ختم کر کے ایک جماعت بنانا چاہتے ہیں، تاکہ مستقبل کی حکمرانی کے نقشہ کو تیار کیا جاسکے۔

اسی طرح عمران خان کی حکومت کو ایک بڑا سیاسی ایڈوانٹیج یہ بھی حاصل ہے کہ ان کے سیاسی مخالفین ان کے خلاف کسی بڑی تحریک چلانے کی یا تو صلاحیت نہیں رکھتے یا ان کی سیاسی طاقت کم ہوئی ہے۔ اسی طرح حزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان حکومت کو گھر بھیجنے پر بھی کوئی بڑا اتفاق پیدا نہیں ہوسکا۔ ان ہاؤس تبدیلی، وزیر اعظم پر دباؤ ڈال کر مستعفی ہونے پر مجبور کرنا، کوئی بڑی عوامی تحریک کا چلنا، اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے سمیت نئے انتخابات کے تحریک چلانا کوئی بھی کارگر نہیں ہوسکا اور نہ ہی اس پر کوئی بڑا اتفاق حزب اختلاف کی جماعتوں میں دیکھنے کو مل سکا۔

یہ کہنا کافی حد تک بجا ہوگا کہ عمران خان کی حکومت نے عملی طور پر ایک مضبوط حزب اختلاف اور تجربہ کار سیاست دانوں کو واقعی ایک مشکل صورتحال میں ڈال کر بے بس کیا ہوا ہے۔ حالانکہ عمران خان کی حکومت نے بہت سی ایسی غلطیاں اپنی حکمرانی کے نظام میں کی تھیں جسے بنیاد بنا کر حزب اختلاف حکومت کے لیے ایک بڑا بحران پیدا کر سکتی تھی، لیکن کچھ نہ کر سکی۔ اب حالت یہ ہے کہ حزب اختلاف میں ہم ایک واضح تقسیم دیکھ سکتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن اب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون سے مایوس ہو کر چھوٹی جماعتوں پر مشتمل نئی حزب اختلاف کی تشکیل کرنے کو حتمی شکل دے رہے ہیں اور ان کے بقول دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون درحقیقت اس حکومت کے لیے سہولت کاری کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن اتنے زیادہ سیاسی معصوم بننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہوں نے اسلام آباد کا سیاسی دھرنا اسی بنیاد پر ختم کیا تھا کہ ان کو کچھ قوتوں نے یقین دلایا تھا کہ حکومت مارچ میں نہیں رہے گی۔ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے مولانا کو یقین دلایا اور کیوں پھر اس پر عمل نہ ہوسکا، خود ایک بڑا سوال ہے۔

اسی طرح حزب اختلاف اور سیاسی و صحافتی پنڈتوں کو اس محاذ پر بھی فی الحال ناکامی کا سامنا ہے کہ عمران خان کی حکومت اور فوج کے درمیان کوئی بڑا ٹکراؤ پیدا کیا جاسکے۔ اس وقت عمران خان حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان کافی بہتر تعلقات ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی ضرورتوں کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ویسے بھی پاکستان میں سیاسی تبدیلی کا عمل طاقت کے مراکز کے درمیان ٹکراؤ کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ اس نکتہ پر حزب اختلاف کی ناکامی نے انہیں سیاسی طور پر تنہا بھی کیا ہے۔ اسی طرح حزب اختلاف کا یہ بیانیہ بھی کافی حد تک کمزور ہوا ہے کہ وہ واقعی کوئی جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتوں میں ایسے افراد یا گروہ کی کمی نہیں جو دن میں جمہوریت کے نعرے لگاتے ہیں اور شام ہوتے ہی رات کی سیاہی میں اسٹیبلیشمنٹ کو اپنی وفاداری کا عملی یقین دلاتے ہیں کہ اگر وہ عمران خان کی جگہ ہم پر اعتماد کریں تو ہم ان کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمرانی کے نظام میں عمران خان کی حکومت بھی کوئی ایسی حکومت نہیں جہاں سب اچھا ہے۔ حکمرانی کا بحران ہمیشہ سے ہی ہماری سیاست کا حصہ رہا ہے۔ فوجی یا سیاسی حکمران دونوں کی حکمرانی کے نظام میں عام آدمی کو کوئی بہت زیادہ فائدہ یا ریلیف نہیں ملا اور یہ ہی وجہ ہے کہ حکمرانی کا نظام اپنی ساکھ قائم نہیں کر سکا۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو چار محاذوں پر سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔ اول احتساب کا منصفانہ اور شفاف نظام سمیت بے لاگ احتساب، معاشی صورتحال میں بہتری پیدا کرنا، ادارہ جاتی اصلاحات اور گورننس کے بحران جس میں ایک بڑا تعلق عام آدمی کی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ کرونا بحران، چینی، آٹا، پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کی وجہ سے لوگوں میں حکومت کے بارے میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔

لیکن اب ملکی صورتحال کچھ بدلی ہے۔ اگر صورتحال بہت بہتر نہیں تو بہت بری بھی نہیں اور کچھ معاشی اشاریے مثبت بنیادوں پر دیکھنے کو مل رہے ہیں جو یقینی طور پر حکومت کے لیے اچھی خبر ہے۔ لیکن بنیادی مسئلہ اصلاحات کا حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ پولیس، ادارہ جاتی، ایف بی آر، بیوروکریسی، معاشی اور سیاسی اصلاحات سمیت احتساب کے معاملے میں بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ عمران خان کی کامیابی ان ہی بڑی اصلاحات سے جڑی ہوئی ہے۔

یہ ہی وجہ کہ بہت سے لوگ یہ ہی کہتے ہیں کہ عمران خان کو بڑا خطرہ حزب اختلاف کی جماعتوں یا میڈیا سے نہیں بلکہ خود اپنی جماعت اور حکمرانی کے نظام سے ہے۔ لوگوں میں بہت زیادہ توقعات عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے بڑھا دی تھیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ لوگ ان کی حکمرانی کو ان ہی بڑے بڑے سیاسی نعروں، دعوؤں سے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں یا ان کی حکمرانی کو چیلنج کرتے ہیں۔ اسی طرح ہماری سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کی وجہ بین الا اقوامی حالات یا وہاں کی اسٹیبلیشمنٹ کی سیاست اور مفاد بھی اہم ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت جو ہماری علاقائی اور عالمی سیاست ہے اس کو بنیاد بنا کر بھی یہاں فوری طور پر حکومتی سطح پر تبدیلی کے امکانات محدود نظر آتے ہیں۔

اس لیے عمران خان کی حکومت فی الحال کہیں نہیں جا رہے اور وہ مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ داخلی محاذ پر بالخصوص لوگوں کی سیاست سے اہم جڑے مسائل پر وہ کچھ کرسکیں۔ اگر واقعی آنے والے برس میں وہ لوگوں کو ریلیف دینے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ان کی داخلی سیاست بھی مضبوط ہوگی، وگرنہ دوسری صورت میں حکومت کو داخلی محاذ پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ البتہ فی الحال عمران خان کے سیاسی مخالفین کے لیے مایوسی زیادہ ہے۔ کیونکہ ان کا جو خیال تھا کہ وہ عمران خان کو سیاسی محاذ پر سیاسی دیوار یا سیاسی تنہائی میں مبتلا کر کے ان کے اقتدار کو کمزور کرتے ہوئے انہیں سیاسی پسپائی پر مجبور کرسکیں گے، فوری طور پر ممکن نظر نہیں آتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).