آؤ کافر کافر کھیلیں


پچھلے دنوں ایک کتاب ”رموز کن فیکون“ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کتاب میں شامل مولانا رومی کی ایک حکایت مجھے بہت دلچسپ لگی۔ حکایت کچھ یوں تھی کہ ایک بار حضرت موسی کی نظر ایک چرواپے پر پڑی جو بھیڑ بکریاں چراتا ہوا باآواز بلند کہتا جا رہا تھا۔

”اے میرے مالک،تو میرے پاس ہو تو میں تیری خدمت کروں ،تیری جوئیں نکالوں ،تیرا سر دھوؤں ،تیرے سر میں تیل لگاؤں ،رات کو سوتے وقت تیرے پاؤں دباؤں ،تیرے سونے کی جگہ کی صفائی کروں ،تیرے کپڑے دھوؤں ،تجھے دودھ پیش کروں۔ اگر تو بیمار ہو تو تیرا غم خوار بنوں۔ اگر تیرا گھر دیکھ لوں تو صبح شام دودھ اور گھی لے کر تیرے دروازے پر آؤں۔ تیرے ہاتھوں کو بوسہ دوں۔“

حضرت موسی یہ سب سن کر اس کے پاس گئے اور پوچھا
”اے چرواہے ،تو کس سے مخاطب ہے۔“
وہ کہنے لگا
”اس سے جس نے مجھے اور تجھے اور اس ساری کائنات کو بنایا۔“
حضرت موسی نے فرمایا۔

”اوہ عقل سے پیدل چرواہے ،اللہ کو ان چیزوں کی محتاجی نہیں۔ اوہ جاہل اس پاک ذات کو تیری ان خدمات کی ضرورت نہیں۔ تیرے کفر نے دین کے قیمتی لباس کو گدڑی بنا دیا، اے بدبخت انسان ،اگر تو نے اپنی زبان بند نہ کی تو غیرت حق آتش بن کر کائنات کو جلا ڈالے گی۔“

اس معصوم چرواہے نے جب حضرت موسی کی باتیں سنیں تو بہت شرمندہ ہوا۔ اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ یہ خوف سے تھرتھر کانپنے لگا۔ وہ کانپتے ہوئے کہنے لگا۔

”اے اللہ کے نبی،تو نے ایسی بات کی،جس سے میرا منہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔“

یہ کہہ کر اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری،اپنا گریبان چاک کیا اور دیوانوں کی طرح روتا ہوا جنگلوں کی طرف نکل گیا۔ ”

اگلے روز جب حضرت موسی خدا سے ہمکلام ہوئے تو رب تعالی کہنے لگا۔

”اے موسی،تو نے میرے بندے کو مجھ سے جدا کیوں کیا،تو دنیا میں جدائی ڈالنے کے لئے آیا ہے یا ملوانے کے لئے ،خبردار! اس کام میں احتیاط رکھ۔ ہم نے ہر شخص کی فطرت علحدہ بنائی ہے۔ ہر فرد کو دوسرے سے جدا بنایا ہے۔ ایک بات ایک کے حق میں زہر کا اثر رکھتی ہے تو دوسرے کے لئے وہی بات تریاق کا اثر رکھتی ہے۔

جو شخص جس زبان میں بھی ہماری حمد و ثنا کرتا ہے۔ اس سے ہماری ذات میں کوئی کمی بیشی واقع نہیں ہوتی۔ ہم کسی کے ظاہر پر نگاہ نہیں کرتے۔ ہم تو باطن دیکھتے ہیں۔

”اے موسی، دیوانوں ،دل جلوں اور ہارے ہوؤں کے آداب اور ہی ہوتے ہیں۔“

حضرت موسی یہ سن کر بہت شرمندہ ہوئے اور چرواہے کو ڈھونڈنے نکل پڑے۔ جنگلوں اور بیابانوں کی خاک چھانی لیکن چرواہا آپ کو نہیں ملا۔ اپ دن رات اس چرواہے کو ڈھونڈتے رہتے تھے۔ ایک روز آپ کی نظروں نے اس اللہ کے نیک بندے کو پا ہی لیا۔

چرواہے نے انہیں دیکھ کر کہا
”اے موسی،مجھ سے کیا خطا ہوئی ،جو تو یہاں بھی آ گیا۔“
حضرت موسی کہنے لگے۔

”اے خدا کے بندے! تجھے مبارک ہو، تجھے کسی ادب، آداب، قاعدے ،ضابطے کی ضرورت نہیں۔ تو ہی اصل دین پر ہے۔ تجھے سب معاف ہے“

حضرت موسی کی بات سن کر چرواہے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور کہنے لگا۔

”اب میں ان باتوں کے قابل کہاں! اب تو میرے دل کا خون ہو چکا۔ اب تو میری منزل سدرۃالمنتہی سے بھی آگے ہے۔ اس دن سے اب تک ہزاروں لاکھوں منازل طے کر چکا ہوں۔ تو نے میرے ماضی کے گھوڑے کو ایسی ضرب لگائی کہ ایک ہی جست میں ہفت آسمان سے بھی آگے نکل گیا۔ میرا حال اب بیان کے قابل نہیں۔“

چرواہا حضرت موسی کو حیران چھوڑ کر آگے نکل گیا۔

پوری دنیا میں مذہبی شدت پسندی جس قدر عروج پر ہے۔ اسے دیکھ کر مجھے یہ حکایت بہت یاد آتی ہے۔ اگر وہ چرواہا ہمارے دور میں ہوتا تو اب تک ہم نے اس پر نجانے کتنے فتوی لگا دینے تھے۔ افلاطون کے مدرسے میں اس کے شاگرد ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے کائنات اور تخلیق کائنات کے متعلق بہت سے ایسے سوالات پوچھ لیا کرتے تھے جو اگر ہمارے دور کا کوئی شاگرد پوچھتا تو استاد نے اس پر ایف آئی آر کٹوا دینی تھی۔ دوسروں پر کفر کے فتوی لگا دینا ہمارا وتیرہ بن گیا ہے۔ اس موقع پر مجھے حضرت عیسی سے منسوب وہ قصہ یاد آ گیا جس میں بھرے بازار میں ایک زانی عورت کو اس کے گناہ کی پاداش میں پتھر مارے جا رہے تھے تو حضرت عیسی نے کہا تھا کہ پہلا پتھر وہ مارے جس نے کبھی کوئی گناہ نہ کیا ہو۔

اپنے مذہب کو سمجھیں اگر کوئی بھی مذہب اس کے پیروکاروں کو مکمل طور پر سمجھ میں آ جائے تو کوئی کسی پر کفر کا فتوی نہیں لگائے گا۔

میں بھی کافر،تو بھی کافر
لفظوں کا جادو بھی کافر

پھولوں کی خوشبو بھی کافر
یہ بھی کافر،وہ بھی کافر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).