اپنی کرپشن خود چھپاؤ



ان خبروں پر مقدور بھر رنج کا اظہار بھی کیا جاتا ہے اور ان خواتین کے حق میں آواز بھی اٹھائی جاتی ہے لیکن اسی پاکستان کے متوسط اور اوپری متوسط طبقے کی خواتین کے ساتھ ایک ظلم ایسا بھی کیا جاتا ہے جس پر آج تک نہ کسی نے آواز اٹھائی اور نہ ہی اسے ظلم سمجھا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں سرکاری، نیم سرکاری، نجی اداروں میں ملازمت اور اپنا کاروبار وغیرہ کرنے والے ‘کماؤ’ مرد چونکہ مالی اور سماجی طور پر مستحکم ہوتے ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کی بیگمات سماجی دباؤ کے تحت ان سے سخت مرعوب رہتی ہیں اور ان کے ہر غلط کو بھی درست سمجھتی ہیں۔

اسی معاشرے میں جہاں عام خواتین کے ساتھ نہایت برا سلوک کیا جاتا ہے وہیں ان خواتین کو شاید عورت ہونے کے باعث تو نہیں لیکن اپنے خاندان کی سماجی حیثیت کے باعث ایک خاص طرح کی ‘امیونٹی ‘ یعنی استثنا حاصل ہوتا ہے۔

اسی ‘امیونٹی’ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے خاندانوں کے مرد حضرات، ٹیکس سے بچنے، آمدن سے زیادہ خرچ کرنے، سرکاری ملازمت میں ہوتے ہوئے ذاتی کاروبار کرنے، خاندانی کاروبار میں سے ‘گھاؤ گھپ’ کرنے کے الزامات سے بچت کے لیے خواتین کو استعمال کرتے ہیں۔!

مشکوک آمدن سے بنائے گئے، بینک اکاؤنٹ، گاڑیاں، جائیدادیں سب خواتین کے نام رکھی جاتی ہیں۔ خیر سے یہ اسی پاکستان کی کہانی ہے جہاں بہنوں بیٹیوں کا شرعی حصہ ان کے نام کرتے ہوئے باپ بھائیوں کا خون سفید ہو جاتا ہے اور حق مہر، گھر کا خرچ اور جیب خرچ دیتے ہوئے شوہروں کے بلڈ پریشر آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں اور جہاں عورت کی کمائی کو اپنے نام منتقل کر کے شیر مادر کی طرح ڈکار جانا مرد ہونے کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔

اکثر، راشی افسران کی بیگمات، اپنے بھائیوں، جیٹھوں اور دیوروں کے ساتھ کاروباری شراکت دار ہوتی ہیں۔ یہ بھائی، جیٹھ اور دیور ایسے تابعدار نکلتے ہیں کہ گھر میں بیٹھی، باجی یا بھابھی کا حصہ، جو پراسرار طور پر بڑھتا ہی چلا جاتا ہے نہایت ایمانداری سے قدموں میں ڈھیر کر دیتے ہیں۔

یہ سب بھی اسی پاکستان میں ہوتا ہے جہاں عورت اگر سچ مچ کاروبار کرنے جائے تو معمولی ڈیلر سے لے کر بینک کا صدر تک اس کا مال لوٹنے کو بے قرار ہو جاتا ہے۔

یہ انتظام سالہا سال سے چلا آ رہا ہے۔ بہنوں بیٹیوں کا حصہ ہڑپنے والے، بیویوں کے نام جائیداد کرتے ہیں اور وہ عفیفائیں اس دوزخ کی آگ کو اپنے بچوں کا حق سمجھ کے حقدار نندوں، بیٹیوں کا سماجی طور پر ناطقہ بند کر کے انھیں ان کے حق سے محروم کرنے میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں اور عورت، عورت کی دشمن نما محاوروں کی مثال مضبوط کرتی ہیں۔

سرکاری نیم سرکاری اداروں کے افسران کی کرپشن کھلتی ہے تو سادہ، باپردہ، خاتون خانہ نما بیگمات، گنجلک کاروبار کی مالک نکلتی ہیں۔ حالانکہ اس کاروبار میں ان کی حیثیت ویسی ہی ہوتی ہے جیسی دیسی جمہوریتوں میں منتخب نمائندوں کی۔

مشترکہ خاندانی کاروبار میں ایک بھائی لتے لگائے پھرتا ہے اور دوسرے کے پوبارہ۔ استفسار پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک بھابھی سلیقہ شعار ہیں اور دوسری پھوہڑ۔ سوئی سے گھر بنا لیا جبکہ پھوہڑ بھابھی نے لاکھ کا گھر خاک کا کر دیا۔ چونکہ بات عورت کے سلیقے اور گھر داری پر آ جاتی ہے تو مرد حضرات گنگ ہی رہ جاتے ہیں۔

عرض یہ ہے کہ عورت کس قدر بھی سلیقہ شعار ہو، مشرقی ہو، باوفا ہو اور بچت کے مارے آلو کھرچ کے پکاتی ہو، پرانی ساڑھی سے کھڑکی کے پردے بناتی ہو یا مہینے کے آخری دنوں میں ٹوتھ پیسٹ کو دہرا کر کے پیسٹ کشید کرتی ہو، پرانے صابنوں کی کرچیاں جمع کر کے نیا صابن بناتی ہو، تب بھی ہزاروں کی تنخواہ سے بچوں کی لاکھوں کی فیس دے کر کروڑوں نہیں بچا سکتی۔

کتنے ہی افسران، کاروباری حضرات کی بیویاں، سچ مچ کے کاروبار کرتی ہیں، ملازمتیں کرتی ہیں، گھر کے کام کر کر کے گھٹنے اور کمر کے مہرے گھسا بیٹھتی ہیں، برتن مانجھ مانجھ کر ہاتھوں میں سے قسمت کی لکیریں مٹا لیتی ہیں، تب بھی ایک سادہ زندگی گزارنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتیں۔

بیگمات سے دست بستہ عرض ہے کہ خدارا عورت کی عزت کا پاس کیجیے، یہ جنگ جو ہم عورت کی عزت، وقار اور مرتبے کے لیے لڑ رہے ہیں اس کا پھل موقع پرست مردوں کو نہ لے جانے دیجیے۔ کسی کی دولت کو اپنے اکاؤنٹ میں مت ڈالیے، کسی کی جائیداد، کسی کا کاروبار اپنے نام پر مت رجسٹرڈ ہونے دیجیے۔ سر اٹھا کر رہیے، شریک حیات بنیے، شریک جرم نہیں۔

مردوں کی مالی بے ضابطگیوں پر گھر کی خواتین کی تصاویر اور ان کے نام اچھلتے دیکھ کر اتنا ہی دکھ ہوتا ہے جتنا ملازمت پیشہ، کاروبار کرنے والی یا کسی نہ کسی طرح سماج میں اپنی موجودگی کا ثبوت دینے والی خواتین کے لیے ‘دو نمبر عورت’ کا خطاب دیکھ کر ہوتا ہے۔

امید ہے میری یہ التجا کسی نہ کسی کے کان میں ضرور پڑے گی اور اگلے برس عورت مارچ میں ایک نیا پلے کارڈ بھی ہو گا، ’اپنی کرپشن خود چھپاؤ، اپنی سزا خود بھگتو!‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).