ہم بہت مایوس ہو چکے ہیں، ہم ابھی مایوس نہیں ہوئے


اکتوبر 2018 میں انتخابات کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والے عمران خان صاحب کو ابھی صرف دو ماہ ہی ہوئے تھے مگر ان پہلے دو ماہ میں ہی انداز ہو گیا تھا کہ ان کے اقتدار کے آنے والے پونے پانچ سال کیسے ہوں گے، مگر ایک تو دو ماہ میں ہی خان صاحب کے انداز حکمرانی پہ تنقید جائز نہیں تھی، دوسرے خان صاحب کی ایمانداری، دعوؤں اور وعدوں کی بنیاد پہ کھڑے ان کے بیانیے نے جو ان کی شخصیت کے گرد ایک کرشماتی دیومالائی سحر طاری کر دیا تھا ایسے میں ان کی حکومت کے خلاف منفی رائے کا سوچنا بھی بے کار تھا۔

ان ہی دنوں میرا کالام جانے کا پروگرام ہوا تو میں نے مردان سے سوات اور کالام تک لوگوں سے خان صاحب کی حکومت، ان کے دعوؤں اور وعدوں کی تکمیل کے حوالے سے ان علاقوں کی عوام کی رائے معلوم کی تو خان صاحب کے لیے مثبت رائے غالب تھی جبکہ منفی بہت کم، مگر مردان اور سوات کے عوام کی رائے میں خان صاحب کی کارکردگی کے حوالے سے کچھ دبے دبے سے تحفظات ضرور تھے، مردان اور سوات وہ اضلاع ہیں جہاں سے خان صاحب کی جماعت نے خاصی عوامی پذیرائی حاصل کی، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا بھی وہاں سے منتخب ہوئے پھر خان کے خاص الخاص چہیتے مراد سعید بھی وہیں سے کامیاب ہو کر وزیر بن چکے تھے، علی محمد خان بھی وہیں سے منتخب ہو کر وزیر بنے، مگر آج صرف دو سال بعد ہی خان صاحب کی کرشمہ ساز شخصیت کا سحر عوام کے ذہنوں سے اتر چکا ہے، لیکن آج بھی سرکاری اور کچھ سرکاری زیر اثر میڈیا جعلی عوامی سرویز کے ذریعے یہ باور کرانے میں جتی ہوئی ہے کہ خان صاحب مقبولیت میں آج بھی اول ہیں۔

گیلپ پاکستان ہو یا پلس ان کے سروے محض پندرہ سؤ سے دو ہزار افراد کی رائے پہ مشتمل ہوتے ہیں، جو کسی بھی طور کسی رہنما کی مقبولیت یا غیر مقبولیت جانچنے کا پیمانہ نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کی رائے کا اندازہ پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے لگایا جا سکتا ہے۔ کچھ ہفتے قبل مجھے ایک بار پھر بذریعہ سڑک حیدرآباد سے اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا تو عوام کی رائے جاننے کے لیے میں نے وہی پرانا طریقہ اختیار کیا اس بار میں ملتان، فیصل آباد اور پھر میانوالی جو کہ خان صاحب کا اپنا حلقہ انتخاب تھا وہاں سے ہوتا ہوا اسلام آباد پہنچا، اس دوران رستے بھر عوام سے ان کی تکالیف، عمران خان حکومت کے بارے میں ان کے خیالات معلوم کرتا گھومتا پھرتا جب اسلام آباد پہنچا تو اندازہ ہوا کہ خان صاحب کی حکومت ان شہروں کی پچانوے فیصد عوام کی حمایت سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے جہاں دو سال قبل اپنی مقبولیت کے عروج پہ تھی، میانوالی جو خان کا اپنا گھر ہے کی حالت خان صاحب کے بلند و بانگ دعوؤں کی نفی کرتی نظر آئی۔

خان صاحب کو اقتدار میں لانے سے پہلے ان کی شخصیت کو باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت دیومالائی شخصیت کے طور پاکستانی عوام کے آگے لانچ کیا گیا، ان کے سیاسی مخالفین کے خلاف کرپشن، اقربا پروری، اداروں کی تباہی، بدترین طرز حکمرانی کی مہم چلا کر خان صاحب کے لیے ایک مسیحا کا امیج بنایا گیا اور پوری پاکستانی میڈیا کو اس کام پہ لگا دیا گیا۔ لاہور کے مینار پاکستان جلسے سے پہلے جو عمران خان ایک ناکام سیاسی کھلاڑی تھا اچانک ایک مسیحا ایک کرشمہ ساز شخصیت بنا کر عوام کے آگے کھڑا کر دیا گیا، بھانت بھانت کے لوگ ان کے گرد اکٹھا کیے گئے، الیکٹبلز کو تحریک انصاف میں شمولیت کے لیے نہ صرف راضی کیا گیا بلکہ پابند بھی بنایا گیا، اور یہ قوم بھی کیا سادہ ہے کہ اس شخص سے یہ پوچھنا بھی گورا نہ کیا کہ آپ جن دو بڑی سیاسی جماعتوں کو ملک کی تباہی و بربادی کا ذمے دار قرار دیتے ہیں، ان جماعتوں کا ملک و قوم دشمن کارروائیوں میں ساتھ دینے والوں، لوٹ مار میں برابر کا حصہ لینے والے کرپٹ بھگوڑوں کا ہجوم اپنے اردگرد اکٹھا کر کے آپ ملک میں کیا تبدیلی لائیں گے۔

عوام نے اس وقت آنکھیں بند کر کے جس مصنوعی کرشماتی شخصیت پہ بھروسا کر کے ایک نئی تبدیلی، ایک ایسے نئے پاکستان کا خواب آنکھوں میں سجایا تھا جہاں عدل و انصاف شرعی اصولوں کے مطابق، طاقتوروں اور کمزوروں کے لیے ایک جیسا ہوگا، جہاں ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنی ذمے داریاں سرانجام دے رہے ہوں گے، جہاں کرپشن، لوٹ مار گناہ سمجھی جائے گی، جہاں ہر پاکستانی کو اظہار رائے کی مکمل آزادی ہوگی، کلمۂ حق کہنا جرم نہیں سمجھا جائے گا، جہاں مہنگائی، بھوک، بیروزگاری کا خاتمہ ہو جائے گا، وہ کرشماتی شخصیت اتنی جلدی ان کے خواب توڑ کر چکنا چور کر دے گی یہ کسی نے بھی نہ سوچا تھا۔

خان صاحب کے لیے ایک ہمدرد، ایماندار، محب وطن پاکستانی رہنما کا امیج بنانے والوں نے پانچ سات سال جس بت کو تراشنے میں اور اسے کرشماتی اور دیومالائی حیثیت دینے میں لگائی اس کے اقتدار، اس کی طرز حکمرانی کے صرف دو سالوں نے اس بت سے کرشمہ بھی نکال دیا اور اس کے دیو مالائی تصور کو بھی پاش پاش کر دیا۔

میں جب اسلام آباد سے براستہ ایبٹ آباد گڑھی حبیب اللہ سے ہوتا ہوا مظفرآباد پہنچا تو راستے بھر نجانے کتنے پاکستانیوں سے خان صاحب کی حکومت کے بارے میں رائے معلوم کرتا گیا تو دو فیصد سے بھی کم لوگ خان صاحب کی طرز حکمرانی اور ان کی حکومت سے مطمئن نظر آئے، جس سے پوچھوں کہ کیا آپ خان صاحب کی حکومت کے اقدامات سے خوش ہیں تو وہ فوراً دو چار صلواتیں سناتا اور پھر کہتا کہ ”ہم بہت مایوس ہوئے ہیں عمران خان سے، اس نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا ہے، نئے پاکستان کا وعدہ کر کے پرانے سے بھی بدتر پاکستان تھما دیا“۔

ایبٹ آباد میں دو لوگ ایسے ملے جنہوں نے کہا کہ ”ہم ابھی خان صاحب سے مایوس نہیں ہوئے ان کے لیے بہت چیلنجز ہیں اور ہمیں امید ہے کہ اپنے بقایا تین سالوں میں وہ معاملات کو بہتر بنا لیں گے“ دو تین لوگوں نے کہا ”ہم ابھی مایوس تو نہیں ہوئے ہیں مگر خان صاحب کو مہنگائی پہ کنٹرول کرنا پڑے گا ورنہ سب کچھ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا“ اس طرح کی آرا سنتا اور نوٹ کرتا میں جب مظفرآباد پہنچا تو وہاں ایک بھی ایسا نہیں ملا جو خان صاحب کی حکومت سے اور ان کے اقدامات سے خوش نظر آتا۔

ان کی حکومت سے شدید نفرت و بیزاری کا اظہار کرنے والے کشمیری مقبوضہ کشمیر کے حالات کا ذمے دار عمران خان صاحب کو سمجھتے ہیں اور وہ ایسا کیوں سمجھتے ہیں اس کی بہت سی وجوہات مظفرآباد کے نوجوانوں اور بزرگوں نے بیان کیں جن کا احاطہ اس کالم میں ممکن نہیں ہے، بہرحال ”ہم بہت پرامید ہیں کہ خان صاحب تبدیلی لائیں گے“ سے شروع ہونے والی کہانی صرف دو سالوں میں ”اب ہم مایوس ہو چکے ہیں“ تک پہنچ گئی ہے اور اب مایوس ہونے سے ”اب ہم مزید برداشت نہیں کر سکتے“ تک پہنچنے میں کتنا وقت لیتی ہے یہ دیکھنا باقی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).