محبت کی شادی، شہری دلہن اور دیہاتی ساس


میرے ایک اچھے دوست کی بہن جامعہ کراچی کے شعبہ فارمیسی کی طالبہ تھی۔ وہاں اس کی ایک اپنے ہم جماعت سے دوستی ہوئی اور لڑکے کے گھر والے لڑکی کا رشتہ لے کر اس کے گھر آئے، لڑکا پنجابی تھا اور اس کا خاندان پنجاب میں گاؤں میں مقیم تھا۔ لڑکی کے اہل خانہ ماڈرن خیال کے حامل لوگ تھے، انہوں نے تھوڑی سوچ بچار کے بعد ہاں کر دی اور لڑکے لڑکی کا ڈی فارم مکمل ہوتے ہی دونوں کی شادی کر دی گئی۔ اولاً لڑکی، لڑکے کے سائٹ کے علاقے میں بنے چھوٹے سے مکان میں منتقل ہو گئی۔

کچھ عرصہ گزرا اور لڑکا بے روزگار ہو گیا۔ اس ’دو ہنسوں کے جوڑے‘ کے لئے مشکلات بڑھیں۔ لڑکے کو فیصل آباد میں نوکری ملی۔ وہ وہاں نوکری کرنے چلا گیا اور اپنی بیوی کو میکے چھوڑ گیا۔ کچھ وقت گزرا اور وہ واپس آیا اور اپنی بیوی کو لے گیا۔ وہ سمجھی کہ شوہر اسے فیصل آباد لے جائے گا مگر اس کے برخلاف وہ اپنی بیوی کو اپنے گاؤں لے گیا جو فیصل آباد سے 2 گھنٹے کی مسافت پر تھا اور خود فیصل آباد میں رہنے لگا۔ اب لڑکی گاؤں میں تھی جہاں اس کی درجن بھر نندیں تھیں، دیور تھے، ایک دیہاتی قسم کی سخت گیر ساس تھی۔

یہاں ہی اس کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی۔ اب اس کی ساس نے اس سے گھر کے کام کروانے شروع کیے جس میں گائیوں کا دودھ دوہنا۔ گوبر صاف کرنے جیسے کام بھی شامل تھے۔ اگر بہو ان احکام کی بجا آوری میں کوئی کوتاہی کرتی تو ساس اسے بڑی بہیمیت سے تشدد کا نشانہ بناتی۔ شوہر عموماً فیصل آباد میں ہوتا اور ہفتے میں دو تین دن ہی گاؤں میں آتا۔ وہ بھی اب بدل گیا تھا۔ وہ ماں کا ساتھ دیتا اور اپنی ’سپنوں کی رانی‘ کو آنکھیں دکھاتا۔ نتیجتاً لڑکی مع بچے کے کراچی بھاگ آئی۔ شوہر بھی دوڑا ہوا کراچی آیا۔ بڑی کوشش ہوئی کہ کسی طرح دونوں کے معاملات سدھر جائیں مگر ایسا نہ ہوا۔ بالآخر بات خلع تک پہنچی۔

یہ تو محض ایک واقعہ ہے۔ ایسے واقعات روز اس وطن میں اور ساری دنیا میں ہوتے ہیں۔ دو انسان ایک دوسرے سے الفت و محبت کے رشتے سے جڑ جاتے ہیں مگر جب زندگی کے ساتھی بنتے ہیں تو ایک دوسرے سے توقعات ٹوٹنے لگتی ہیں اور ایک ایک کر کے سنہرے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ ہر مرتبہ صورتحال اوپر مذکور واقعے جتنی ہی خوفناک ہو یہ ضروری نہیں مگر امیدوں اور ارمانوں کا جنازہ محبت کی شادیوں میں نکلتا ضرور ہی ہے مگر ایسا ہوتا کیوں ہے؟ اس کے پیچھے کیا نفسیاتی محرکات ہیں؟

ایسی شادیوں میں نا اتفاقی کی سب سے بڑی وجہ دونوں گھروں میں عدم مطابقت ہوتی ہے۔ شادی صرف دو انسانوں کا میل نہیں بلکہ دو خاندانوں کی رشتہ داری ہے۔ مختلف قومیتوں، مسلکوں، بلکہ مختلف مذاہب کے افراد بھی ابتداً جذبات کے زیر اثر ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں مگر جب شادی ہو جاتی ہے تو ایک دوسرے کی زبان، ثقافت، کھانے، مسلک، مذہب عجیب اور غیر مانوس معلوم ہوتے ہیں۔ اگر اس نوع کے اختلافات نہ بھی ہوں تو سماجی معاشی حیثیتوں میں فرق ہوتا ہے۔

رہائشی علاقوں میں فرق ہوتا ہے۔ یہ سب کل ملا کر کسی چھوٹے سائز کے جوتے کی طرح تنگ کرنے لگتا ہے۔ ایک دوسرے کے گھر والوں سے اختلافات پیدا ہوتے ہیں اور جب ان کا اپنے ’سپنوں کے راجہ‘ یا ’سپنوں کی رانی‘ سے ذکر کیا جائے تو شادی سے پہلے کی طرح ہر بات پر تائید نہیں ملتی۔ یوں اندھی محبت کا التباس ٹوٹنے لگتا ہے۔

شادی سے قبل ایسے جوڑوں کو بعض اوقات یہ لگتا ہے کہ وہ بس محبت کے سہارے زندگی گزار لیں گے مگر اصل میں جب زندگی کی دوڑ میں سختیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں تو محبت کے بھڑکیلے دعوؤں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ لڑکی یا لڑکا محبت کی شادی میں اپنے ماں باپ کو مورد الزام بھی نہیں ٹھہرا سکتے کہ کس کے پلے باند دیا۔

محبت کی شادی کی ناکامی کی اہم ترین وجہ یہی ہے کہ انسان اس کی تلخیوں اور نااتفاقیوں پر کسی کو بھی مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتا۔ عموماً گھر والے کسی نہ کسی حد تک ان بے جوڑ رشتوں کی مخالفت ضرور کرتے ہیں کیونکہ وہ تو ظاہر ہے محبت میں اندھے نہیں ہو رہے ہوتے اور جب شادی ہو چکی ہوتی ہے اور اس کے بعد لڑکا یا لڑکی اپنے گھر والوں کے سامنے اپنے جیون ساتھی کی تھوڑی شکایت بھی کرے تو بھی ان کا فوری طعنہ یہی ہوتا ہے کہ ’ہم نے منع کیا ہی تھا، اب بھگتو۔‘

آج کل محبت کی شادیوں کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شادی سے قبل ہی لڑکے لڑکی میں اس قدر ابلاغ، اس قدر رابطے ہوتے ہیں کہ دونوں میں ایک دوسرے کی ذات میں اسرار، کشش شادی سے قبل ہی ختم ہو جاتی ہے۔ شادی رہے سہے رومان کو بھی مٹا کر ٹنوں ذمہ داریاں سر پر انڈیل دیتی ہے۔ اب کوئی ریورس گیئر نہیں ہوتا اور جس قدر زمانے نے شادی کی مخالفت کی ہو اس کی ناکامی کے امکانات اتنے ہی قوی ہوتے ہیں اس لیے کہ زمانہ اسی شے کی زیادہ مخالفت کرتا ہے جو ’کامن سینس‘ سے متصادم ہو اور دوئم بات یہ کہ اگر انسان نے کسی دوسرے انسان کو پانے کے لئے بڑی لڑائی لڑی ہو تو ظاہر ہے کہ اس سے اس کی توقعات بھی بہت بڑھ جاتی ہیں۔

خیر ناکام تو گھر والوں کی پسند سے کی گئی شادیاں بھی ہو سکتی ہیں اور ہوتی بھی ہیں مگر مشاہدہ یہ یہ بتاتا ہے کہ ان کی ناکامی کے امکانات پسند کی شادی کی نسبت کم ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ گھر والے ایک دوسرے سے محبت کی شادیوں کی نسبت زیادہ مطابقت رکھتے ہیں اور دوئم بات یہ کہ کوئی غیر ضروری توقعات زوجین کو ایک دوسرے سے ہوتی بھی نہیں، بلکہ کوئی توقعات ہی نہیں ہوتیں۔ ساری توقعات شادی کے بعد ہی پروان چڑھتی ہیں۔

تاریخ انسانی میں محبت کے جتنے بھی قصے معروف ہوئے ان میں سے کسی کی شادی نہ ہو پائی۔ شیریں فرہاد، لیلیٰ مجنوں، ہیر رانجھا، یہ سب ہی بے مثال محبت کا استعارہ بن گئے مگر ان کی شادی اگر ایک دوسرے سے ہو گئی ہوتی تو شاید دنیا میں کوئی ان کا نام بھی نہ جانتا۔ جب تک انسان نے کچھ حاصل نہ کیا ہو تب تک اس کے پانے کے لئے دیوانگی ہوتی ہے مگر منزل پر پہنچ جانے کے بعد اکثر مجنوں اور لیلائیں یہ مصرعہ پڑھتے ہوئے پائے گئے ہیں،
منزل پہ وہ کہاں جو مزہ راستے میں ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).