گلگت بلتستان انتخابات اور پی ٹی آئی کے اندرونی حالات


اس وقت پی ٹی آئی کے اندرونی حالات کافی گمبھیر ہیں، پارٹی میں ایک بھیڑ چال لگی ہوئی ہے، ہر کوئی ہر دوسرے آدمی سے خوفزدہ، ہر امیدوار سازش کا شکار مگر ہر سیاستدان دوسرے کے خلاف بھی سازش میں مصروف۔ اندرونی کہانی کے کئی رخ ہیں۔ آئیے ذرا تحریک انصاف کے مختلف گوشوں کی مختصر سیر کرتے ہیں۔

انتخابات 2021 کے وسط تک موخر کرانے کی تجویز

گورنر راجہ جلال اور وفاقی وزیر گلگت بلتستان و کشمیر علی امین گنڈاپور اس پروجیکٹ پر جنگی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔ وفاق کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جواز بھی بڑا دلفریب پیش کیا جا رہا ہے، وہ یہ کہ آئندہ سال کشمیر اسمبلی کی مدت پوری ہو گی تو گلگت بلتستان اور کشمیر میں ایک ہی دن انتخابات کرا کر مودی کو پیغام دیا جائے، دنیا کو بتلایا جائے کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔

مگر اس تجویز کو تحریک انصاف کی مرکزی و صوبائی ہر دو تنظیم سختی سے رد کر رہی ہیں، خاص کر سیف اللہ نیازی انتخابات مزید التوا میں ڈالنا نہیں چاہ رہے، بہرحال چند ہفتوں میں فیصلہ ہو گا۔

گورنر کا مخمصہ کیا ہے؟

یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ گلگت بلتستان میں نیچرل سیاست نہیں ہوتی، مقتدر حلقے سیاسی بساط کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لئے بعض دفعہ عجیب و غریب روایات ڈالتے ہیں۔ انہی میں سے ایک انتہائی غلط اور غیر سیاسی روایت یہ ڈال دی گئی ہے کہ بیک وقت شیعہ گورنر اور شیعہ وزیر اعلی یا سنی گورنر اور سنی وزیر اعلی نہیں ہو سکتے۔ یہ ہے تو نیگٹیو بات جو عموماً کھل کے نہیں بتائی جاتی مگر اس خطے کی سیاسی بدبختی! یہ ریت پڑ چکی ہے۔ اور راجہ جلال کو اس کا پورا ادراک ہے کہ جعفر شاہ کے وزیر اعلی بننے کی صورت میں ان کی گورنری سے چھٹی اٹل ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ پی ٹی آئی کے اندر و باہر گورنری کے لئے بھی لابنگ شروع ہو چکی ہے۔

جعفر شاہ کی پریشانی

راجہ جلال اور جعفر شاہ بہرحال ایک نیام کی دو تلواریں بن چکے ہیں۔ ایک حکومتی سیٹ اپ میں ان دو اصحاب میں سے کوئی ایک ہی کھپے گا، یہ بات دونوں کے حلقہ احباب جانتے بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جعفر شاہ کے متوازی وزارت اعلی کے دو امیدوار سامنے آ چکے ہیں، سمجھنے والوں کے لئے اس میں کھلی نشانی یہ ہے کہ ان دونوں کا تعلق بلتستان سے باہر سے ہے اور شیعہ مسلک سے بھی نہیں۔ راجہ جہانزیب آف غذر کی جو آڈیو وائرل ہوئی ہے وہ جعفر شاہ پارٹی ہائی کمان کو بھی سنا چکے ہیں۔

جعفر شاہ کو گیم سے آؤٹ کلاس کر دینا کوئی اتنا مشکل کام بھی نہیں ہے، کیونکہ ان کے اپنے حلقے میں پوزیشن اتنی خاص نہیں۔ صدر پی ٹی آئی اپنے حلقے کا انتخابی معرکہ تب سر کر سکتے ہیں جب دو مذہبی جماعتوں خاص کر اسلامی تحریک کے کیپٹن ر شفیع کا یارانہ میسر آ جائے۔ گزشتہ دنوں جعفر شاہ نے اسلام آباد کی ایک میٹنگ میں اپنے خیالات یہاں تک کھل کے بیان کیے ہیں کہ گلگت حلقہ ایک اور نگر کے دو حلقوں سے پی ٹی آئی کمزور امیدوار اتاریں اور اسلامی تحریک، ایم ڈبلیو ایم کو جیتنے کا موقع دیا جائے۔

مگر راجہ جلال گروپ کے پاس یہی وہ موقع ہے جو جعفر شاہ کو نہیں دینا چاہتا۔ مختصراً اس کو جہانگیر ترین فارمولا کہا جا سکتا ہے، جہانگیر ترین نے ملتان سے وزیر اعلی پنجاب کے سب سے مضبوط امیدوار شاہ محمود قریشی کو صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر ایک 25 سالہ آزاد امیدوار سے ہروا دیا تھا۔ یعنی نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔

پارٹی کی اندرونی لڑائی اور مرکز کی دخل اندازی سے تنگ جعفر شاہ یہ بھی کہتے پائے گئے ہیں کہ ہمیں واضح مینڈیٹ نہیں چاہیے، چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مخلوط حکومت بنا لیں تو پی ٹی آئی مرکز کی نہیں چلے گی، ہم گلگت میں ہی فیصلے کر سکیں گے۔

پارٹی ٹکٹوں کا معمہ

پی ٹی آئی ٹکٹوں کی تقسیم پہلے مسئلہ تھی، اب معمہ بن چکی ہے۔ یہ جو سوشل میڈیا پہ ٹکٹ تقسیم کیے جا رہے ہیں سب قیاس ہیں، اندازے ہیں۔ کیونکہ یہ پی ٹی آئی ہے جس کے پاس سیاسی روایت ہے نہ معقول و موزوں انتخابی پیٹرن، سو جب تک حتمی فہرست نہیں آتی وزیر اعلی عثمان بزدار والی پارٹی کے انتخابی امیدواروں کے بارے قطعی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس وقت تک صرف 2 حلقوں کے امیدوار فائنل ہیں، جعفر شاہ آف دنیور اور راجہ اعظم آف شگر۔

بس، باقی حلقوں میں امیدوار آج کوئی بن رہا ہے تو بعید نہیں کل تک کوئی اور بن جائے، کیونکہ سارے سین میں خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹس سے لے کر خاکی وردی والوں کی پسند نا پسند، وفاقی وزراء کی سفارشوں سے لے کر عمران خان، پیرنی اور دیگر رشتہ داروں کے دوستوں کی پرچیاں، بہت کچھ چل رہا ہے، پیسے چلنے کی بھی تصدیق طلب اطلاعات ہیں۔

آج کے دن تک جن حلقوں کے امیدوار فائنل بتائے جا رہے ہیں ان میں دیامر سے حیدر خان اور گلبر خان اور خپلو سے ابراہیم ثنائی ہیں، کیونکہ مسلم لیگ نون کے ان تینوں وزراء کے گارنٹر بڑے مضبوط ہیں، یہ تینوں ٹکٹ کا پروانہ لے کر ہی پی ٹی آئی میں داخل ہوئے تھے۔ سکردو سے راجہ جلال کے بھائی راجہ جعفر اب تک پکے ہیں۔ کھرمنگ سے امجد زیدی کے حق میں پارٹی فیصلہ دے چکی ہے، خاص طور پر سیف اللہ نیازی کھل کے امجد زیدی کے ساتھ کھڑے ہو چکے ہیں تاہم ایک جگہ سے این او سی نہیں مل رہی، این او سی جاری ہو گی تو ہی بات پکی ہو گی۔

باقی غذر کے راجہ جہانزیب اور استور کے خالد خورشید رہے سی ایم شپ کے امیدوار۔ مگر آخری بات پھر وہی کہ یہ پی ٹی آئی ہے جس کا نظام ”پٹیالہ“ ہے۔ اوپر سے ہماری سیاسی تقدیر کے فیصلے کرنے والے اصل فیصلہ ساز بھی اپنا آؤٹ پٹ ڈال رہے ہیں سو حتمی بات کوئی نہیں، آج کے دن تک کی بات یہی کچھ ہے جو اوپر کی خامہ فرسائی میں بتائی گئی۔ میرے لئے ٹکٹوں کی تقسیم اتنی اہم نہیں، پی ٹی آئی کی اندرونی کشمکش بھی اتنی توجہ طلب نہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ انتخابات ہوں گے بھی نہیں۔ کیونکہ شادی ہو گی تو بچہ جنے گا، بیٹا ہو گا یا بیٹی ابھی یہ بحث نہیں۔

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen