اسلام مخالف شدت پسندتحریکوں کی اشتعال انگیزیاں


اسلام فوبیا کے زیر اثر مغربی ممالک سمیت اسلام دشمن عناصر مسلم امہ کے جذبات مجروح کرنے کے لئے ایسے مذموم واقعات کا سبب بنتے ہیں جس سے پوری دنیا میں موجود مسلمانوں میں سخت غصہ و غم کی کیفیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ نام نہاد اظہار رائے کی آڑ میں اسلام مخالف تحریکوں کی اشتعال انگیزیاں انتہائی قابل مذمت اقدام ہے۔ فرانس کے شدت پسند جریدے کی جانب سے توہین آمیز خاکوں کی دوبارہ اشاعت اشتعال انگیز عمل قرار پایا، بالخصوص اس وقت جب 2015 میں چارلی ایبڈو حملہ کیس کی سماعت کا آغاز ہو رہا ہے۔

سویڈن میں انتہائی دائیں بازو کے خیالات کے حامل افراد کی جانب سے قرآن پاک شہید کیا گیا، جس پر شدید احتجاج کیا گیا، اطلاعات کے مطابق پولیس نے انتہائی دائیں بازو کے ڈینش سیاستدان راسمس پلودن کو قرآن نذر آتش (شہید) کرنے کے اجتماع میں شرکت کرنے سے روک دیا تھا، تاہم ان کے حامیوں نے اس پابندی کی پرواہ کیے بغیر اس اجتماع میں شریک ہوئے اور قرآن کو نذر آتش کر کے شہید کر دیا۔ اسلام مخالف تنظیموں میں جرمنی کے شہر کلون میں انتہائی دائیں بازو کی بدنام زمانہ جماعت اے ایف ڈی اسلام اور تارکین وطن مخالف جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے۔

اسی طرح شمالی آئرلینڈ کے دارالحکومت بیلفاسٹ میں پولیس شہر کے ریون ہل علاقے سے اسلام مخالف پمفلٹ جنریشن سپارٹا ’نامی شدت پسند گروپ کی جانب سے بھیجا گیا تھا جس میں اسلام مخالف اشتعال انگیزی کو ہوا دی گئی۔‘ پمفلٹ موصول کرنے والی ایک خاتون کا کہنا تھا کہ اس میں درج تحریر کو پڑھ کر وہ ’سہم‘ گئی تھیں۔ ’یہ واضح ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو بھڑکا رہے ہیں۔‘

نومبر 2019 کو اسلام مخالف شدت پسند تنظیم سٹاپ اسلامائزیشن آف ناروے (سیان) نامی تنظیم کے رکن لارس تھورسن سے نے ناروے کے کرستیان ساند شہر کے پر رونق علاقے میں پہلے ایک مجمع لگایا اور پھر لوگوں کے سامنے قرآن کریم کو شہید کر کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا۔ جس پر قرآن کریم کو آتشزدگی سے بچانے کے لیے ایک نوجوان الیاس تیزی سے آگے بڑھا اور اسلام مخالف شخص کو قرآن پاک کی بے حرمتی سے روکا۔ ناروے حکومت نے دوبارہ اٰسے واقعات روکنے کی سنجیدہ کوشش نہیں، سویڈن کے بعد ایک مرتبہ پھر ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں اس وقت صورت حال کشیدگی کی جانب بڑھ گئی، جب اسلام مخالف مظاہرین نے قرآن کے اوراق شہید کر دیے۔

اسلام مخالف اس ریلی کا انعقاد ’اسٹاپ اسلامائزیشن آف ناروے‘ نامی شدت پسند گروپ نے ملکی پارلیمانی عمارت کے قریب کیا تھا۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق اس مظاہرے کے خلاف بھی ایسے سینکڑوں افراد وہاں جمع ہوئے، جنہوں نے ’ہماری گلیوں میں نسل پرستوں کی گنجائش نہیں‘ جیسے نعرے بلند کیے۔ نیوز ایجنسی این ٹی بی کے مطابق صورت حال اس وقت کشیدہ ہو گئی، جب ایک اسلام مخالف خاتون نے قرآن کے اوراق پھاڑ (شہید) ڈالے۔ اس خاتون کو پہلے بھی نفرت انگیز تقاریر کرنے پر جرمانہ کیا جا چکا ہے۔ اس نے مخالفین کو مخاطب کرتے ہوئے اشتعال دلایا کہ ”دیکھو اب میں تمہارے قرآن کی (نعوذ باللہ) بے حرمتی کروں گی۔“

مغربی ممالک میں ان گنت توہین اسلام، گستاخی رسول ﷺ اور قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات رونما ہوچکے ہیں، بھارت بھی مذہبی جنونیت میں ان سے پیچھے نہیں ہے۔ بھارت میں کئی عرصے سے مسلسل توہین رسالت (ﷺ) کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، 12 اگست کو بنگلور میں توہین رسالت کے بعد فسادات بھڑک اٹھے۔ ریجنل ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق فسادات کی آگ تب بھڑکی جب کانگریس کے رکن اسمبلی کے ایک رشتے دار نے رسول اسلام ﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے ایک توہین آمیز پوسٹ فیس بک پر شائع کی۔ مقامی مسلمانوں نے ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرانے کے لئے علاقے کے پولیس تھانے میں درخواست دی تاہم پولیس نے اس پر کوئی نوٹس نہیں لیا۔ پولیس کا یہ رویہ دیکھ کر مظاہرین مشتعل ہو گئے، ہنگاموں کے دوران پولیس نے بھی مشتعل مظاہرین پر سیدھی فائرنگ کر دی۔

مغرب میں اسلام کے خلاف جتنے بھی پروپیگنڈے کیے جاتے ہیں اس کے منفی اثرات کے بجائے مثبت نتائج ہی نکلتے ہیں، غیر مسلم، اسلام سے متعلق کتابوں اور خاص کر قرآن کریم کا مطالعہ شروع کر دیتے ہیں اگر انھیں عربی یا تراجم کو سمجھنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے تو خود عربی زبان سیکھ کر لغات کے ذریعے قرآن کریم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نو مسلموں کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر اس بات کی توقع کی جا رہی ہے، اگر یہی صورتحال رہی تو بہت جلد امریکا میں اسلام کے ماننے والوں کا دوسرا نمبر آ جائے گا۔

چونکہ قرآن کریم کسی خاص نسل یا ملک کے لیے نہیں اتارا گیا بلکہ رحمت العالمین ﷺ کے ذریعے تمام بنی نوع انسان کے لیے ایسے ذریعہ نجات بنا کر بھیجا ہے۔ اب اصل بات یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات کی حقیقی تشریح اور ان کی روحانی اصلاح کی ذمے داری کن پر عائد ہوتی ہے؟ اب ان حالات میں جب فرقوں، مسالک اور خود ساختہ فتوؤں کے ذریعے اسلام کے تشخص کو پامال کرنے میں نام نہاد مسلمانوں کا بھی نمایاں حصہ ہے۔ غیر مسلم ممالک میں مذہبی جنونیت دیکھتے ہیں تو نیپال میں بادشاہت کی آزادی کے بعد ہندو انتہا پسند جماعتیں ہندو اسٹیٹ بنانے کے لیے کوشاں ہیں، سری لنکا میں عدم تشدد کے پیروکار بدھ مذہب کے ماننے والوں نے مسلمانوں کے قتل و غارت اور ان کی عبادت گاہوں کے ساتھ رہائش گاہوں میں جنونیت کا طوفان برپا کیا ہوا ہے، برما کی حکومت نے روہنگیا کے سیکڑوں مسلمانوں کو مذہبی جنونیت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری اور ان مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں، بنگلہ دیش میں مذہبی تنظیمیں جڑ پکڑ رہی ہیں جنھیں سیاسی انتقام کے طور پھانسیوں اور طویل سزائیں دیں جا رہی ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ، فلسطین، شام، عراق، بوسنیا، جزائر، شمالی و جنوبی افریقہ۔ آسٹریلیا، جرمنی، ناروے، برطانیہ، نائن الیون کے بعد امریکا میں جتنا بھی مسلمانوں کا قتل عام ہوا، ہندو توا کے نظریے کے تحت انتہا پسند حکومت کے مسلم کش اقدامات، یہ سب مذہبی جنونیت ہی تو ہے۔

ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے دنیا سمٹ گئی ہے اور انسانوں کا آپس میں رابطہ اور حال احوال بہت سہل ہو گیا ہے اس لیے دنیا جہاں ایک جیب میں جگہ پا لیتی ہے تو اب کسی کے لیے حقائق کو جاننا مشکل نہیں رہا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف مغربی میڈیا کا پروپیگنڈا تمام تر وسائل کے باوجود بے اثر ہو رہا ہے، اسلام فوبیا کے شکار، انتہاپسند عناصر کی جانب سے مساجد پر حملے، گستاخانہ خاکے، نعوذ باللہ توہین رسالت ﷺ اور قرآن کریم کی بے حرمتی جیسے واقعات کو اظہار رائے آزادی کا نام دے کر مسلم امہ کے خلاف نفرت کو پروان چڑھانے کا موقع مغرب نے خود فراہم کیا، جس کے بعد ان ممالک نے پڑھی لکھی عوام نے ازخود اسلام کا مطالعہ شروع کیا اور روشنی حاصل کرنے والوں کو اللہ تعالی نے راستہ دکھایا کہ اب یہ کہا جا رہا ہے، اگلے چند سالوں میں یورپ مسلمانوں کے زیر نگیں اس لیے ہو جائے گا کیونکہ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ افکار سے تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔

مسلمانوں کے خلاف یک طرفہ پروپیگنڈا کر کے انھیں شدت پسند، انتہا پسند اور دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے بار بار مسلم ممالک میں مہم جوئی کی جاتی ہے لیکن جتنی قوت سے مغرب استعماری قوتیں جارحیت کرتی ہیں انھیں اسی شدت کے ساتھ شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسلام مخالف مذہبی جنونیت کے خلاف مسلم اکثریتی ممالک کا کردار ماضی کی ڈگر پر رواں ہے۔ مسلمانوں میں اشتعال پھیلا کر انہیں انتہا پسند ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم سمیت مسلم اکثریتی ممالک اپنا اثر رسوخ استعمال کر کے ایسے ممالک کی حکومتوں پر دباؤ بڑھائیں جہاں اسلام مخالف تحریکوں کی شدت پسندی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اشتعال انگیز واقعات کے ردعمل میں جب کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں، نام نہاد این جی اوز اور مغربی ممالک کے علاوہ عالمی ادارے احتجاج کرتے ہیں، لیکن وہ اسلام مخالف عوامل کے سدباب کے لئے عملی طور پر اقدامات اٹھانے سے گریز کرتے ہیں، جو ان کے دوہرے معیار کی عکاسی کرتے ہیں۔ مذہبی آزادی کے خلاف عالمی بیانیہ یک طرفہ نہیں ہونا چاہیے، انہیں اسلام مخالف تحریکوں کو عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر کے سخت کارروائی کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).