سات ستمبر اور طاہرہ کا دوسرا جنم


بات کچھ عجیب سی ہے! ہو سکتا ہے آپ کو اچنبھا ہو لیکن بات ایسی ہی ہے۔ آج سوچا یہ داستان بھی کہہ ڈالی جائے کہ چہیتے اور اہلے گہلے لفظوں سے کہانی گوندھنے کا شوق دل سے جاتا نہیں۔ خود سے آشنا ہوتے ہوئے، زندگی سے آشنا ہونے کی کتھا جس نے ہمیں خوش بھی کیا، اداس بھی اور حیران بھی!

ہم نے اس دنیا میں دو دفعہ جنم لیا، پہلی دفعہ سات دسمبر اور دوسری دفعہ سات ستمبر! سات کی اکائی تو مشترک رہی پر ایک دہائی سے کچھ برس اوپر درمیان میں اماوس کی رات کی طرح آن ٹھہرے۔

یقین کیجئے ہمارا ہندو مائتھالوجی کے سات جنموں پہ کوئی اعتبار نہیں لیکن آواگون کے اس پھیر میں ہم کسی نہ کسی طور آئے ضرور!

فرق صرف اتنا رہا کہ سات دسمبر (1952ء) کی آمد پہ شادیانے بجے، شیرینی تقسیم ہوئی، اماں ابا کے سونے آنگن میں پہلا پھول کھلنے پہ مسرت و شادمانی نے رقص کیا۔  قریب ڈیڑھ دہائی بعد سات ستمبر کو ایسا کچھ نہ ہو سکا۔ اماں ابا فرحاں و شاداں تو تھے لیکن آنکھوں میں لرزتے آنسو، ہونٹوں پہ دبی دبی سسکیاں چھپائے نہ چھپتی تھیں۔ دل کبھی سرپٹ بھاگنے لگتا اور کبھی دھڑکنا بھول جاتا اور تشکر سے آسمان کو اٹھے ہاتھ ہولے ہولے لرزتے تھے۔

سات دسمبر کو دنیا میں آنے والی روح کو امی ابا نے خوب سوچ بچار کے بعد طاہرہ کا نام دیا جبکہ سات ستمبر والی کو دنیا میں آنے سے بہت پہلے یہی نام پھر سے دے دیا گیا۔ یوں کہیے کہ اس نام کے لئے دور بہت دور عرضی گزاری گئی اس التجا کے ساتھ کہ پھر سے بیٹی چاہیے، بچھڑ جانے والی بیٹی کی یادیں منور رکھنے کے لئے۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ درخواست کی منظوری کے بعد اس نام نے عالم ارواح میں جا کے ہمیں ڈھونڈا اور یوں ہم ایک ایسے نام اور چھاپ کے ساتھ پیدا ہوئے جس کی بازگشت پہلے سے چہار سو سنائی دیتی تھی۔

کہانی کچھ الجھی ہوئی ہے، تھوڑی عجیب سی ہے لیکن بے لوث محبت کا خمیر لئے بے پناہ احساس و الفت کے جذبات سے گندھی ہے۔ سو اپنے جنم دن کے موقع پہ آپ کی نذر کرنا چاہتے ہیں۔

اوائل بچپن کی یادیں ہیں۔ ابا اماں کے دوست احباب سے ملاقاتیں، عزیز رشتے داروں کے ہاں تقریبات، محلے داری، گرمیوں کی چھٹیوں میں ننھیال اور ددھیال کا سفر سب کچھ ہی بہت خوب تھا لیکن کہیں کچھ عجیب بھی تھا، عجیب اور مختلف۔ ہم بچپن کی معصومیت، لاپرواہی اور چنچل پن میں کھیل رہے ہوتے اور ہمارے اردگرد اکثر کچھ لوگ ہماری طرف غور سے دیکھتے، پھر آنکھوں کے اشارے سے کسی اور کو بتاتے، کوئی کوئی پاس بلا کے نام پوچھ لیتا اور نام سن کے سر پہ ہاتھ رکھنے کے ساتھ آہ بھرتا۔ اماں ابا اگر قریب ہوتے تو منہ پھیر لیتے، نہ جانے کیا چھپانے کے لئے۔

کبھی کبھی یوں بھی ہوتا کہ کوئی نام سن کے چونک پڑتا، پھر دوبارہ پوچھتا اور پھر چہرے پہ کچھ مایوسی چھا جاتی،

“نہیں ویسی نہیں ہے ، وہ بہت خوبصورت تھی”

” وہ بہت زیادہ ذہین تھی ، یہ نہیں اس جیسی”

” یاد ہے، وہ کیسی حاضر جواب تھی یہ ویسی باتیں نہیں کرتی”

” ارے کیسی انگریزی نظمیں سنایا کرتی تھی “

” اتنی چھوٹی عمر میں نفاست کیسی کوٹ کوٹ کے بھری تھی”

” ہائے شوکت اور عظمت کی بدقسمتی، جانے کس کی نظر لگ گئی “

ہم یہ ساری باتیں سنتے اور اپنے ازلی لاابالی پن سے سنی ان سنی یہ سوچ کے کر دیتے کہ نہ معلوم کس کا ذکر ہے؟ ارے ہوگی کوئی ہم سے مشابہت رکھنے والی!

سکول داخل ہونے کی باری آئی تو گھر میں دبی دبی آوازوں میں مشاورت ہونے لگی۔ ایک دور پار کی ممانی نے پوچھ ہی لیا کیا یہ اسی سکول جائے گی؟ “اسی” زور دے کے بولا گیا تھ۔ ابا کا بھنچے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ واضح جواب تھا، نہیں۔ ابا نے ہمیں پریزنٹیشن کانونٹ سکول نہیں بھیجا، بھیج ہی نہیں سکتے تھے۔ جن در و دیوار سے کسی بچھڑ گئے جگر گوشے کی یادیں آکاس بیل کی طرح لپٹی ہوں وہاں پھر سے گزرنا آسان کام تو نہیں ہوا کرتا۔

ہم لکھنے پڑھنے کی عمر میں داخل ہو گئے اور سیکھنے سکھانے کا تجسس بھی بڑھتا گیا۔کبھی کبھار گھر میں کسی کونے کھدرے میں کوئی انگریزی کتاب مل جاتی جس پہ ہمارا نام لکھا ہوتا۔ ہم ابا کے پاس دوڑے جاتے کہ اگر وہ ہمارے لئے کتاب لائے تھے تو بتایا کیوں نہیں؟ ابا جواب دینے کی بجائے خالی خالی نظروں سے ہماری طرف تکتے رہتے اور لبوں کی جامد خاموشی کبھی نہ ٹوٹتی۔

کبھی کبھار اماں کی الماری کی تلاشی لیتے ہوئے ایک آٹھ دس سالہ بچی کا فراک نکل آتا۔ ارے اماں نے ہمارے لئے کتنا اچھا فراک بنایا ہے اور ہمیں دکھایا بھی نہیں، ہم بڑبڑاتے۔ ہاتھ میں لے کے اماں کے پاس پہنچتے تو اماں ہمارے استفسار پہ کوئی دھیان نہ دیتے ہوئے ہمارے ہاتھ سے فراک لے کے کہیں ہماری پہنچ سے دور رکھ دیتیں، جواب پھر بھی نہ ملتا۔

کچھ اور بڑے ہوئے تو جگ ساپزل کے سارے ٹکڑوں نے مل کے خبر دی کہ ہم تو عکسں ہیں ایک ایسی پرچھائیں کا جو اماں ابا کی راتوں کو بے خواب اور ازلی جدائی کی کسک دے کے ان کی زندگی کو وقت سے پہلے خزاں کے موسموں میں بدل گئی۔ سات دسمبر کو پیدا ہونے والی ان کی پہلوٹھی کی بیٹی، پریزنٹیشن کانونٹ میں پانچویں کلاس کی طالبہ، ہنس مکھ، ذہین، پریوں کا سا سراپا رکھنے والی، دس برس کی عمر میں زندگی کا سفر تمام کر کے آسمانوں کو لوٹ جانے والی طاہرہ!

ہمارے ابا نے اس کے رخصت ہو جانے کے بعد جوگ لے لیا اور اسی روگ میں بارگاہ ایزدی میں نہ صرف اسے دوبارہ بھیجے جانے پہ اصرار کیا بلکہ نام بھی وہی منتخب کیا، طاہرہ!

 ہمارے ابا کو اس بات کی ہر گز پرواہ نہیں رہی کہ مرنے والی بچی کا نام اگلی بچی کو دینا بدشگونی ہو سکتا ہے یا دلی اضطراب کو مہمیز کر سکتا ہے۔ ان کے پیش نظر تو ایک ہی بات تھی، انہیں اپنے گھر میں طاہرہ چاہیے تھی!

لیکن ابا نے ہمیں ایک امتحان میں ڈال دیا۔ ایک بچی محبت، الفت، ذہانت، احساس، صورت، ناز و انداز، ادا، خوش بیانی، خوش اخلاقی، جیت اور نفاست میں ایک معیار بنا کے اپنی چھب دکھا کے اوجھل ہو گئی تھی۔ اب وہ کہیں نہیں تھی، لیکن پھر بھی ہر جگہ وہی تھی، دلوں میں، یادوں میں، باتوں میں، آنکھوں میں اور زندگی کے ہر پل میں!

ہم موجود تھے لیکن اصل میں ہم کہیں نہیں تھے۔ ہم تو حوالہ تھے جانے والی کا، ہم تو ان آنسوؤں کا نتیجہ تھے جو اس کے غم میں بہائے گئے۔ ہم ان خوابوں کی تعبیر تھے جو اس کی جدائی میں دیکھے گئے۔ ہم پرتو تھے کچھ یادوں کے جو چاروں طرف بکھری پڑی تھیں۔ ہم تو جواب تھے ان دعاؤں کا جو اس کے بچھڑنے کے بعد مانگی گئیں۔

ہم بڑے ہو گئے، اسے جانے بنا، دیکھے بنا لیکن اس کے نام کی چھاؤں میں! لیکن ابھی بھی لوگ ہمیں دیکھ کے اس کا ذکر کرنا نہ بھولتے۔ تم طاہرہ… ارے ہاں وہ طاہرہ!

بچپن کے لا ابالی پن میں تو اسی احساس سے مسرور رہے کہ ابا کی آنکھوں کی جوت ہمیں دیکھ کے مزید بڑھ جاتی ہے۔ ہماری کسی بھی فرمائش کے جواب میں سر انکار میں ہلتا ہی نہیں۔ اب جب خود اولاد کا میوہ چکھ چکے تو یونہی کبھی سرسراتا سا خیال آتا ہے، نہ جانے ابا ہمیں دیکھ کے کیا سوچتے ہوں گے؟ کیا وہ انہیں اور یاد آتی ہو گی؟ آخر انہوں نے ہمیں اس کا نام کیوں دیا؟ کیا وہ چاہتے تھے کہ اس کی یاد کبھی بوسیدہ نہ ہو، ہر لحظه ، ہر دن وہ ان کے سامنے رہے ہماری اوٹ میں۔

ایک اور وسوسہ بھی دل کو چھیڑ جاتا ہے۔ نہ جانے ہم نے ابا کے اس زخم کو بھرنے میں مدد دی یا نہیں جو بھری جوانی میں ان کے دل میں چھید کر گیا تھا۔ نہ جانے ہم ان کی بے قراری، اضطراب اور دکھ پہ پھاہے رکھنے میں کامیاب رہے کہ نہیں ؟

ابا کی کم گوئی، گوشہ نشینی اور ہماری کم عمری کا نقصان یہ ہوا کہ جب تک ہم ان کی دل کی لگی کو جاننے کی کوشش کرتے، وہ اپنے اندر مدفون خزینوں تک رسائی دیے بغیر اپنے ابدی سفر پہ روانہ ہو گئے۔ ان کے لئے وہ سفر یقینا سہل رہا ہو گا کہ جدائی کے وہ سب برس ختم ہوئے جس میں انہوں نے متواتر اپنے غم کو زندہ رکھا اور اپنی محبت کی پوجا کی۔ لیکن ہم تو تشنہ لب رہ گئے وہ سب جاننے سے جو آج ہمارے اندر شور مچاتا ہے۔

ابا سات دسمبر والی کے پاس کب سے پہنچ چکے مگر سات ستمبر والی وقت کی دھول میں اٹے اوراق پلٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ اور ویسے ان سب یادوں کے لئے سات ستمبر سے اچھا کیا ہی دن ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).