کشمیر: نئے ایجوکیشن بورڈ ضرور بنائیں مگر


اگلے دن وزیر اعظم آزاد کشمیر نے اعلان کیا ہے کہ مظفر آباد اور راولاکوٹ میں دو نئے تعلیمی بورڈ بنائے جا رہے ہیں۔ جس سے ان علاقوں کے طلبا کو سہولت میسر ہو گی۔ بہت اچھا اعلان ہے۔ عوام کو سہولت ملنی چاہیے۔ لیکن یہ سہولت میرپور بورڈ کو ہی تقسیم کر کے کیوں دی جائے۔ اس وقت اگر پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو پورے پاکستان میں اس وقت 28 ایجوکیشن بورڈ کام کر رہے ہیں۔ جو کہ بائیس کروڑ کی آبادی کے طلبا کو سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ تو چالیس لاکھ کی آبادی کے آزاد کشمیر کے لئے تو ایک ہی بورڈ کافی ہے جو اس وقت بہتر انداز میں سب کو ساری سہولیات فراہم کر رہا ہے۔

دیکھا گیا ہے کہ کم دفاتر زیادہ بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں۔ جب میرپور، کوٹلی اور بھمبر ایک ضلع تھا تو بہت بہتر انداز میں کام ہو رہا تھا۔ یہی صورت حال مظفرآباد اور راولاکوٹ میں بھی تھی۔ اب اتنی زیادہ اسٹیبلشمنٹ ہونے کے باوجود لوگ اپنے کاموں کے لئے خوار ہوتے رہتے ہیں۔

نئے ادارے ضرور بننے چاہیں لیکن اگر موجودہ اداروں کی استعداد بہتر بنا لی جائے تو کم خرچے میں زیادہ مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ میرے خیال میں اس تجربہ سے قبل جو ادارے تباہ ہو چکے ہیں ان کے حال کی بھی خبر رکھنی چاہیے۔ ایک آزاد کشمیر میں ایک یونیورسٹی کے جگہ یہاں پانچ یونیورسٹیاں قائم ہو گئیں۔ لیکن تعلیمی معیار میں اضافے کی بجائے کمی آ گئی۔ ان یونیورسٹیوں کے حالات کا اگر جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے ایک سمیسٹر کی فیس اسی ہزار روپے عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو گئی ہیں۔

میرپور سائنس اور ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں میرٹ پر داخلہ لینے والے طلباء کی فیس دیکھ کر لگتا ہے۔ کہ بچہ سیلف فنانس میں پڑھ رہا ہے۔ میرے خیال میں زیادہ ادارے بنانے کی بجائے پہلے سے موجود اداروں کی کارکردگی بہتر کرنی چاہیے۔ اور اگر معیار تعلیم دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ گزشتہ سالوں میں اس میں کمی آئی ہے۔

موجودہ آزاد کشمیر ایجوکیشن بورڈ 1973 سے قائم ہے، اپنے قیام سے لے کر آج تک یہ آزاد کشمیر کے طالب علموں کی امتحانی ضروریات بھرپور طریقے سے پوری کر رہا ہے۔ یہ ایجوکیشن بورڈ آزاد کشمیر کا واحد ادارہ ہے جس میں کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے۔ ادارے کے ملازمین انتہائی فرض شناس اور دیانتدار ہیں۔ پاکستان کے تمام تعلیمی بورڈز میں اس بورڈ کی کارکردگی سب سے نمایاں رہی ہے۔ بورڈ کو حکومت سے ایک پائی کی امداد نہیں ملتی۔ بورڈ اپنے تمام اخراجات اپنی آمدنی سے پورے کرتا ہے، البتہ اگر بورڈ کی قیمتی گاڑی کسی وزیر کو پسند آ جائے تو یہ حلال ہے۔

نئے بورڈز کے قیام سے حکومت کو سیاسی فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن ان کے قیام سے پیدا ہونے والے مسائل کی طرف کسی کی توجہ نہیں گئی۔ نئے تعلیمی بورڈ بنانے سے پہلے مندرجہ زیل سوالات کا تجزیہ بہت ضروری ہے۔

﴾ کیا دو نئے بورڈ وقت کی اہم ضرورت ہیں۔
﴾ نئے بورڈز کے قیام سے موجودہ بورڈ کو کیا خطرات لاحق ہوں گے۔
﴾ نئے بورڈز کے قیام کی آزاد کشمیر کے عوام کو کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
﴾ کیا موجودہ بورڈ آزاد کشمیر کے طلبا کی ضروریات پوری کر رہا ہے یا نہیں۔
﴾ اس تجربے کے معیار تعلیم پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

سب سے پہلا سوال کہ دو نئے بورڈز کا قیام کیوں ضروری ہے، اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم بورڈ کے موجودہ نظام کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے۔ آزاد کشمیر کے دو لاکھ طلبا اور طالبات کو بورڈ کی طرف سے جاری کردہ رول نمبر سلپ۔ رزلٹ کارڈز۔ اسناد اور دیگر دستاویزات ان کے گھروں اور سکولز میں مہیا کیے جاتے ہیں اور اس کی شرح 99 فیصد ہے۔ ایک فیصد امیدوار ایسے ہیں جن کو دستاویزات کے لئے بورڈ یا اس کے علاقائی دفاتر میں آنا پڑتا ہے۔ یہ ایک فیصد وہ طالب علم ہیں جن میں پیپر کی دوبارہ چیکنگ۔ نقل کے کیس والے امید وار اور مطلوبہ اہلیت نہ رکھنے والے کیس شامل ہیں۔ ان ایک فیصد کے لئے ایک چلتے ہوئے ادارے کو تقسیم کرنا کیسا رہے گا۔

ایک اطلاع کے مطابق موجودہ تعلیمی بورڈ کو اس وقت خسارے کا سامنا ہے۔ اس کی آمدن اور خرچ میں فرق بڑھ رہا ہے۔ اس کے ملازمین کی ایک غالب تعداد آنے والے چند سالوں میں ریٹائر ہونے والی ہے۔ جن کی گریجویٹی اور پنشن کی ادائیگی کے اخراجات کے لئے اس بورڈ میں طلبا کی تعداد بہت کم ہو جائے گی۔ دوسری طرف اس وقت بورڈ طلبا کو امتحانی اخراجات میں سبسڈی بھی دے رہا ہے۔ بورڈ اس وقت جو فیس لے رہا ہے وہ فی طالب علم اٹھنے والے امتحانی اخراجات سے کم از کم تیس سے چالیس فیصد کم ہے۔

اب اگر اس آمدنی کو تین جگہ پر تقسیم کریں گے تو خسارہ اور زیادہ بڑے گا۔ چونکہ ان تعلیمی بورڈز کو حکومت کی طرف سے کوئی گرانٹ نہیں ملے گی تو وہ لا محالہ اپنے خسارے پورے کرنے کے لئے بورڈ فیسیں بڑھائیں گے۔ ایک اندازے کے مطابق اگر اس وقت فیس 1200 روپے ہے تو تین بورڈ بننے کی صورت میں یہی فیس 4000 ہو جائے گی اور جو طالب علم 1200 مشکل سے ادا کرتے ہیں وہ 4000 کیسے ادا کریں گے۔

نئے بورڈز کے قیام سے امتحانی فیسوں کا اضافی بوجھ یقیناً عوام کو اٹھانا پڑے گا۔ امتحانی فیسوں میں اضافے سے پڑھنے والے غریب اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے طلبا کی تعداد میں کمی ہو جائے گی۔ اب بھی آزاد کشمیر میں یونیورسٹیوں کی فیس بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے بہت سے غریب طلبا پڑھائی موقوف کر کے کچھ اور کام کرنے لگتے ہیں۔ انٹر میڈیٹ کے بعد یونیورسٹی لیول کی تعلیم میں طلبا کے داخلہ میں کمی کی ایک بڑی وجہ یونیورسٹیوں کی ہوش ربا فیسیں بھی ہیں۔

موجودہ بورڈ آزاد کشمیر کے تمام طلبا کی ضروریات پوری کر رہا ہے۔ اس وقت آزاد کشمیر تعلیمی بورڈ دو لاکھ طلبا کو امتحانی سہولیات فراہم کر رہا ہے۔ لیکن اس میں پانچ لاکھ طلبا تک کا امتحان لینے کا نظام موجود ہے، یعنی موجودہ بورڈ پانچ لاکھ طلبا کو امتحانی سہولیات فراہم کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ اس کا عملہ اور نظام پینتالیس سال کے تجربے کا حامل ہے۔ پاکستان میں بائیس کروڑ لوگوں کی آبادی لئے اٹھائیس کے قریب ایجوکیشن بورڈ ہیں۔ یعنی اٹھتر لاکھ آبادی پر ایک بورڈ قائم ہے۔ آزاد کشمیر کی تو آبادی ہی چالیس لاکھ افراد پر مشتمل ہے اس کے لئے ایک تعلیمی بورڈ ہی کافی ہے۔

ان بورڈز کے قیام سے معیار تعلیم پر برے اثرات تو مرتب ہوں گے ہی۔ اس کا سب سے بڑا نقصان عام آدمی یعنی طلبا کے والدین پر معاشی بوجھ کی صورت میں ہو گا۔ کیونکہ طلبہ کی جو تعداد موجودہ انتظامی سیٹ اپ کے تحت امتحانات میں شامل ہو رہی تھی اب وہ تین سیٹ اپ میں تقسیم ہو جائے گی۔ اس سے انتظامی اخراجات جو تین بورڈز کے ملازمین کی تنخواہوں وغیرہ پر مشتمل ہو گی کی ادائیگی کے لئے امتحانی فیس میں اضافہ ہو گا۔ ان نئے بورڈز کے لئے چیئرمین۔

سیکریٹریز۔ کنٹرولر اور دیگر افسران کی اسامیاں تخلیق ہوں گی جو سیاسی طور پر تو بہت مفید ثابت ہوں گی لیکن ان کی تنخواہوں اور مراعات کا ان نئے بورڈز کی طلبا کی تعداد اور موجودہ فیس سٹرکچر میں ممکن نہیں ہو پائے گا۔ اس کے لئے حکومت کو سالانہ کروڑوں روپے گرانٹ ان بورڈز کو دینی پڑے گی۔ کیا یہ حکومت جو پہلے ہی اتنی بڑی اسٹیبلشمنٹ پر مشتمل ہے یہ اضافی بوجھ برداشت کرپائے گی۔ میڈیکل کالجز کے معاملے میں اس کا جواب نفی میں ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق پونچھ اور میرپور میڈیکل کالجز کے بہت سے فیکلٹی ممبران محض تنخواہ کی ادائیگی میں چھ چھ ماہ کی تاخیر کی وجہ سے ادارے چھوڑ کر جا چکے ہیں۔

جناب وزیر اعظم سے درخواست ہے کہ وہ اس اہم معاملہ پر پھر سے غور کریں اور محض چند لوگوں کی جذباتی باتوں میں نہ آئیں۔ اگر بورڈ کی انتظامی صلاحیتوں میں کہیں خلا ہے تو اس کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ بورڈ کافی سہولتیں آن لائن دے رہا ہے اس کی اس استعداد کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ اگر کہیں کوئی کمی ہے تو اس ادارے کو مزید ٹیکنالوجی مہیا کر کے جدید بنیادوں پر چلایا جائے۔ اس ضمن میں سینئر اساتذہ اور ماہر تعلیم اور مرحوم جسٹس قاضی عبدالغفور جیسے ایماندار اور ادراک رکھنے والے عدلیہ کے جج صاحبان پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو اس کا مکمل تجزیہ کر کے بورڈ کی بہتری کے لیے سفارشات مرتب کرے۔

میرے نقطہ نظر کے مطابق اس ادارے کو تقسیم کرنے کے دور رس نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ حکومت پر اضافی بوجھ بڑے گا اور ایک شاندار چلتا ہوا ادارہ تباہ ہو جائے گا انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے بورڈ کو مکمل طور پر کمپیوٹرائز کر کے آزاد کشمیر کے سب طلبا کو آن لائن سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ نئے ادارے بنانے کی بجائے موجودہ اداروں کو مزید فعال بنا کر بہتر سہولیات مہیا کرنے کے ساتھ اخراجات کا بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔ جناب وزیر اعظم صاحب آپ کا درست فیصلہ تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).