خلافت و ملوکیت: میری نظر میں


سید ابو الاعلٰی مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی شہرہ آفاق کتاب ” خلافت و ملوکیت“ کا نام تو سب نے سنا ہوگا۔ یہ اور بات ہے کہ بہت کم لوگوں نے یہ کتاب پڑھی بھی ہوگی۔

یہ ابو الاعلٰی مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی وہ کتاب ہے جس کو تنگ نظر و متعصب مخالفین اور ان کے اندھے مقلدین نے سب سے زیادہ متنازع بنانے کی کوشش کی، لوگوں کو اس سے دور رکھنے کے لیے سرتوڑ تحریکیں چلائی گئیں اور مودودی رحمتہ اللہ علیہ پر گستاخ صحابہ رضی اللہ عنہم ہونے کے الزامات تک عائد کیے گئے۔

میں نے یہ کتاب کیوں پڑھی؟

اگر چہ یہ کتاب پڑھنے سے پہلے میں مودودی صاحب کی افکار سے ایسا ناآشنا نہیں تھا۔ ان کی کئی کتابیں مثلاً ( پردہ، دینیات، خطبات، قادیانی مسئلہ، تحریک اور کارکن، اسلام اور ضبط ولادت، تنقیحات، اسلام کی چار بنیادی اصطلاحیں وغیرہ) میں پہلے سے پڑھ چکا تھا لیکن جس زور و شور سے بعض مکاتب فکر کے دقیانوسی، پیٹ پرست، فرقہ پرست (خدا پرستی ندارد) مولوی اور ان کے اندھے دیگی چمچے اس کتاب سے متعلق بہتان باندھتے تھے، میں بھی تذبذب کا شکار ہو گیا تھا کہ آخر اس کتاب میں ایسا کیا ہوگا۔

جس سے بھی مودودی رحمتہ اللہ علیہ کے حوالے سے بات ہوتی تھی تو اس بندے کے پاس جب اپنی وکالت کے لیے کچھ نہ ہوتا تھا تو جھٹ پٹ کہ دیتا کہ کیا آپ نے مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب ”خلافت و ملوکیت“ پڑھی ہے؟ اس میں تو انہوں نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخی کی ہے، کفر کیا ہے اور پتہ نہیں کیا کیا کہتے تھے۔ تعجب کی بات یہ تھی کہ ان لوگوں میں ایک بھی ایسا نہ ہوتا تھا جس نے خود یہ کتاب پڑھی ہوتی۔ وہ محض اپنے دیسی ملاؤں کے فتوؤں پر ایمان لے آئے تھے۔

چونکہ میں نے یہ کتاب پڑھی نہ تھی تو میں خاموش ہو جاتا۔ بغیر کسی تحقیق کے کسی کے گن گانا یا اس کی مخالفت کرنا مجھے نہیں بھاتا۔ میں کسی کی باتوں پر تب تک یقین نہیں کر سکتا جب تک میں نے خود اس بات کی حقانیت دیکھی اور پرکھی نہ ہو۔ محض ذاتی اغراض کے لیے امت میں تفرقہ بازی کرنے والے مولویوں کی حیثیت میرے نزدیک ایک ان پڑھ ریڑھی والے سے بہت ہیچ ہے۔ کم از کم وہ اپنے پیٹ کی خاطر امت کو گمراہ تو نہیں کرتا۔

گزشتہ دنوں کچھ فیس بکی دانشور (جو خود اس بات کا اقرار کر رہے تھے کہ انہوں نے بذات خود مودودی صاحب کی کوئی بھی کتاب تاحال نہیں پڑھی) سید مودودی کے بارے میں انتہائی واہیات بہتان تراشی کر رہے تھے۔ حتٰی کہ وہ سید مودودی کو شیعہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ اگر چہ ایسوں کے ساتھ بحث کرنا وقت کا ضیاع ہے تاہم ان سے دو چار باتیں کرنے کے بعد میں نے مزید شدت کے ساتھ اس کتاب کو پڑھنے کی ضرورت محسوس کی۔ تو اس کتاب کی اصلیت جاننے کے لیے اور پھر ان لوگوں کی بے بنیاد الزام تراشی کا جواب دینے کے لیے میں نے یہ کتاب پڑھ لی۔

زیر نظر کتاب نو ابواب پر مشتمل ہے جس کے بعد کتاب کے آخری حصے میں سوالات و اعتراضات کے جوابات دیے گئے ہیں۔

پہلا باب قرآن کی سیاسی تعلیمات پر مشتمل ہے جس میں ان تمام آیات کی وضاحت کی گئی ہے جس کا کسی نہ کسی طرح سیاست اور اس کے جملہ امور سے تعلق ہے۔

دوسرا باب اسلام کے اصول حکمرانی پر مشتمل ہے جس میں ان اصول و ضوابط کا ذکر ہے جو اسلام کے مطابق حکمرانی کے لیے لازم ہیں۔ اسلامی حکمرانی کی بنیادی خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

باب سوم میں خلافت راشدہ اور اس کی خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے۔

باب چہارم انتہائی تلخ حقائق پر مشتمل ہے جن کی وجہ سے خلافت سے ملوکیت تک کا سفر طے ہوا۔

باب پنجم میں خلافت اور ملوکیت کے درمیان موجود فرق پر بات ہوئی ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ اسلام کا اصل منشا خلافت ہے نہ کہ ملوکیت۔

باب ششم میں امت مسلمہ میں مذہبی اختلافات کی ابتدا اور اس کے اسباب کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے۔

باب ہفتم میں امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی دین حق اور خلافت کی حفاظت کے سلسلے میں پیش کردہ خدمات پر بات ہوئی ہے۔

باب ہشتم میں خلافت اور اس کے متعلقہ مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے مسلک کو واضح کیا گیا ہے۔

باب نہم میں امام ابو یوسف رحمتہ اللہ علیہ اور ان کی خدمات کا تذکرہ ملتا ہے۔

جبکہ کتاب کے آخری حصے میں ”ضمیمہ“ کے زیر عنوان اس کتاب کے حوالے سے موصول ہونے والے سوالات اور اعتراضات پر مدلل بحث کی گئی ہے۔

دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چودہ سو سالہ طویل تاریخ رکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس تاریخ کے کچھ پہلو اچھے ہوں گے اور کچھ تلخ یا برے۔

بعض مکاتب فکر کے لوگوں کی سوچ بہت عجیب و غریب اور جاہلانہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اسلامی تاریخ کے ان پہلوؤں پر بحث نہیں ہونی چاہیے جو قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف واقع ہوئے ہیں اگر چہ عربی، انگریزی اور دیگر زبانوں میں ایسی تاریخ پر مبنی بے شمار کتب دستیاب کیوں نہ ہوں۔ عربی میں تو ہمارے اپنے بزرگان دین نے انتہائی وضاحت کے ساتھ سب کچھ محفوظ کر لیا ہے۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم تاریخ کے ان تاریک گوشوں پر بحث کریں گے تو اس کی وجہ سے اسلام پر حرف آئے گا۔ ایسی تاریخ مسلمانوں کے دلوں میں اکابرین کے حوالے سے شکوک و شبہات یا سردمہری کی موجب بنے گی اور کفار کو اسلام پر الزام عائد کرنے کا موقع مل جائے گا۔ سو ان لوگوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو تاریخ کے ان زاویوں کے حوالے سے اندھیرے میں رکھا جائے۔

یہ ان لوگوں کی بہت بڑی بھول ہے۔ مسلمان اپنے اکابر یا اسلام سے کیوں متنفر ہوں گے جبکہ وہ خوب جانتے ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہمارے اکابر بھی ہماری طرح انسان تھے۔ ان سے غلطیاں سرزد ہونا عین فطری بات تھی۔ بد دل وہ لوگ ہوسکتے ہیں جن کے اپنے دلوں میں فتور ہو یا کمزور ایمان رکھتے ہو۔

خلافت کیسی تھی؟ خلافت ملوکیت میں کیونکر تبدیل ہوگئی اور اس کی وجوہات کیا تھیں؟ اگر ہم اس تاریخ کے حوالے سے چشم پوشی کریں گے تو ان سوالوں کا کیا جواب دیں گے؟ محض یہ توجیہ تو کافی نہیں ہے کہ ہمارے پاس اس دور کی کوئی تاریخ موجود نہیں ہے۔ اگر یہ کہیں گے تو اگلا سوال یہ ہوگا کہ عہد اختلاف سے پہلے اور فوراً بعد کی تاریخ کہاں سے آ گئی؟

بعض متعصب مولوی سمجھتے ہیں کہ آج کی نسل بھی ان کے ہاں میں ہاں ملائے گی چاہے وہ مکمل غلط بیانی ہی کیوں نہیں کر رہے ہوں۔ یہ اکیسویں صدی ہے۔ لوگوں کی تعلیم محض مسجد کے منبر تک محدود نہ رہی بلکہ آج حق کے متلاشی طویل ریسرچ کے ذریعے اپنی تشنگی خود مٹاتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہ رہا کہ ان دقیانوسی مولویوں کے مرید ختم ہوگئے۔ آج بھی ایک انبوہ بغیر تحقیق کے ان کی حمایت پر مصر ہے لیکن ان کی تعداد گھٹ رہی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ مستشرقین نے جس گہرائی کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کیا ہے اور کر رہے ہیں، اس طرح ان مولویوں اور ان کے پیرو کاروں نے بھی نہیں کیا ہوگا۔ کفار ان عربی کتب کا باریک بینی سے مطالعہ کرتے ہیں اور دوڑ دھوپ کے بعد اپنے انداز میں اپنی مرضی کے مطابق مسلمانوں کی تاریخ پیش کرتے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل میں بے شمار ایسے ہیں جو اسلام کا مطالعہ بھی یورپ کی کتابوں کے ذریعے کرتے ہیں اور نتیجے کے طور پر بہت سارے شکوک و شبہات کے شکار ہو جاتے ہیں۔ تو کیا یہ بہتر نہیں کہ مسلمان علمائے دین خود امت کے سامنے وہ سارے حقائق اپنی اصلی شکل میں پیش کردیں جن میں کفار کی کوئی آمیزش شامل نہ ہو۔ یہی کام ابو الاعلٰی مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے کیا ہے جس کے بدلے میں ان تنگ نظر مولویوں اور ان کے چیلوں کی الزام تراشی آج تک بھگت رہے ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اور اکابرین سے عقیدت ہونی چاہیے، بہت اچھی بات ہے اور اسلام کی تعلیم بھی یہی ہے لیکن ان کو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درجے سے اٹھا کر اس درجے پر فائز نہ کیا جائے جہاں غلطی یا گناہ کا احتمال نہیں ہوتا۔

صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد نیک تابعین، تبع تابعین وغیرہ لوگ ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ ہمارے دل ان کے لیے عقیدت اور محبت سے بھرے ہیں لیکن اس کی وجہ سے یہ حقیقت مٹ نہیں جاتی کہ یہ لوگ اپنی خلقت کے لحاظ سے ایسے ہی تھے جیسے پیغمبروں کے علاوہ باقی انسان ہوتے ہیں۔ مطلب ان میں اور اللہ کے منتخب ہوئے انبیاء میں فرق ہے۔ یہ لوگ بشری کمزوریوں سے ماورا نہیں ہیں۔

چونکہ مودودی صاحب نے کوئی بھی بات بغیر روایت کے نہیں کہی ہے اس لیے منافقانہ روش رکھنے والے بعض حضرات ان کتب اور ان اکابر کو صحیح نہیں مانتے جن سے مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے روایات نقل کی ہیں۔ حالانکہ یہی لوگ خود ان کتب اور اصحاب کی وہ روایات ببانگ دہل نقل کرتے ہیں جو ان کی مرضی کے مطابق ہوں۔ جن بزرگان دین سے مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے استفادہ کیا ہے، ان کی تصدیق مخالفین کے معتمد اکابر نے بھی کی ہے۔

تاریخ اور احادیث محفوظ کرنے کا انداز اور اصول الگ الگ ہوتا ہے۔

ان لوگوں کی دوغلی پالیسی ملاحظہ کیجیے۔ یہ ان مصنفین سے (جن سے مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے استفادہ کیا ہے ) عہد اختلاف سے پہلے خلافت راشدہ اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ تو نقل کرتے ہیں اور اس کو درست بھی مانتے ہیں، عہد اختلاف کے بعد کی تاریخ کو بھی قبول کرتے ہیں لیکن بیچ میں عہد اختلاف کی تاریخ کو رد  ؟کر دیتے ہیں۔ ایسوں کے ساتھ آخر کیا کیا جائے!

بعض مخالفین کے پاس طویل مباحثے کے بعد جب اپنی بہتان تراشی کے لیے مزید کچھ نہ ہو تو کہتے ہیں کہ مودودی صاحب کی موجودہ کتابیں وہ والی نہیں ہیں جو مودودی نے لکھی تھیں۔ یہ تو ترمیم شدہ ہیں۔ اسے کہتے ہیں منافقت اور تعصب کی انتہا۔

اگر آپ کے پاس مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی ایک بھی کتاب ایسی ہو جو مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی دستیاب کتب سے مختلف ہو تو لے آئیے نا۔ ہم بھی دیکھ لیں گے۔ لیکن یہ ایسا ہرگز نہیں کر سکتے کیونکہ ایسی کسی کتاب کا وجود ہی نہیں ہے۔

فیسبکی دانشوروں اور فرقہ پرست مولویوں کے اندھے پیرو سے درخواست ہے کہ مزید کسی کی اندھی تقلید نا کریں۔ اپنے محبوب مولویوں کے حق میں ”خطائے بزرگاں گرفتن خطا است“ والا رویہ ترک کر دیں۔

فرقہ پرست مولویوں کی ذاتی لڑائیوں کا حصہ نہ بنیں۔ سنی سنائی اور بنی بنائی افواہوں پر یقین کرنے کی بجائے خود کتاب اٹھا لیجیے اور تعصب کی عینک اتار کر دیکھ لیجیے کہ حقائق کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں۔

یاد رہے کہ یہ میرا ذاتی تجزیہ ہے۔ اس کو کسی سیاسی پارٹی یا فرقے کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔ میں مودودی صاحب کا ایک عام قاری ہوں اور کسی بھی فرقے کا طرفدار نہیں ہوں۔ میں فقط ”مسلمان“ ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).