اسرائیل پر ایک کالم جو ناقابل اشاعت ٹھہرا


متحدہ عرب امارات کا اسرائیل سے معاہدہ کوئی اچانک نہیں ہو گیا کہ دنیا کے لئے ورطہ حیرت میں ڈالنے والی خبر ہو بلکہ گزشتہ کچھ عرصے سے پے در پے ایسے واقعات رونما ہو رہے تھے ان سے نتیجہ اخذ کرنا آسان تھا کہ عرب کی ریاستوں میں کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے اور اس کا آغاز متحدہ عرب امارات سے ہوگا۔ نومبر 2018 میں اسرائیل کا قومی ترانہ اسرائیل کی وزیر کھیل کی موجودگی میں ابوظہبی سپورٹس ٹورنامنٹ میں بجایا گیا اسرائیل وزیر کھیل کی خلیج کے کسی ملک میں موجودگی کا پہلا واقعہ تھا اسرائیلی ترانہ بھی پہلی دفعہ بجایا گیا تھا۔

یہ اس سلسلے کی پہلی کڑی تھی کہ جس کے بعد پوری زنجیر تیار ہو گئی۔ یو اے ای نے فروری 2019 میں یہ اعلان کیا کہ وہ اس سال کو year of tolerance کے طور پر منائے گے۔ انہوں نے یہودی ربیوں کو وہاں پر دعوت دیں یہاں پر یہ واضح کرتا چلوں کہ میں کسی مذہبی تعصب کو اجاگر نہیں کر رہا بلکہ کسی اقدام کے وقت کے تعین کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں اسی دوران متحدہ عرب امارات نے انٹرفیتھ کمپلیکس کی تعمیر کا اعلان کیا جس میں مسلمانوں مسیحیوں اور یہودیوں کی عبادت گاہیں قائم کی جائے گی۔

2019 میں پہلی بار یو اے ای میں یہودیوں کے چیف ربی کا تقرر کر دیا گیا جب یہ تمام اقدامات اٹھائے گئے تو دسمبر 2019 میں اسرائیل نے دبئی ایکسپو 2020 میں شرکت کا اعلان کر ڈالا اس کے بعد معاملہ عوامی سطح پر براہ راست تعلقات تک پہنچ گیا اور کرونا وائرس کی مدد کے نام پر یو اے ای نے اسرائیل کو امدادی سامان فلسطین کے لئے روانہ کیا جو اسرائیل نے فلسطین کو پہنچانا تھا۔ جون 2020 میں یو اے ای کے وزیر خارجہ نے Jewsh American Committee سے خطاب کیا لڑی کے دانوں کی مانند گرتے اقدامات نے یہ مکمل طور پر واضح کر دیا تھا کہ یو اے ای کوئی ایسا قدم اٹھانے والا ہے جو اسرائیل کو تقویت پہنچانے کا باعث ہوگا اس اقدام میں فیس سیونگ دینے کی غرض سے اسرائیل نے گزشتہ جولائی تک ویسٹ بینک کے اپنے میں ادغام کا اعلان کر دیا تھا تا کہ جب یو اے ای سے معاہدہ ہو تو یو اے ای اے کے پاس کچھ کہنے کو ہونا چاہیے کہ ہم نے یہ ادغام معطل کروا دیا ہے مگر اس کے فوراً بعد ہی اسرائیلی وزیر اعظم نے اس معطلی کو عارضی قرار دیتے ہوئے واضح کر دیا کہ یہ لولی پوپ بھی بس ایک دن کے لئے ہی دیا جا سکتا تھا۔

اصل سوال یہ ہے کہ ٹرمپ عربوں کو اس حد تک کیسے لے آئے تو اس کے لئے ان کی اپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں کی پالیسی کو سامنے رکھنا ہوگا ٹرمپ نے ابتدا میں کہا تھا کہ امریکا اگر عرب ممالک کی حکومتوں کی مدد سے دستبردار ہو جائے تو وہ دو ہفتے بھی نہیں چل سکتی اس بیان نے عرب ممالک میں ایک کھلبلی مچ گئی تھی کہ کہیں امریکہ اس خطے میں حکومتوں، حکومتی افراد، اور ریاستوں کے نقشے تو تبدیل کرنے نہیں لگ گیا ہے اور موجودہ نظام سے اپنی حمایت کو ترک کرنے لگا ہے درحقیقت ٹرمپ نے بیان سے ایک پورا معرکہ مار لیا تھا اب ضرورت تھی کہ دکھایا جائے کہ آپ کو ہمارے دشمن ایران کا دشمن بننا ہے ورنہ ہماری حمایت بس ماضی ہوں گی۔

یہ خیال بھی عرب ممالک کے لئے بہت ڈراؤنا ہے۔ لہذا پہلے سے بھی بڑھ کر ایران کی مخالفت ہونے لگی۔ پھر اس میں کوئی دوسری رائے قائم نہیں کی جا سکتی کہ ایران کی قیادت بھی ناعاقبت اندیش ہے کہ وہ عربوں کو یہ باور کرانے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی کہ ان کے لئے اسرائیل اصل خطرہ ہے۔ بہرحال ٹرمپ نے پھر ریاض کا دورہ کیا اور اپنے خطاب میں عربوں کو ایران کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کا کہا۔ امریکہ میں انتخابات قریب ہے۔

ٹرمپ کرونا کی وجہ سے انتخابی مسائل میں پھنسا ہوا ہے انہی مسائل سے بچنے کے لئے اس نے برائن ہک کو ذمہ داری دی کہ وہ ایسا کارنامہ انتخابات سے قبل سرانجام دیں کہ ٹرمپ اپنی فتح کا جشن منا سکے۔ جشن فتح منا سکے گا یا نہیں یہ تو ابھی مستقبل ہے لیکن برائن ہک نے ان کی فرمائش پوری کردی ہے۔ اسی دوران اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ یاسی کوہن نے بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اس نے اس دوران یو اے ای، مصر، اردن، سعودی عرب اور قطر کے کرتا دھرتاؤں سے ملاقاتیں کیں تاکہ معاملہ پائے تکمیل کو پہنچ سکے۔

ایرانی کارڈ کیسے استعمال کیا جا رہا ہے اس کو سمجھنے کے لئے اس واقعے سے ہفتہ بھر قبل خلیج تعاون کونسل کا وہ خط ہے کہ جو انہوں نے اس کو سلامتی کونسل کے نام لکھا ہے جس میں ایران پر جاری پابندیوں کو جاری رکھنے بلکہ مزید سخت کرنے کا مطالبہ شامل ہیں۔ کیونکہ یہ پابندیاں اکتوبر میں اپنی میعاد مکمل کر لے گی اور دوبارہ سلامتی کونسل کے سامنے پیش ہو گی جس کے متعلق خیال ہے کہ روس اور چین اس کو اب ویٹو کردیں گے۔

اس خدشے کے پیش نظر مائیک پومپیو نے خلیج تعاون کونسل کے خط کے بعد ٹویٹ کیا کہ ”یہ سب کے لئے بہت اہم ہے کہ عرب اور اسرائیل ایک آواز ہے اور سلامتی کونسل کو ان کی آواز ضرور سننی چاہیے“ اس میں قطر نے دانش مندانہ کردار ادا کیا ہے وہ اپنے عرب ہمسایوں سے تنازع کے بعد ایران سے بہتر تعلقات کی طرف گیا مگر اب خلیج تعاون کونسل کے پلیٹ فارم سے اس نے دیگر رکن ممالک کا ساتھ دیتے ہوئے سلامتی کونسل کو خط بھی بھیج دیا مگر پھر بھی ایران سے تعلقات جس نہج پر تھے وہیں پر قرار بھی رکھیں کیونکہ قطر جانتا ہے کہ سلامتی کونسل میں روس اور چین ویٹو کردیں گے۔

اس نے خلیج تعاون کونسل کے قائم ہونے کی وجہ کا بھی احترام کیا اور خط میں شریک کار رہا کہ یہاں بھی سرخرو اور کیوں کہ کچھ ہونا ہی نہیں تو وہاں بھی سرخرو۔ سوال یہ ہے کہ سعودی عرب اب کیا کرے گا تو اس کو سمجھنے کے لئے ایک مثال دیتا ہوں اور آگے بڑھ جاؤں گا اس یو اے ای، اسرائیل معاہدے سے قبل کہ یو اے ای کے اقدامات کو مدنظر رکھے اور جانے کہ سعودی عرب نے انڈیا اور اسرائیل کے فضائی رابطے کے لیے انڈیا کو فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دی ہے۔

عقل مند کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ یہ واقعہ اس نوعیت کا ہے کہ اس کے اثرات چاہے وہ رائے عامہ کے احساسات ہو یا پاکستان کے مفادات اس پر ضرور آئیں گے۔ پاکستان میں سفارتی معاملات میں خوف سے نجات کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ عرب یا ان کے کسی دوسرے مخالف بلاک میں جانے یا ایسا کوئی تاثر دینے سے مکمل طور پر پرہیز کرنا چاہیے۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش موجود نہیں ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے پاکستان پر دباؤ ضرور آئے گا کہ دنیا کا واحد مسلمان ایٹمی ملک اسرائیل کو تسلیم کر لے۔

ماضی قریب میں ہم نے دیکھا کہ جب مشرف کے دور میں امریکی دباؤ آیا تو اس وقت مسلم لیگ قاف چوہدری صاحبان کی قیادت میں مشرف کے ساتھ تھی مگر ایک جھٹکے میں ہی ان کے وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری اسرائیلی وزیر خارجہ سے ہاتھ ملاتے ہوئے تصویریں بنوا رہے تھے اور یہ افراد دباؤ برداشت نہیں کر سکے تھے۔ جتنی ضرورت تھی اتنا کام لے لیا گیا تھا۔ مسئلہ اب یہ ہے کہ قیادت پھر گھوم پھر کر انہیں لوگوں یا ان جیسے لوگوں کے ہاتھ میں ہیں اور اب تو امریکہ کے ساتھ عرب دباؤ بھی ہو سکتا ہے اگر دیکھا جائے تو پاکستان کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات سے عوام میں احساس شکست پیدا ہوگا اس لئے دباؤ برداشت کرنا ہی مسئلہ کا حل ہوگا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).