گجرات شہر: کچے گھڑے سے رام پیاری محل تک


کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں سوہنی نے مہینوال کو ملنے کے لیے کچے گھڑے کے سہارے چناب پار کرنے کی کوشش کی اور دریا برد ہو گئی۔ مہینوال نے جب ڈوبتی سوہنی کی آواز سنی تو اس نے بھی دریا میں چھلانگ لگا دی۔ ”ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے“ استاد کا کہنا ہے کہ اگر سوہنی کے زمانے میں دریائے چناب پر پل ہوتا تو یہ عشق کچے گھڑے کے سر چڑھنے کی بجائے پولیس کے ہتھے چڑھتا۔ اور اس وقوعہ کی روحانیت و رومانویت کسی بے باک شاعر یا افسانہ نگار کے قلم سے ظہور پا کر ہمیشہ کے لیے بین ہوجاتی۔ ”رکھ لی مرے خدا نے مری بے کسی کی شرم“

اہالیان گجرات آج بھی ڈوبنے کی اس روایت کو بحسن و خوبی نبھا رہے ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ اب بارش کے دنوں میں گجرات شہر ڈوبتا ہے اور باقی دنوں میں گجراتی۔ بہرکیف اب تغیرات زمانہ سے باشندگان گجرات اتنے با شعور ہوچکے ہیں کہ وہ دریائے چناب کی بجائے بحیرہ عرب یا بحر اوقیانوس میں چھلانگ لگانے کو ترجیع دیتے ہیں۔ ڈوب گئے تو مائی سوہنی کی روایت کے امین، اور نہ ڈوبے تو ریال، دینار، یورو اور ڈالر کے کاروبار سے امیر ترین۔

گجرات کے دیہی علاقوں میں چودھری کا تعین زرعی زمین کی ملکیت کے اعتبار سے نہیں بلکہ گھر کی اونچائی اور کشادگی کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ اس دستار فضیلت کو سر پر سجانے کے لیے، ورثے میں ملی زمین داؤ پر لگانا پڑتی ہے تاکہ بذریعہ ایجنٹ عرب ممالک، یورپ یا امریکہ کا ویزا لگوایا جا سکے۔ لیکن جن سادہ لوح افراد کو ایجنٹ سمندر کے آر یا پار چکما دے جائے، ان تہی دستوں کو تمام عمر سائیں کا واں والی سرکار یا شاہ دولہ دریائی کے دربار کے باہر بیٹھ کر لنگر کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

گجرات کے بارے میں ایک عمومی تاثر ہے کہ یہاں کے رہائشی امیر ہیں اور جو یہاں کے غریب ہیں، وہ غریب الدیار ہیں۔ اور ان غریبوں کے مائی بابا اور بیوی بچے بڑے بڑے گھروں میں، اس کلام کی لفظی تصویر ہیں۔ ”کاگا سب تن کھائیو، چن چن کھائیو ماس/دو نیناں مت کھائیو، پیا ملن کی آس“

دس پندرہ سال پہلے گجرات میں پنکھا سازی، فرنیچر، جوتوں اور برتنوں کی صنعت عروج پر تھی۔ آج بھی ہے۔ لیکن آج کل زیادہ تر بڑے بڑے پلازے، شاپنگ مالز، میرج ہالز، ہسپتال اور ہوٹل بنتے ہیں۔ گجرات کی جس سڑک پر بھی چلے جائیے، آپ کو تعمیر و ترقی کے ان منصوبوں کی بدولت ٹریفک بلاک ملے گی۔ اور جس سڑک پر اس کے علاوہ ٹریفک بلاک ہوگی، وہاں آپ کو طلبہ سے لدی جامعہ گجرات کی جہازی بس، تنگ سڑکوں پر موڑ کاٹتی نظر آئے گی۔

گجرات میں شکستہ سڑکوں پر بھرتی ڈال کر انھیں اونچا کرنے کا عام رواج ہے۔ اس لیے یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ اگر سڑکوں کی مرمت کا کام، اسی انداز میں جاری رہا تو بہت جلد گجرات شہر کی سڑکیں کوہ مری کی بلندیوں کو چھو لیں گی اور لوگوں کے گھر، دامن کوہ میں بنے گھروں کا نظارہ پیش کیا کریں گے۔

استاد امام دین گجراتی سے منسوب گجرات کی ایک معروف سڑک کا قصہ زبان زد عام ہے۔ استاد نے کسی کو اپنا ایک شعر سنایا۔ ”یہ سڑک / سیدھی جلالپور کو جاتی ہے“ ۔ سننے والا سخن فہم تھا، کہنے لگا ”استاد جی پہلا مصرع اتنا چھوٹا اور دوسرا اتنا طویل، شعر میں توازن نہیں“ ۔ استاد نے کہا ”بھئی جب میں کہتا ہوں ’یہ سڑک‘ تو آپ اپنی مرضی کے مطابق سڑک کو لمبا کر لیں، جس مقام پر شعر میں توازن آ جائے، اتنی سڑک رکھ لیں، باقی چھوڑ دیں“ ۔ یہ تب کی بات ہے جب اس سڑک میں کچھ توازن تھا۔ اس لیے استادی پینترا چل گیا۔ اب اس روڈ کا اندوختہ یہ ہے کہ یہ دو رویہ ہونے کے انتظار میں اپنے سارے توازن کھو چکی ہے۔ اور ہمہ وقت بھاری ٹریفک کے نیچے لیٹی یہ التجا کرتی رہتی ہے۔ ”زندگی کوئی توازن مرے دن رات میں لا“

گجرات میں سیوریج کا نظام اپنے بل بوتے پر چلتا ہے۔ پانی کو اگر سیوریج کی گزرگاہوں میں دقت محسوس ہو تو وہ میونسپل کارپوریشن کو تکلیف دیے بغیر خود بخود مین ہولز سے اچھل کر باہر آ جاتا ہے۔ اور اپنی آخری منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی کسی گڑھے میں آسودۂ خاک ہو جاتا ہے۔ جو پانی خاک نشینی سے بچ جاتا ہے وہ نالیوں کے اندر بچھے سوراخ زدہ پائپوں کے ذریعے گھروں کی چھتوں پر لگی ٹینکیوں میں پناہ لے لیتا ہے۔ برسات کے دنوں میں یہی پانی، بارش کے پانی کے ساتھ مل کر سرکلر روڈ سے گزرتا ہوا، پورے شہر میں رنگ رلیاں مناتا ہے۔

گجرات کا قدیم شہر کبھی قلعہ بند تھا۔ لیکن تمبل بازار، مچھلی بازار اور مسلم بازار سے ملحقہ بازاروں کی بھیڑ کی وجہ سے اب ہوا بند ہوچکا ہے۔ کابلی، کالری، شیشیاں والا اور شاہ دولہ دروازوں میں سے اب صرف شاہ دولہ دروازے کے آثار ملتے ہیں۔ اسی طرح گجرات قلعہ اور اس کے اندر موجود باؤلی (سیڑھیوں والا کنواں ) اور اکبری حمام کے نشانات اپنے اصل مقام کی نسبت ”گجرات پیڈیا“ کی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر میں زیادہ واضح ہیں۔ بہرحال فوارہ چوک میں ”رام پیاری کا محل“ میوزیم کا درجہ ملنے کے بعد اب شاید زمانے کی دست برد سے بچ جائے۔ اور اگر ایسا نہ ہوا تو رام پیاری کا میاں سورگ واسی سندر داس اس محل کی خستہ حالی دیکھ کر عالم بالا میں تڑپ کر یہ ضرور کہے گا۔ ظالمو! : اسی کھنڈر میں مرے خواب کی گلی بھی تھی۔

سکندر اعظم کے خلاف راجہ پورس کی بہادرانہ لشکر کشی کے بعد اہالیان گجرات، جنگ و جدل میں کبھی پیچھے نہیں رہے (دلیل : دو نشان حیدر) کہا جاتا ہے کہ گجرات کے کملے بھی سیاست میں سیانے ہیں۔ اس لیے یہاں کی ہر گلی، محلے اور گاؤں میں، آپ کو ہر دوسرا شخص سیاسی سوچ اور اپروچ کا حامل ملے گا۔ گجراتی اگر سیاست دان نہ ہو تو کم از کم داؤ پیچ کے اعتبار سے پہلوان ضرور ہوتا ہے۔

”مٹی پاؤ، روٹی شوٹی کھاؤ“ یا ”جدوں ساڈے ول آؤ تے روٹی لیندے آؤ۔“ جیسے ملک گیر نعروں کے خالق اسی سر زمین کے سپوت ہیں۔ اگر کسی حکومت میں وزارتی قلم دان گجراتی کو مل جائے تو اہالیان گجرات کا شجرہ، اور کسی سے ملے نہ ملے گجراتی وزیر سے ضرور جا ملتا ہے۔

کسی زمانے میں گجرات اور اس کے مضافاتی علاقوں کے تشنگان علم کی پیاس زمیندار کالج بجھایا کرتا تھا۔ آج بھی یہ ادارہ، یہ کام کرتا ہے لیکن پرانا ٹھوٹھا آخر کتنی دیر سبھوں کی پیاس بجھاتا۔ بہرحال جب زمانے کے انداز بدلے گئے، تب علم کے پیاسوں کی تشنگی مٹانے جامعہ گجرات معرض وجود میں آ گئی۔

گجرات شہر میں خواتین کے لیے پنجاب حکومت کا کوئی الگ کالج نہیں۔ جو تھے، وہ جامعہ گجرات کی دن دگنی رات چگنی ترقی کی نذر کر دیے گئے ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر قدامت پسند اور غریب والدین اپنی بچیوں کو برقعوں میں لپیٹ کر شہر کے مردانہ سرکاری کالج میں تعلیم کے لیے بھیجتے ہیں اور لڑکوں کو تربیت کے لیے جامعہ گجرات میں۔ شہر میں چونکہ خواتین اساتذہ کے لیے سرکاری کالج نہیں، اس لیے انھوں نے بھی اس بحرانی صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر مردانہ کالج میں مورچہ بندی شروع کر دی ہے۔ بہرحال یہ تبدیلی خوش آئند ہے کہ اس بار سوہنی کا گھڑا آہستہ آہستہ تیرتا ہوا بالآخر کنارے تک آ لگا ہے اور مہینوال چھلانگ لگانے سے بچ گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).