پاک عرب تعلقات: اک نئے موڑ پر



پاکستان اور سعودی عرب کے ہمیشہ سے دیرینہ تعلقات رہے ہیں۔ مختلف اوقات میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ اگر سعودی عرب نے معاشی طور پر پاکستان کا ساتھ دیا تو پاکستان نے عسکری طور پر، اس کی مثال 80 کی دہائی میں 20000 پاکستانی فوجیوں کی سعودی عرب میں تعیناتی ہے۔ اس کے علاوہ عرب اسرائیل جنگ میں بھی پاکستان نے عربوں کا ساتھ دینے کے لیے اپنی فوج بھجوائی جو ان کے شانہ بشانہ لڑی۔

گزشتہ برس سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان پر انہوں نے کہا تھا کہ آپ مجھے سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر سمجھیں۔ انہوں نے گوادر میں 10 ارب ڈالر کی لاگت سے آئل ریفائنری قائم کرنے کے منصوبے پر بھی دستخط کئیے۔ پاکستان جب اقتصادی زبوں حالی کا شکار تھا اس وقت سعودی عرب نے پاکستان کو تین ارب ڈالر امداد دی اور تقریباً تین ارب ڈالر کا ادھار تیل دینے کا وعدہ بھی کیا۔

پاکستان کے بعد انہوں نے بھارت کا دورہ کیا اور بھارتی وزیراعظم کے ساتھ تقریبآ 40 بلین ڈالر کے مختلف معاہدے کئیے۔

بھارت نے 5 اگست کو عالمی قوانین اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر پر اپنے غاصبانہ قبضے کو مزید طول دی اور یک طرفہ طور پر کشمیر کی خود مختار حیثیت کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس فیصلے پر پوری دنیا میں موجود کشمیریوں اور پاکستانیوں میں ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات ڈی گریڈ کرنے کا اعلان کیا اور مسلم ممالک سمیت عالمی برادری سے بھارت پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا تا کہ بھارت اس غیر قانونی فیصلے کو واپس لے۔

اس پر عالمی برادری کی خاموشی تو کسی کو حیرت میں مبتلا نہ کر سکی البتہ مسلم ممالک کی مجرمانہ خاموشی پر سوالات ضرور اٹھے۔ مگر ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا، اس سے قبل 2019 میں ہی آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (OIC) کے کونسل آف فارن منسٹرز کے چھیالیسویں اجلاس کے موقع پر میزبان متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو مدعو کیا گیا۔ پاکستان نے اس پر احتجاج ریکارڈ کروایا اور اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔

یاد رہے یہ سب اس وقت میں ہوا جب بھارتی پائلٹس نے پاکستانی سرزمین میں در اندازی کرتے ہوئے چار درخت شہید کیے اور دم دبا کر بھاگ گئے تھے جبکہ اس کے جواب میں پاکستان نے بھارت کے دو طیارے مار گرائے اور ایک بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کر لیا۔ گو کہ بعد ازاں صورتحال کو مزید بگڑنے سے روکنے اور خطے کے امن کے پیش نظر پاکستان نے گرفتار پائلٹ کو رہا کر دیا تھا۔ ایسی صورتحال میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے یہ اقدام پاکستان کو خاصا ناگوار گزرا۔

پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سمیت ہر سطح پر کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی آواز اٹھائی۔ اؤ۔ آئی۔ سی نے بھی ایک مذمتی قرارداد منظور کی۔ پاکستان مسئلہ کشمیر پر او۔ آئی۔ سی کے فارن منسٹرز کے اجلاس کے لئے بارہا او۔ آئی۔ سی کے ممبران سے درخواست کر چکا ہے مگر ابھی تک سعودی عرب سمیت زیادہ تر ممالک خاموش رہے۔

جبکہ ترکی اور ملائیشیا نے کشمیر ایشو پر کھل کر پاکستان کے موقف کی تائید کی۔ گزشتہ برس ملائیشیا کی جانب سے کولاالمپور سمٹ بلایا گیا جس میں پاکستان اور ترکی نے شرکت کرنا تھی مگر عین وقت پر سعودی درخواست پہ پاکستان نے اس میں شمولیت سے معذرت کر لی۔ اس کے باوجود پاکستان کے موقف کی حمایت کی بجائے سعودی عرب کا بھارت کے موقف کی تائید کرنا پاکستان کے لئے انتہائی تشویشناک تھا۔

چند روز قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے ایک بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ

”میں ایک بار پھر احترام کے ساتھ او آئی سی کو بتا رہا ہوں کہ وزرائے خارجہ کی کونسل کا اجلاس ہماری توقع ہے۔ اگر آپ اس کو طلب نہیں کر سکتے تو پھر میں وزیر اعظم عمران خان سے ان اسلامی ممالک کا اجلاس طلب کرنے کے لیے درخواست پر مجبور ہوں گا جو مسئلہ کشمیر پر ہمارے ساتھ کھڑے ہونے اور مظلوم کشمیریوں کی حمایت کے لئے تیار ہیں“ ۔

اس بیان کے بعد سعودی دفتر خارجہ میں بھگدڑ مچ گئی اور ریاض میں موجود سعودی قیادت بھی حرکت میں آئی۔ اس کے نتیجے میں سعودی عرب نے پاکستان سے قرضہ واپس مانگ لیا اور پاکستان نے ایک ارب ڈالر واپس بھی کر دیا۔ یہ سب ہونے کے بعد سعودی عرب کا بھارت کی طرف جھکاؤ صاف نظر آ رہا ہے۔ سعودی عرب سمیت بیشتر دیگر عرب ممالک کا اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی طرف رخ جو کبھی خفیہ تھا آج کھل کر سامنے آ ریا ہے۔ اس کی تازہ مثال متحدہ عرب امارات کا اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے۔

حد تو یہ ہے کہ یہی عرب اپنے ہی برادر اسلامی اور عرب ملک قطر کے ساتھ تعلقات منسوخ کر کے اسرائیل کے ساتھ استوار کر رہے ہیں۔ اس فیصلے کے فوراً بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی عرب کا دورہ کیا جسے پہلے سے طے شدہ دورہ ظاہر کیا گیا۔ اس دورے کے بعد ایک طرف سعودی عرب نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے جبکہ دوسری جانب سعودی عرب کی فضائی حدود اسرائیل کے لیے کھول دی گئی اور امریکی صدر کے داماد جیرڈ کشنر نے اسرائیلی طیارے پر سعودی فضاؤں سے گزرتے ہوئے یو۔ اے۔ ای کا سفر کیا۔ یہی نہیں یمن کے جزیرہ سکوترا کے ایک قبائلی سردار نے سعودی عرب پر الزام لگایا کہ وہ یہ جزیرہ اسرائیل کو دینا چاہتے ہیں۔ اس صورتحال سے بہت سی چیزیں واضح ہو چکی ہیں کہ کون کس کے ساتھ کھڑا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ جلد یا بدیر سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر لے۔

اب پاکستانی حکومت کو ایک واضح اسٹینڈ لینا پڑے گا اور ”جو میرا ہے وہ میرا ہے، جو آپ کا ہے” کے اصول پر مذاکرات ہو سکتے ہیں۔

” (What is mine is mine, What is yours is negotiable)“ کے سفارتی اصول پر چلتے ہوئے سعودی عرب پر واضح کرنا ہو گا کہ کشمیر کے معاملے پر ہم کسی قسم کی مصلحت اختیار نہیں کریں گے اور کشمیر پر ہمارے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی چاہے آپ ہمارا ساتھ دیں یا نہ دیں۔

بین الاقوامی تعلقات میں کوئی بھی حتمی دوست یا دشمن نہیں ہوتا۔ کل کے دوست آج کے دشمن اور آج کے دوست کل کو دشمن بھی ہو سکتے ہیں۔ دنیا بھر کے ممالک اسی اصول کے تحت اپنی خارجہ پالیسی بناتے اور بدلتے ہیں۔ ہمیں بھی اپنے دوست اور دشمن کی پہچان کر لینی چاہیے۔ ہمیں بھی سب سے پہلے پاکستان کی پالیسی اپنانی ہو گی اور اسی کے مطابق اپنی خارجہ پالیسی ترتیب دینی ہو گی۔ کہیں یہ نہ ہو درمیانی راستہ اختیار کرتے کرتے ہم ان ممالک کی حمایت بھی کھو دیں جو ہمارے موقف کی تائید کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).