ساجد گوندل بازیابی کیس کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت: آنکھوں دیکھا حال


سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے جوائنٹ ڈائریکٹر ساجد گوندل بازیابی کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔ سیکرٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد اور ڈپٹی کمشنر عدالت کے روبرو پیش ہوئے جبکہ ایس ای سی پی کے لاپتہ افسر کے اہل خانہ بھی عدالت میں موجود تھے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ سے استفسار کیا کہ کیا یہ عام کیس ہے؟عدالت بنیادی حقوق کی محافظ ہے۔ دارالحکومت صرف چودہ سو اسکوائر میل پر مشتمل ہے۔ اس چھوٹے علاقہ کے لیے آئی جی اور چیف کمشنر موجود ہیں۔ جنھوں نے لوگوں کو تحفظ دینا ہے، وہ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں ملوث ہیں۔ اس ملک کی ہر ایجنسی اور وزارتوں کے افسران دفاتر میں بیٹھ کر پلاٹوں کے سودے کرتے ہیں۔ آپ ایک گمشدہ شہری کو تلاش کرنے میں ناکام ہوئے، یہ ریاست کی ناکامی ہے۔

چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ عدالتوں میں اس نوعیت کے کتنے کیسز ہیں؟ جس پر سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افراد کو تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر وفاقی حکومت کے کسی وزیر کے بیٹے کے ساتھ ایسا ہو تو آپ کا رویہ کیا ہو گا؟ عدالت نے استفسار کیا کہ رپورٹ ہوا کہ چیئرمین لاپتہ افراد کمیشن نے ساجد گوندل اغوا کا نوٹس لیا ہے۔ کیا یہ طے ہو گیا ہے کہ یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے جو کمیشن نے نوٹس لیا؟ کیا کمیشن کے چئیرمین کو کوئی معلومات ملی ہیں کہ یہ جبری گمشدگی ہے؟ کیا تفتیش کرنے والوں نے اس وقت تک لاپتہ افراد کمیشن سے رابطہ کیا؟ عدالت نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ ایک اور شہری کے لاپتہ ہونے کے کیس میں بھاری جرمانے کیے گئے۔ وزیراعظم کا وکلا تحریک میں قانون کی حکمرانی کے لیے اہم کردار تھا۔

عدالت نے سیکرٹری داخلہ سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے وزیراعظم کو بتایا کہ وفاقی دارالحکومت میں کیا ہو رہا ہے؟ کسی کو تو اس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ عدالت کو کوئی ایک مثال بتائیں جس میں لاپتہ شہری کو بازیاب کرایا گیا ہو۔ آپ شہری کو عدالت میں پیش کرنے میں ناکام ہوئے۔ عدالت انوسٹی گیشن میں مداخلت نہیں کرے گی۔

جس پر سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ آج صبح اجلاس میں تمام صورتحال کا جائزہ لیا ہے۔ اعلیٰ سطح پر تفتیش کی جا رہی ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی وزارت اور ہر ڈیپارٹمنٹ ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں شامل ہے وہ کیا کام کریں گے؟ جس پر سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ یہ بات درست نہیں ہے۔ عدالت نے اس موقع پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ہر شہری عدم تحفظ کا شکار ہے، یہ صورتحال تشویشناک ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ لاپتہ افراد کمیشن کے چیئرمین نے لاپتہ ہونے والے افسر کے والدین سے رابطہ کیا ہے کیا یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے؟ جس پر سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ پولیس کی تفتیشی ٹیم کو چیئرمین کمیشن سے پوچھنا چاہئے تھا کہ کیا ان کے پاس کوئی ذاتی معلومات ہیں؟

اگر پاکستان کے دارالحکومت میں قانون کی حکمرانی نہیں تو اس کا کیا مطلب ہے؟ عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو ہدایات کی کہ آپ اس معاملے میں وزیراعظم سے بات کریں، مجھے یقین ہے کہ آپ نے اس متعلق وزیراعظم کو آگاہ ہی نہیں کیا ہو گا۔ وزیر اعظم کو جیسے ہی اطلاع ہوئی، ریاست کا ریسپانس مختلف ہو گا۔

سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی آر کاٹ کر تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ تفتیش کے بعد بھی ابھی تک کچھ نہیں ہوا، آپ اپنی ناکامی تسلیم کریں۔ وفاقی دارالحکومت میں ہر کوئی خود کو غیر محفوظ تصور کر رہا ہے۔ جس پر سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ ہم اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں، جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ایسا ایک رات میں نہیں ہوا، مس گورننس نے اس صورتحال کو پہنچایا۔ آپ آئینی عدالت کے سامنے ریاست کے طور پر کھڑے ہیں اور ریاست کمزور نہیں ہوتی۔

چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے وزیراعظم کو بتایا کہ آپ کے ماتحت ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں ملوث ہیں۔ آپ وزیراعظم کو انفارم کریں کہ اداروں کا ریئل اسٹیٹ کاروبار کرنا مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ یہاں پر تفتیشی افسران کی کوئی تربیت نہیں، اسلام آباد میں پراسیکیوشن برانچ ہی نہیں ، آپ بتائیں کہ اس صورتحال میں آئینی عدالت کیا کرے؟ جس پر سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ ریاستی اداروں کو ان کا کام کرنے دیا جائے۔ وزیراعظم کو مطلع اور آئندہ کابینہ اجلاس میں یہ معاملہ رکھا جائے گا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ وفاقی دارالحکومت میں کتنے منتخب نمائندے ہیں؟ جس پر وکیل صفائی نے عدالت کو بتایا کہ تین افراد اس علاقہ سے عوام کے نمائندے منتخب ہوئے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تین دنوں سے صرف میٹنگز ہو رہی ہیں، ایس ای سی پی کے افسر کو تلاش نہیں کیا جا سکا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ایس پی انوسٹی گیشن اور ڈی ایس پی نے ان کے گھر کا دورہ کیا؟ اگر کسی منسٹر کا بیٹا اغوا ہوتا تو کیا صرف ڈی ایس پی ان کے گھر جاتا؟ رول آف لا نہیں ہو گا تو کرپشن ہو گی ۔ صرف نیب کرپشن نہیں روک سکتا، اس کے لیے قانون کی حکمرانی بھی ضروری ہے۔ اگر ہم شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتے تو ہم یہاں کیا رہے ہیں؟ پھر یہ آئینی عدالت بند کر دیں۔

ایس ای سی پی کے گمشدہ افسر کی بوڑھی ماں اور چھوٹے بچے یہاں موجود ہیں ۔ یہ بچے کسی کے بھی ہو سکتے ہیں۔ اس ماں کو کیا جواب دیں؟ کوشش کریں کہ کسی اور ماں کو اس طرح کے معاملے میں عدالت نہ آنا پڑے۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ سے استفسار کیا کہ آپ کو کتنا وقت چاہئے؟ آپ کو آئندہ سماعت تک موقع دے رہے ہیں آئندہ کسی وضاحت کے ساتھ نہ آئیں۔ کیس کی مزید سماعت 17 ستمبر تک ملتوی کر دی گئی۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui