پاکستان کو بچانا ہے تو کشمیر بچانا ہے


پاکستان میں اور بہت ساری باتوں کے علاوہ کچھ خبریں بھی ایسی ہوتی ہیں جن کو سمجھنے کے لئے کبھی کبھی الٹا لٹک نے کے باوجود بھی خبر کا پس منظر سمجھ میں آکر نہیں دیتا۔ ہوتا یوں ہے کہ اکثر یا تو کسی ایسی نشر ہوجانے والی خبر جس کی عوام کو خبر تک نہیں ہو پاتی، اس کی تردید آ رہی ہوتی ہے یا کسی ایسی ہی خبر یا بیان کا جوابی بیان یا خبر نشر کی جا رہی ہو تی ہے۔ ایسے موقعوں پر سننے والے کان حیران ہو رہے ہوتے ہیں کہ خبر کا پس منظر اور بیان کس ہیجان کا سبب ہو سکتا ہے۔

اگر کوئی فرد کسی ایسے عزیر، دوست، جانے یا انجانے کے پاس کھڑا ہو جو اپنے موبائل فون یا لینڈ لائن پر کسی کی باتوں کا جواب اونچی آواز میں دے رہا ہو تو اسے پوچھے جانے والے سوال یا بیان کا وہ حصہ تو سنائی نہیں دے رہا ہوتا جو فون کے دوسری جانب ہوتا ہے البتہ دی جانے والی وضاحت یا جواب وہ صاف صاف سن رہا ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں دو فریقوں کی گفتگو کو تیسرا فریق جواب دینے والے کی باتوں سے اندازہ لگا کر ہی مکمل کر رہا ہوتا ہے۔

اندازے ہمیشہ درست نہیں ہوا کرتے لہٰذا جب کوئی ایسی خبر جس کا صرف تردیدی یا وضاحتی حصہ ہی عوام کے سامنے آتا ہے تو عوام کسی تردید یا وضاحت کو مربوط کرنے کے لئے یا تو غیر ممالک کے خبر رساں اداروں کی جانب دیکھ رہے ہوتے ہیں یا پھر اندازوں کی بنیاد پر اپنی رائے قائم کر رہے ہوتے ہیں اس لئے بعض اوقات حقائق بہت ہی زیادہ مجروح ہو کر رہ جاتے ہیں۔

پاناما یا پاناما سے مماثل ایسی ہی بیشمار خبروں نے ملک کی بڑی بڑی قد آور شخصیات اور مقتدر اداروں کو بہت بری طرح متاثر کر کے رکھ دیا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ عوام کے سامنے اصل خبر کو سامنے لائے بغیر جب تردیدیں یا وضاحتیں پیش کی جانے لگتی ہیں تو عوام اپنی جانب سے اس میں چھپی خبر کی قیاس آرائیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے بیشمار ساری الجھنیں جنم لینا شروع کر دیتی ہیں۔

ایسی ہی باتوں میں وہ کچی پکی خبریں اور باتیں بھی شامل ہیں جو ہمیشہ عوام کی سمجھ سے بالا تر ہی رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب تک کشمیری آزادی اور بھارتی ظلم و جبر سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو جاتے اس وقت تک ہم کشمیریوں کی تحریک آزادی کا ساتھ دیتے رہیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کب مقبوضہ کشمیریوں کا ساتھ نہیں دیتا رہا۔ گزشتہ 73 سال سے پاکستان ان کی نہ صرف حمایت کرتا رہا ہے بلکہ پورے کشمیر کو اپنی شہ رگ قرار دیتا رہا ہے۔ اب جبکہ بھارت نے قانونی طور پر اپنے قبضے میں آئے کشمیر کو قانونی طور پر شامل کر لیا ہے اور اب وہاں کی مقامی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا قانونی حق بھی حاصل کر لیا ہے تو پھر پاکستان کی مسلسل زبانی حمایت اور اظہار ہمدردی کیا کشمیریوں کے زخموں کے لئے مرہم کا کام کر سکے گی۔

کل یوم دفاع پاکستان کی تقریب کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے فرمایا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے سلسلے میں کسی بھی یک طرفہ فیصلے کو ماننے کے لئے تیار نہیں نیز یہ کہ اگر جنگ مسلط کی گئی تو ہم اس کا جواب دینا خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔ ان کے یہ دونوں بیانات کم از کم ایک پاکستانی کی سمجھ سے بہت ہی بالا تر ہیں اس لئے کہ کشمیر کو قانونی طور پر بھارت نے آج سے 14 ماہ قبل نہ صرف یک طرفہ کارروائی کرکے قانونی طور پر اسے بھارت کا حصہ قرار دیدیا ہے بلکہ کئی لاکھ فوج بھیج کر وہ نہ صرف کشمیر پر مکمل قبضہ کر چکا ہے، ساتھ ہی ساتھ غیر کشمیریوں کو لاکھوں کی تعداد میں کشمیر میں بسانے کے لئے ڈومیسائل تک جاری کر چکا ہے۔ اگر اس بیان کو لیا جائے کہ ہم کسی بھی یک طرفہ فیصلے کو قبول نہیں کریں گے تو کیا اس کی نا قبولیت کے لئے پاکستان نے کوئی حتمی مہلت کا واضح اعلان کیا ہے؟ جس طرح 73 سال کشمیر کو شہ رگ شہ رگ کہتے گزر گئے کیا بھارتی زبر دستی کی تردید کرتے کرتے مزید 73 سال گزار دیے جائیں گے؟

رہی یہ بات کہ ہم پر اگر جنگ مسلط کی گئی تو ہم اس کا بھر پور جواب دینا جانتے ہیں تو جنگ کا مسلط کیا جانا آخر کہا کس کو جاتا ہے۔ امریکا نے افغانستان پر حملہ کرنے کے لئے پاکستان سے ہر قسم کا تعاون طلب کیا اور دھمکی کے ساتھ کیا، ہم پیچھے ہٹ گئے۔ اس سے قبل درجنوں میزائل سمندری حدود سے فائر کیے گئے جو افغانستان کی بجائے پاکستان کے علاقوں میں گرے، ہم نے جواب میں تیر بھی نہیں چلایا۔ اپنے زمینی راستے سارے کے سارے امریکا کے لئے کھول کر رکھ دیے اور تا حال نیٹو سپلائی جاری ہے۔

شمالی علاقوں کے فوجی ہوائی اڈے تک امریکا کے حوالے کر دیے۔ کیا اس کو جنگ مسلط ہونے کی صورت میں مناسب جواب کہا جا سکتا ہے؟ بھارت نے کشمیر پو فوج کشی کرکے ہزاروں کشمیریوں کو یرغمال بنا کر رکھ دیا، کیا یہ پاکستان پر جارحیت نہیں۔ اگر مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں تھا تو پھر پاکستان کے نئے نقشے میں اسے اور وہ سارے علاقے جو 1947 میں پاکستان کا حصہ قرار دیے گئے تھے، ان کو پاکستان کے نئے نقشے میں کیوں دکھایا گیا۔ جب بھارت نے پاکستان کے بیشمار پاکستانی حصوں پر بالجبر قبضہ کر لیا ہے اور کشمیر میں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ”جارحیت“ یا جنگ کا مسلط کیا جانا کیا ہوتا ہے؟

یہی وہ ساری خبریں، بیانات، وضاحتیں ہیں جو پاکستان اور پاکستانیوں کو کبھی سمجھ میں نہیں آ سکتیں۔ ہر جارحیت خواہ وہ مشرقی پاکستان کے سلسلے میں ہو، اس سے قبل پاکستان کے حصے میں آئے 1947 کے بیشمار علاقوں پر بھارتی فوج کشی کا معاملہ ہو، سیاہ چن سے دستبرداری ہو، افغان وار ہو، اسامہ بن لادن کی ہلاکت ہو یا اب کشمیر پر قبضے کا معاملہ، پاکستان نے ہمیشہ حوصلے ہار جانے کا مظاہرہ کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اور افواج پاکستان اپنے اپنے موقف کا اعادہ کرے اور مقبوضہ کشمیر کے سلسلے میں کسی بھی تاخیر سے کام لئے بغیر کوئی سخت کارروائی کر گرزے ورنہ کشمیر کے ساتھ ساتھ بہت کچھ پاکستان کے ہاتھ سے نکل سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).