بچے قوم کا مستقبل



بلا شبہ بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں لیکن ہمیں کم از کم ایک بار خود احتسابی کے عمل سے گزر کر یہ جانچ لینا چاہیے کہ لفظ ”قوم“ کی جو تعریف دنیا بھر کے دانا لوگوں نے کی ہے، کیا ہم کسی بھی طرح اس تعریف پر پورا اترتے بھی ہیں یا نہیں۔ ہمیں ایک بار یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہم نسل در نسل جن وڈیرے، خان، ملک، چوہدری، راجے مہاراجے اور سرداروں کے لیے ووٹ ڈالنے جاتے رہے ہیں انہیں سوائے ووٹ لینے کے ہمارے ساتھ کسی طرح کا کوئی سروکار بھی ہے یا نہیں۔

آج جبکہ 6 ستمبر کو ہم یوم دفاع پاکستان منا رہے ہیں وہیں پہ دو خبریں ایسی ہیں کہ انسان کی روح تک کانپ اٹھے۔ پہلی خبر کراچی کی پرانی سبزی منڈی کے علاقے سے ہے۔ 5 سالہ معصوم بچی مروہ کو دو دن پہلے اغوا کیا گیا جس کو زیادتی کے بعد قتل کرکے لاش جلا کر کچرا کنڈی میں پھینک دی گئی۔ دوسری خبر بوریوالہ کے نواحی گاؤں گگو منڈی سے ہے جہاں 4 بھیڑیے 13 سالہ بچے کو اٹھا کر کھیتوں میں لے گئے اور اس کے ہاتھ پاؤں باندھنے کے بعد منہ پہ کپڑا چڑھا کر زیادتی کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ویڈیوز بناتے رہے۔ بچے کو بلیک میل کرکے دوبارہ بلانا چاہا لیکن انکار پہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کر دی۔ یہ ہے ہمارے ملک میں قانون کی عمل داری اور جرائم پیشہ لوگوں میں قانون کا خوف۔

آئے روز معصوم بچے ان درندوں کی ہوس کا نشانہ بنتے ہیں لیکن حکومت وقت صرف زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں نکل رہی۔ پیپلز پارٹی کے دور میں ن لیگ والوں کی تقاریر اور بیانات سے لگتا تھا کہ جس دن یہ لوگ حکومت میں آئے تو بچے محفوظ ہو جانے ہیں۔ پھر یوں ہوا کہ ن لیگ کی حکومت آ گئی اور بیان بازی کی ذمہ داری عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف نے سنبھال لی۔ لوگوں کو ایک آس لگ پڑی تھی کہ شاید عمران خان اقتدار میں آ کر اس ظلم کا خاتمہ کر دیں لیکن ان کی حکومت کے دو سال گزر جانے کے بعد بھی کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔

چند لمحے غور کیا جائے تو تصویر کا اصل رخ ہمارے سامنے ہو گا۔ ہماری آنکھیں کھولنے اور ضمیر کو جھنجوڑنے کے لیے ہمارے پارلیمنٹیرینز نے کبھی بھی عوام کے معصوم بچوں کے قتل عام کو سنجیدہ طریقے سے نہیں لیا۔ ماضی قریب پہ نظر دوڑائیں تو سنہ 2015 میں ن لیگ کی حکومت میں سانحہ قصور منظرعام پہ آیا لیکن تب ن لیگ کے وزراء کی یہی بیان بازی ان کی ذہنی کیفیت اور عوام سے رشتے کو سمجھنے کے لئے کافی تھی کہ قصور واقعہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں اسے سیاسی رنگ دے کر حکومت کو لعن طعن کرنا بند کیا جائے۔ یہ کام تو روزہ مرہ کا معمول ہے اس میں اس قدر سیخ پا ہونے اور تلملانے قطعی طور پر کوئی ضرورت نہیں ہے۔

بچوں کو قتل کرنا بلاشبہ دہشت گردی ہے لیکن کیا بچوں کی عزت کا قتل دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آئے گا، اب تو یوں لگتا ہے جیسے پاکستان کا ہر شہر قصور بن چکا ہے جہاں آئے روز بچوں کا بچپن قتل ہوا ان کے ساتھ دہشت گردی نہیں ہوئی۔ ‏بچوں کے ساتھ زیادتی اور کی ویڈیوز بنا کر فحش ”پورن“ ویب سائٹس کو بیچنا الیکٹرانک کرائم کے زمرے میں آتا ہے جس کی مانیٹرنگ ڈائریکٹ ایف آئی اے کرتی ہے۔ ‏لیکن 5 سال گزر جانے کے باوجود قصور کے مجرم سوائے ایک قربانی کے بکرے کے سب آزاد پھر رہے ہیں۔

ذرا ذرا سی بات پر سرخی پاؤڈر لگا کر سر شام تماشا کرنے والے اپنے تئیں سقراط اور افلاطون قسم کے اینکرز حضرات جو ہمہ وقت ریٹنگ کی خاطر زمین و آسمان ایک کیے رکھتے ہیں مجرمانہ قسم کی خاموشی کا شکار ہیں۔ ہمیں اپنے گریبانوں میں بھی جھانکنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہماری سیاسی وفاداریاں اس ملک و قوم اور اس کے بے کس و مظلوم لوگوں سے زیادہ اہم ہیں یا پھر اپنے ساتھ اسی طرح کے سلوک کے منتظر ہیں۔ اب کی بار یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم کس طرف کھڑے ہوتے ہیں۔

آج یوم دفاع پاکستان کے دن اللٰہ رب العالمین سے دعا ہے کہ ہماری قوم کو جلد ”یوم دفاع طفلان پاکستان“ (Child Protection Day) منانے کی توفیق عطا فرمائے۔ جیسے ہم ہر سال 6 ستمبر کو فخر سے کہتے ہیں کہ قوم کے سپوتوں نے مادر وطن کا دفاع کرکے دشمن کو دھول چٹا دی تھی ویسے ہی ہمیں کوئی ایک دن ایسا بھی ملے کہ ہم فخر کر سکیں کہ اس ہم نے فیصلہ کرکے پاکستان کا بچہ بچہ محفوظ کر دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).