وزیر اعظم عمران خان کی سوشل میڈیا کارکنوں سے ملاقات کی اندرونی کہانی


مجھے گورنر ہاؤس سندھ کراچی میں بروز ہفتہ مورخہ 5 ستمبر کو مدعو کیا گیا تھا جہاں مجھے وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان سے ملاقات کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ جس میں سوشل میڈیا کے بعض دیگر قابل ذکر افراد بھی شامل تھے۔ وزیر اعظم عمران خان، گورنر سندھ جناب عمران اسماعیل، جناب اسد عمر، وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اصلاحات اور خصوصی اقدامات، جناب علی حیدر زیدی، بحری امور کے وزیر، جناب شبلی فراز، وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات اور ڈاکٹر ارسلان خالد، سوشل میڈیا پر وزیر اعظم کے سوشل میڈیا پر فوکل پرسن وزیر اعظم کے ہمراہ اجلاس کے کمرے میں داخل ہوئے۔

وزیر اعظم عمران خان نے سب سے پہلے ہم سب شرکا کا خیرمقدم کیا اور پھر انہوں نے اپنی آج کی ملاقات کا مقصد سوشل میڈیا کارکنوں کے ساتھ سامنے رکھا۔ وزیر اعظم نے واضح طور پر بحث کے لئے چار بڑے نقاط پر بات کی۔ جن میں ایف اے ٹی ایف بل سے متعلقہ قانون سازی میں اپوزیشن کا مجرمانہ کردار، کورونا وائرس کے خلاف کامیاب حکمت عملی اور پاکستان کی نمایاں کامیابی، کراچی تبدیلی پیکیج اور قوم کے اعتماد سازی میں سوشل میڈیا کارکنوں کا کردار جیسے اہم موضوعات شامل تھے۔

ایف اے ٹی ایف چیلنج

وزیر اعظم عمران خان نے اپنی بات کا آغاز پاکستان کے ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ میں شامل کیے جانے اور اب مستقبل کے بارے میں ایک مختصر تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے کیا۔ وزیر اعظم نے شرکا کو بتایا کہ 28 جون 2018 کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے وقت ملک کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ڈالا گیا تھا۔ وزیراعظم کا نے شرکا کو مطلع کیا کہ وہ اور ان کی ٹیم ایف اے ٹی ایف سے پاکستان کو بھر نکالنے کے لئے سخت جدوجہد کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ ایفائے ٹی ایف کا قانون قومی اسمبلی سے منظور ہونے کی شرط پر ہی پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں جانے سے روکا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں ڈالا گیا ہے تو خدانخواستہ پاکستان کا دیوالیہ نکل جائے گا کیونکہ ہمارے پاس ملک کو چلانے کے لئے وسائل نہیں ہیں اور ہمیں اس معاملے میں مہلک پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔

بلیک لسٹ ہونے کی صورت میں ہمارے پاس جو زر مبادلہ کے ذخائر ہیں وہ دنوں میں ختم ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں ہماری کرنسی کی قدر میں کمی نمایاں کمی ہوگی جو بے مثال مہنگائی اور معاشی تباہی کا باعث بنے گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اس وقت میں اپوزیشن جماعتوں کے سیاستدانوں کو ملک کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے نہ کہ ان کی پارٹی قائدین کے ساتھ کہ جنہوں نے ملک کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔ وزیراعظم عمران خان یہ کہتے ہوئے ناخوش نظر آئے کہ بدقسمتی سے اب بھی حزب اختلاف کی جماعتوں کے کچھ رہنما اپنے قائدین کے ذاتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ وہ تمام نام نہاد قائدین جو بدعنوانی میں ملوث ہیں ایف اے ٹی ایف بل میں حکومت کی حمایت کے بدلے این آر او چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کے بل کو قومی اسمبلی سے منظور کروانے کے لئے حکومت کو حزب اختلاف کی حمایت درکار ہے لیکن اپوزیشن سودے بازی کرنا چاہتی ہے، ایسا نہیں ہوگا ایسا کہتے ہوئے وزیر اعظم پرعزم نظر آئے۔

وزیر اعظم عمران خان نے مزید کہا کہ ہماری حکومت کے پچھلے ڈھائی سالوں کے دوران حزب اختلاف نے کئی بار این آر او کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن جب وہ عوام میں یا میڈیا پر جاتے ہیں تو وہ اس کی مکمل تردید کرتے ہیں۔ تاہم اب ہمارے پاس ایسے ٹھوس ثبوت موجود ہیں جو ہم اپنی عوام کے سامنے رکھیں گے کہ کیسے انہوں نے نیب آرڈیننس میں ترمیم کی تجویز پیش کی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ نیب کو بے کار ادارہ بنا دیا جائے تاکہ اس کی اہمیت ہی ختم ہو جائے۔

پاکستان کی کورونا کے خلاف کامیاب حکمت عملی دنیا کے لئے مثال بن گئی ہے۔

وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے سوشل میڈیا کارکنوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کے پھیلنے کے ساتھ ہی ان پر اور ان کی ٹیم پر چاروں طرف سے بے دریغ تنقید کی گئی گویا کہ شاید پاکستان اس آفت کا سامنا کرنے والا زمین پر واحد ملک تھا۔ عمران خان نے کہا کہ حزب اختلاف کے لئے اس طرح کا کوئی بھی موقع ایک نعمت نعمت کی طرح ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے کچھ قابل ذکر سوشل میڈیا کارکن بھی ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ ان کا موقف تھا کہ ان کا ملک زیادہ وقت تک اس طرح کے لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مجھے معلوم تھا کہ ہم کاروباری سرگرمیاں بہت جلد دوبارہ شروع کرنے پر مجبور ہوجائیں گے اس سے اچانک بڑی تعداد میں لوگوں کی دوبارہ اکٹھے ہونا تباہی کا باعث بنے گا۔ جسے سنبھالنا ہمارے بس کی بات نہیں ہوگی۔ لہذا میں نے سمارٹ لاک ڈاؤن اپنانے کا فیصلہ کیا لیکن مجھ پر وحشیانہ تنقید کی گئی اور میرا مذاق اڑایا گیا۔

حزب اختلاف اور میڈیا کا ایک خاص حصہ یہاں تک کہ ان کی کابینہ کے کچھ ارکان یہ بھی مانتے تھے کہ مراد علی شاہ شاید وفاقی حکومت سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، لیکن خوش قسمتی سے میرا یقین کرنے والے تمام لوگوں کو پتہ چل گیا ہے کہ خدا نے ہمیں کامیابی سے نوازا ہے۔ ہم نے نہایت فہم و فراست سے کورونا کا سامنا کیا اور اسے ہرایا جس سے عالمی برادری میں پاکستان کی بہت پذیرائی ہوئی۔ آج پاکستان کی کورونا کے خلاف کامیابی کئی ممالک کے لئے کیس اسٹڈی بن چکی ہے۔

گیارہ سو ارب روپے کراچی پیکیج کے لیے مختص

وزیراعظم عمران خان نے کراچی کی عوام کو درپیش مشکلات اور پریشانیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کی عوام کو ایک بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ بارش نے ایک خوفناک آزمائش کے طور پر کراچی کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ وزیر اعظم نے کہا، انہیں کچھ لوگوں نے اکسایا کہ وہ فوراً ہی کراچی چلے جائیں لیکن چونکہ اس وقت ان کے پاس کچھ کراچی کے لئے کوئی جامع پیکج نہیں تھا اس لئے اس وقت انہوں نے کراچی جانے سے اجتناب برتا۔

آج مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ میں نے کراچی کے عوام کو تقریباً گیارہ سو عرب روپے کا پیکیج دینے جا رہا ہوں، وزیر اعظم عمران خان نے سوشل میڈیا کارکنوں سے بات کرتے ہوئے بتایا۔ وزیر اعظم نے بہت واضح طور بار بتایا کہ کس طرح یہ فنڈ استعمال کیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کراچی کو پانی کی فراہمی کے مسئلے کو حل کرنا ان کا پہلا ہدف ہے، اس کے لئے وفاقی حکومت اور سندھ حکومت مشترکہ طور پر کراچی کے پانی کی فراہمی سے متعلق مسئلے کو مستقل طور پر حل کرنے کے لئے گریٹر کراچی واٹر سپلائی اسکیم شروع کرے گی۔

وزیر اعظم عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ کراچی کا دوسرا سب سے بڑا مسئلہ نالوں پر تجاوزات ہے۔ لیکن اس معاملے کے حل پر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے ) کے تحت کام شروع ہوچکا ہے۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ نالوں پر تجاوزات کے مسئلے کو حل کرنے سے کچھ لوگ بے گھر ہو جائیں گے لیکن چونکہ وہ غریب ترین ہیں لوگ ہیں تو سندھ حکومت نے ان کو دوبارہ آباد کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ تیسرا مسئلہ فرسودہ سیوریج سسٹم اور ٹھوس کچرے کو ضائع کرنا ہے، ہماری وفاقی حکومت یقیناً اس کے لئے ایک مناسب نظام بنائے گی، وزیر اعظم عمران خان نے اجلاس کے شرکا کو بتایا۔

یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ وزیر اعظم کراچی کے تمام بڑے مسائل سے پوری طرح واقف تھے۔ وزیر اعظم نے حقیقت میں شرکا کو حیرت میں ڈال دیا جب انہوں نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ کراچی کا ایک اور بڑا مسئلہ ”ٹرانسپورٹ“ ہے لہذا میں آپ کو بتاتا چلوں کہ وفاقی حکومت اس پیکیج میں کراچی سرکلر ریلوے کو مکمل طور پر بحال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سڑکوں کی تعمیر اور بس ریپڈ ٹرانزٹ اور دیگر لائنوں کے لئے اپ گریڈ کیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ انہوں نے نقل و حمل اور سڑکوں کے مسئلے کو مکمل طور پر حل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

امید پھیلائیں۔ مثبت پن حیرت انگیز ہے۔

اجلاس میں اپنی گفتگو کے آخری نقطہ میں وزیر اعظم عمران خان نے سوشل میڈیا کارکنوں کو بتایا کہ میڈیا اور حزب اختلاف کا کچھ خاص حصہ اپنی حکومت پر قوم کے اعتماد کو سبوتاژ کرنے کے لئے جعلی خبریں پھیلا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اپوزیشن نے عوام میں غیر مقبول ہے اور عوام ان کے ساتھ نہیں کھڑے ہیں کیونکہ یہی مافیا ہیں جنہوں نے پاکستان کا مستقبل تباہ کر دیا ہے۔ آج جب یہ بدعنوان لوگ بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، ان میں سے کچھ بھاگ کر پاکستان سے نکل گئے جبکہ جو یہاں موجود ہیں وہ نیب کے سامنے پیش ہونے سے بچنے کی پوری کوشش کرتے ہیں یہاں تک کہ اگر انہیں طلب کیا جاتا ہے تو بھی حیلے بہانے کرتے ہیں۔

وزیر اعظم نے یہ بھی کہا، میں نے سنا ہے کہ نواز شریف کے تمام پلیٹ لیٹ بحال ہو گئے ہیں اور وہ اب عدالتوں کا سامنا کرنے کے لئے پاکستان واپس آنے کو تیار ہیں۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ یہ دیکھنا دلچسپ ہے کہ یہ تمام نام نہاد اپوزیشن جماعتیں مولانا فضل الرحمن کے کندھوں کو استعمال کر رہی ہیں کیونکہ انہیں عوامی حمایت حاصل نہیں ہے جبکہ بدقسمتی سے مولانا فضل الرحمن اپنی گندی سیاست کے لئے مدرسوں کے بچوں کو استعمال کرتے ہیں۔

وزیر اعظم نے اپنے اختتامی الفاظ میں یہ بھی کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب ایک طرف سے ہمارے ملک کو ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں ڈالنے کے چیلینج کا سامنا ہے تو دوسری طرف حزب اختلاف بھی بظاہر ہندوستانی ایجنڈے پر عمل پیرا نظر آتی ہے۔ ایسے آزمائشی وقت میں ہمارے سوشل میڈیا کارکنوں کو قوم کی اعتماد سازی میں اپنے کردار اور ذمہ داری کو سمجھنا چاہیے۔ آپ سب کو لوگوں میں امید پھیلانا چاہیے کیونکہ آپ میں سے کچھ لوگ حزب اختلاف کی سازش کا شکار ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).