نوجوانوں میں خود کشی کا بڑھتا ہو رحجان اور ہماری ذمہ داری


امتحان میں ناکامی پر دلبر داشتہ ہو کر طالب علم نے خود کشی کر لی۔
پروفیسر کے ذاتی عناد کے باعث بار بار فیل کیے جانے پر فائنل ائر کے طالب علم نے اپنی جان دے دی۔
شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے تھرڈ ائر میڈیکل سٹوڈنٹ نے خود کشی کر لی۔

یہ تمام خبریں آپ سب نے کسی اخبار میں پڑھی ہوں گی جس نہایت سنسنی خیز انداز میں کسی نیوز چینل پر سنی ہوں گی اور نہ جانے ایسی کتنی ہی خبریں ہوں گی جن کو کسی نیوز رپورٹر یا چینل تک پہنچنے سے پہلے تھپک کر سلا دیا ہوگا۔

یہ بات تو طے شدہ ہے کہ آج کل عموماً اور تعلیم اداروں میں خصوصاً، مقابلے کی جو فضا ہے۔ وہ غالباً آج سے پندرہ بیس برس پہلے نہیں تھی تو ظاہر ہے کہ محنت بھی زیادہ کرنی پڑتی ہے اور پریشر بھی بر داشت کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت حال میں والدین اور اساتذہ پر بھی پہلے سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اکثر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے باقیوں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ دوسرے بچوں سے ان کا مستقل موازنہ کیا جاتا ہے اور خراب کارکردگی کی صورت میں لعن طعن کا نشان بنایا جاتا ہے۔

بہت دفعہ بچے والدین کی خواہش یا مارکیٹ میں موجود نام نہاد ”سکوپ“ کی کہانیوں سے متاثر ہو کر ایسے مضامین کا انتخاب کر لیتے ہیں جو ان کی صلاحیتوں اور ذہنی رجحان سے میل نہیں رکھتے۔ نتیجتاً انہیں سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔ دوسری طرف اساتذہ اور تعلیمی ادارے پہلے سے موجود مقابلے کو مزید ہوا دیتے ہیں جس سے بچے شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس پر مستزاد ہمارے تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور انتظامیہ کی ذاتی بغض و عناد اور سیاست جس کی وجہ سے بہت دفعہ کئی مستحق بچوں کا حق مارا جاتا ہے۔

جہاں ایک طرف والدین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بچوں کا رجحان اور پسند ناپسند ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کی کامیابی میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ وہیں انہیں اس تیز رفتار اور سوشل میڈیا کے زمانے میں اپنے بچوں خاص کر نوجوان بچوں کے ایک دوستانہ تعلق بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ ان کے بچے کو زندگی میں کن چیلنجز کا سامنا ہے۔ وہ ان کا مقابلہ کیسے کر رہا ہے اور وہ اس کی کیا مدد کر سکتے ہیں۔

بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی بچوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ ہمت ہارے بغیر مشکلات کا مقابلہ کیسے کیا جائے، جھجھلاہٹ کے بغیر مسائل کا حل کیسے ڈھونڈا جائے اور ناکامی کی صورت میں مایوس ہونے کی بجائے آگے کیسے بڑھا جائے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ بچوں سے ایک مسلسل ”ڈائیلاگ“ میں رہنے کی ضرورت ہے۔ بچوں سے ان کی روز مرہ زندگی، مسائل، دوستوں، اساتذہ کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بات کریں۔ ان کا نکتہ نظر سمجھنے کی کوشش کریں اور مسائل کے حل میں ان کی ہر ممکن مدد کریں تاکہ انہیں اپنے گھر والوں سے جو سپورٹ چاہیے، انہیں ملتی رہے اور وہ تنہائی کا شکار نہ ہوں۔

سکول کے پہلے دن سے ہی بچے اپنے اساتذہ کو ایک رول ماڈل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ مختلف معاملات اور مسائل پر ان کا رد عمل، رائے اور نظریات بچوں کے لیے، چاہے وہ سکول، کالج، یونیورسٹی، کسی بھی سطح پر ہوں، نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ آج کا کلاس روم صرف کورس تک محدود نہیں رہ سکتا۔ اساتذہ کو چاہے ان کا واسطہ کسی بھی عمر کے بچوں یا نوجوانوں سے ہو، کوشش کریں کہ ان سے کلاس روم کے باہر بھی ایک غیر رسمی (انفارمل) تعلق جوڑنے کی کوشش کریں۔

اس سے انہیں اپنے طالب علموں کی سوچ، زندگی کے نظریے، مسائل اور مشکلات کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع ملے گا۔ بظاہر تو نوجوان یونیورسٹیوں سے ڈگری کی صورت میں چند ایسی مہارتیں (سکلز) لے کر نکلتے ہیں جن کی مدد سے زندگی کے کسی ایک شعبے میں نام پیدا کر سکیں لیکن در اصل یہ ڈگری ان چند سالوں ٹریننگ کی ایک ثانوی پیداوار (بائی پراڈکٹ) ہے۔ تعلیمی ادارے (عموماً) اور اعلیٰ تعلیمی ادارے خصوصاً ایک ایسی تربیت گاہ ہیں جو مستقبل کے لیے افرادی قوت تیار کرتی ہیں۔ وہ لوگ جنہیں آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے تیار کرتی ہیں۔

ہماری یونیورسٹیوں اور کالجز کو ”ڈگری دینے والے ادارے“ کی بجائے صحیح معنوں میں ”درسگاہیں“ بننے کی ضرورت ہے۔ انہیں ایسی لیبارٹریز بننے کی ضرورت ہے جہاں صرف یہ نہ بتایا جائے کہ ہائیڈروجن اور آکسیجن کو ملانے سے پانی بنتا ہے جس مسئلہ فیثا غورث کیا ہے بلکہ یہ بھی سکھایا اور دکھایا جائے کہ زندگی میں کامیابی سے آگے بڑھنے کے لیے اپنے اندر مضبوط قوت ارادی اور لچک کیسے پیدا کی جائے۔ فیصلہ سازی، ٹیم ورک، حالات اور مسائل سے نمٹنے کے مثبت طریقے سکھائے جائیں اور ناکا میوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا سکھایا جائے۔
اپنے ارد گرد کے لوگوں کی بات سنیے، خاص طور اپنے بچوں کی، اس سے پہلے کہ (خدا نخواستہ) لوگ اس کے بارے میں ایسی کوئی خبر پڑھ رہے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).