بارش، مٹی اور سوندھی خوشبو


طویل عرصے کے خشک اور گرم موسم کے بعد ہونے والی پہلی بارش، فضا کوایک مسحور کن خوشبو سے معطر کر دیتی ہے۔ جو رواں رواں کو فرحت اور تازگی کے احساس سے بھر دیتی ہے۔ محسن بھوپالی تو اس خوشبو کو مٹی کی مجبوری سے محمول کر کے ہمیں بارش کی بوندوں کو روکنے کی ترغیب دیتے ہیں (روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو روکو تم۔ کچی مٹی تو مہکے گی ہے مٹی کی مجبوری) ۔ مگر سائنس اس خوشبو کی کیا تاویل کرتی ہے، آئیے دیکھتے ہیں۔

اتر پردیش (ہندوستان) کے مقامی عطرساز، چکنی مٹی سے خوشبو کے ارتکاز، کشیدگی اور عطر سازی کے لیے جانے جاتے ہیں۔ یہ لوگ، مئی جون کے مہینوں میں چکنی مٹی کے برتن دھوپ میں رکھ دیتے۔ پھر برسات سے ذرا پہلے وہ بھاپ کے ذریعے ان برتنوں سے عرق کشید کرکے ایک عطر بناتے جسے مٹی کا عطر کہا جاتا ہے۔ تاہم یہ عطر ساز اور اس دور کے سائنس دان اس بوئے گل کے مآخذ سے نا واقف تھے۔

1964 میں آ سٹریلوی سائنس دان، بارش کی خوشبو کا راز جاننے کی کوشش میں مختلف اقسام کی مٹی سے ایک تیل الگ کرنے میں کامیاب ہوئے جسے ”پیٹری کور“ کا نام دیا گیا۔ محقیقن نے مشاہدہ کیا کہ چکنی مٹی، صرف نم ہونے پر ہی خوشبو دیتی ہے۔ دراصل مٹی میں پائے جانے والے بیکٹیریا، آسانی سے بخارات میں تبدیل ہو جانے والے (طیران پذیر) کچھ نامیاتی مرکبات بناتے ہیں۔ ایسا ہی ایک مرکب ”جیوسمن“ ہے جو خشک موسم کے دوران مٹی میں قید رہتا ہے۔ مگر بارش کی بوندیں پڑنے پر یہ فضا میں بکھر کر سوندھی خوشبو کی وجہ بنتا ہے۔

2015 میں سائنس دانوں نے تیز رفتار کیمروں کی مدد سے جیوسمن کے ہوا میں بکھرنے کے منظر کو قید کرنے میں کامیاب ہوئے۔ سائنس دانوں نے مشاہدہ کیا کہ زمین سے ٹکرانے پر، بارش کی بوندیں اپنے اندر ہوا کے بلبلے قید کر دیتی ہیں۔ یہ بلبلے تیزی سے بلند ہوتے ہیں اور زمین کی سطح پر پھٹ کر ایک انتہائی باریک پھوار بناتے ہیں۔ یہ پھوار اپنے ساتھ جیوسمن کو لیے، ہوا کے دوش پر سفر کرتی انسانی ناک تک پہنچتی ہے۔ انسانی ناک جیوسمن کے لیے بہت حساس ہے اور اس کی انتہائی کم مقدار بھی محسوس کرلیتا ہے۔

بارش کی اس خوشبو میں کچھ حصہ پودوں سے نکلنے والا تیل (تارپین) بھی ہے۔ گرم موسم میں پودے اپنے اجسام سے ایک تیل خارج کرتے ہیں جو مٹی میں جذب ہوتا رہتا ہے۔ بارش کی بوندوں سے اس تیل کے کچھ طیران پذیر مرکبات ہوا میں خارج ہو کر بارش کی خوشبو میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ اس کے علاوہ گرج چمک سے ہوا میں اوزون گیس کا بھی بارش کی خوشبو میں معمولی کردار ہے۔

چلیے بارش کی خوشبو کی وجہ تو معلوم ہو گئی مگر آخر بیکٹیریا یہ مرکبات بناتے کیوں ہیں؟

ماضی میں سائنس دانوں کا خیال تھا کہ جیوسمن دراصل ایک کیمیائی ہتھیار ہے جسے بیکٹیریا دوسرے جانداروں کے خلاف زہر کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً مذکورہ بالا آسٹریلوی سائنس دانوں نے اپنی تحقیق میں دیکھا کہ جیوسمن کی موجودگی، مٹی میں پودوں کی بڑھوتری اور نشو ونما کو متاثر کرتی ہے۔ شاید بیکٹیریا، مٹی میں موجود خوراک کے بلا شرکت غیرے، مالک بننا چاہتے ہیں۔ حال (مئی 2020 ) ہی میں چھپنے والی تحقیق نے جیوسمن کی مٹی میں موجودگی کی ایک نئی وجہ آشکار کی ہے۔

تحقیق کے مطابق جیوسمن اور اس سے ملتے جلتے مرکبات، دراصل بیکٹیریا کے کیمیائی اشارے ہیں جو حشرات کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ حشرات نما جاندار جیسا کہ سپرنگ ٹیلز، اس خوشبو کی نادیدہ پٹی پر چلتے چلتے بیکٹیریا تک پہنچتے ہیں اورانھیں اپنی خوراک بنا ڈالتے ہیں۔ مگر جان دینے سے پہلے یہ بیکٹیریا افزائش نسل کے لیے اپنا بیج (سپورز) زمین میں چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔ یہ سپورز، سپرنگ ٹیل کے جسم سے چپک کر یا اس کے فضلے سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتے ہیں اور افزائش نسل شروع کر دیتے ہیں جو ان کی بقا کے لیے ضروری ہے۔

یہ تو معلوم ہو گیا کہ حشرات نما جاندار کے لیے جیوسمن کیوں پرکشش ہے۔ مگر یہ خوشبو انسان کے من کو کیوں بھاتی ہے؟ کچھ سائنس دانوں کے خیال میں، ہمارے آبا و اجداد شاید اپنی بقا کے لیے بارش کے محتاج تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بارش کی خوشبو کے لیے ہماری ناک انتہائی حساس ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).