ستو سے بھنگ تک


گزشتہ 17 اگست کو مجھے گویا اک نیا نروان اس لمحہ حاصل ہوا جب ایک کتاب تلاش کرتے ہوئے میری لائبریری کے ایک بک شیلف سے ایک پرانا اردو رسالہ گر پڑا اور میری نظر سے اس زمانے میں چھپا ایک زرعی دوا کا اشتہار گزرا جو نئی فصل کی بوائی سے پہلے گڈائی کے عمل کے دوران استعمال کی جاتی تھی۔ ایک امریکن کمپنی کی تیار کردہ اس زرعی دوا کی ڈسٹری بیوشن ایک مقامی کمپنی کے ہاتھ میں تھی۔ میرا تعلق چونکہ ایڈورٹائزنگ سے رہا ہے تو مجھے اندازہ ہے کہ اس دوا نے اس زمانے میں کتنی حیرت انگیز مقبولیت حاصل کی اور سیلز کے کتنے پرانے ریکارڈ توڑ کر کتنے نئے ریکارڈ قائم کیے۔

نروان یہ ملا کہ اس دن اس تاریخ کو تقریباً 32 سال پرانے میگزین کے اس صفحہ کے اچانک کھلتے ہی گویا کھل گئی عمر گزشتہ کی کتاب۔

32 سال قبل یہ وہی تاریخ تھی جب بقول ہمارے دوست محمد حنیف، خاص آموں کی ایک پوری فصل تباہ ہو گئی تھی۔ ایسے چنیدہ آم کیسے پھٹ گئے آج کی تاریخ تک یہ تاریخ دانوں کے لئے تو ایک معمہ بنا ہی ہوا ہے لیکن اس دیس کے طول و عرض کے اصل زمین داروں کے لئے یہ ایک کاروباری نروان تھا۔ وہ یہ کہ کاروباری منافع کے لئے اگر چنیدہ پھل درکار ہوں تو ایسی کامیاب منافع بخش فصل کی بوائی سے پہلے زمین ہموار کرنے کے لئے بڑی سوجھ بوجھ کے ساتھ گڈائی کی جائے اور اس گڈائی کے دوران زمین میں موجود ایسی قدرتی جڑی بوٹیاں تلف کر دی جائیں جو حسب منشا فصل کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔

امریکن کمپنی کی اس زرعی دوا کے ذریعے ہماری سرزمین پاک کے اصل زمین مالکان کو جو نروان ملا اس کا سہرا اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور بننے کے لئے کوشاں امریکہ کی تحقیق کو اتنا نہیں جاتا جتنا پاکستان کے ان زمین داروں کو۔ جن کے کاروباری شعور نے اس دوا کے پیچھے چھپا وہ نسخہ ڈھونڈ نکالا جو اس دوا کی شاندار اور ریکارڈ ساز کامیابی کی اصل وجہ تھی اور وہ یہ کہ یہ دوا کمال کی اثر انگیز تو تھی ہی لیکن اس کے ساتھ گڈائی کے دوران اس کا اسپرے اپنی اثر انگیز شدت کا پتہ یوں دیتا تھا کہ زمین کے جتنے رقبے پر اس کا چھڑکاؤ ہوتا وہ پیلا ہو جایا کرتا اور جب زمین دار اپنے مزارعوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے نکلتا تو وہ امریکی دوا کے اثر زدہ پیلی رنگت کے زمینی رقبے کے درمیان نظر آنے والے دیسی سبز رنگت کے ٹکڑے دیکھ کر سمجھ جاتا کہ یہ وہ علاقے ہیں جہاں مزارعوں نے ڈنڈی ماری ہے اور چھڑکاؤ نہیں کیا ہے۔ چنانچہ وہ اپنا فرض ادا نہ کرنے پر عبرت ناک سزائیں دیا کرتا تاکہ اس کے دوسرے مزارعوں کو عبرت ملے اور اس کے دبدبے میں بھی اضافہ ہو۔

یہ وہ دور تھا جب دنیا میں اکیسویں صدی کی آمد کے ترانوں کی گونج شروع ہو چکی تھی دنیا کی ساری ترقی پذیر و ترقی یافتہ اقوام اکیسویں صدی میں اپنی ترقی و خوشحالی اور آزادی و خودمختاری کو اگر ایک طرف جدید سائنسی تحقیق و جستجو سے مشروط کر رہی تھیں تو دوسری طرف سماجی و عمرانیاتی مسائل کے حل کی خاطر نت نئی تحقیقات کے لئے بھی مصروف عمل تھیں اور سماجی بہتری و بنیادی انسانی حقوق و آزادیوں کے لئے بھی کوشاں نظر آتی تھیں۔

پاکستان میں تحریک بحالیٔ جمہوریت ( ایم آر ڈی) ختم ہو چکی تھی۔ آم پھٹنے کے بعد یوں محسوس ہو رہا تھا گویا تمام قومی مسائل ختم ہو گئے ہیں۔ مزدور، طلبہ، کسان، وکلا، ڈاکٹرز، صحافی، حقوق نسواں کی علمبردار، نوجوانوں اور فنکاروں کے حقوق اور بہبود کی انجمنوں سمیت تمام تر سماجی، سیاسی و جمہوری قوتیں جو تحریک بحالئی جمہوریت (ایم آر ڈی) کے دوران متحرک و منظم نظر آتی تھیں انہوں نے شاید سمجھا کہ چلے گئے تھانیدار اب ڈر کاہے کا۔ جھٹ ستو کے پیالے پیئے اور لمبی تان لی۔ مشروب مغرب نہ سہی مشروب مشرق ہی سہی۔

اب نہ رجعت پرستی کی پرواہ تھی نہ سبز سرخ کا جھگڑا۔ راوی چین کی بانسری بجا رہا تھا۔ اب ریڈیو پر ”مت بول پی پی مورے انگنا“ بھی بج سکتا تھا اور ٹی وی پر اسلم اظہر کا نام بھی شجر ممنوعہ نہ تھا۔ نہ مہتاب چنا (مہتاب اکبر راشدی) کو ننگے سر میزبانی پر پروگرام چھوڑنا پڑتا تھا، نہ خبرنامہ پڑھنے کے لئے دوپٹہ ضروری تھا۔ دھڑادھڑ ٹی وی چینلز کھل رہے تھے۔ صدر محفلوں میں طبلے بجا رہا تھا اور ثقافت وطن کی زلف گرہ گیر کے اسیر وزرا رنگین حویلیوں میں من پسند ثقافتی طائفے تشکیل دے رہے تھے۔ ریاستی منظر نامے پر غیر سیاسی اور عین سیاسی باریاں لگوائی جا رہی تھیں۔

ن م راشد کے بقول جہاں زاد وہ سال ایسے گزرے جیسے شہر مدفون پہ وقت گزرے۔ سماجی مدہوشی اور بیگانگی کے اس دور میں اگر کوئی ہوش میں تھا تو وہ زمین پاک کے اصل قابضین تھے جن کا سماجی شعور اپنی جولانی پہ تھا ان کی عقابی نگاہوں نے تاڑ لیا تھا کہ آنے والے کل کے لئے آج انہوں نے کیا کرنا ہے اور وہ ستاروں پہ کمند ڈالنے کے لئے امریکن کمپنی کی زرعی دوا میں چھپے پیغام کو ازبر کر کے اپنے مفادات و منفعت کو دوام دینے کے لئے کوشاں ہو گئے۔ انہوں نے اپنے مفادات کی فصل کا خاکہ سائنسی بنیادوں پر تیار کیا۔ اس کے فوائد، نقصانات، اس کی راہ میں میں درپیش مشکلات اور اس کو بارآور بنانے کے لئے موجود موافقت کا اندازہ لگایا اور پھر اپنے مفادات کی فصل کے چنیدہ پھلوں کو آموں کی مانند پھٹ کر برباد ہونے سے بچانے کے لئے مصروف عمل ہو گئے۔

فصل کی بوائی سے پہلے انہوں نے گڈائی کا عمل شروع کیا۔ امریکی زرعی دوا کے لیبل پر درج ہدایات کے مطابق عمل کرتے ہوئے انہوں نے پہلے مرحلے میں ان نباتاتی جڑی بوٹیوں کا پتہ لگانا تھا جن کی دھرتی میں موجودگی ان کی حسب خواہش فصل کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ اس کے لئے موجود مزارعوں کو نہ صرف تربیت دے کر منظم کیا بلکہ باقاعدہ ادارے تشکیل دے کر انہوں نے جدید سائنسی انداز میں سبز دھرتی پر پیلے اسپرے کا آغاز کیا۔

اس کے نتیجے میں دھرتی کے تحفظ اور زرخیزی میں معاون جڑی بوٹیوں اور دھرتی موافق حشرات کو تیزی سے تلف کیا گیا۔ پیلے اسپرے میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو درس عبرت بنا دیا گیا یا دھرتی سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ ان میں سے کچھ مزارعوں سے وفاداری کا ازسرنو حلف لے کر دوبارہ دیگر مزارعوں سے میل جول کے لئے بظاہر کھلا چھوڑ دیا گیا تاکہ وقتاً فوقتاً عام مزارعوں کی ذہن سازی بھی کی جا سکے اور اپنے خلاف اٹھنے والی کسی بھی آواز کو بروقت دبایا جا سکے۔

مختصر یہ کہ آج پاک زمین کی اصل ملکیت کے با اثر اور بظاہر طاقت ور دعویدار صرف اپنے سائنسی رویے کی بدولت اپنی فصل کے گل کھلا چکے ہیں۔ عوام کی سوچ کو منتشر کر کے انہیں ایسے دھارے پر لا چکے ہیں کہ سرسبز دھرتی پہ امر بیل چوسی پیلاہٹ کے غلبے کو وہ محسوس تو کر سکتے ہیں لیکن اس کے خلاف آواز بلند کرنے کا حوصلہ بظاہر ان میں نہیں رہا ہے اور رجعتی دور کا ستو پی کر سوئے ہوئے، طویل مدہوشی کے بعد اگر جاگ بھی گئے تو اصحاب کہف کی مانند نہ ان کا دور ہوگا، نہ بازار میں ان کا سکہ چلتا نظر آئے گا اور نہ ہی دوبارہ آم پھٹنے کا کوئی چانس رہے گا۔ کیونکہ ستو پی کر سوتے رہنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس بار بے سوچی سمجھی آم کی فصل نہیں، بلکہ سوچی سمجھی بھنگ کی فصل کاشت کی گئی ہے جو ستو کی طرح سلاتی نہیں، بلکہ اس طرح جگائے رکھتی ہے کہ جاگنے والوں کو ہر طرف ہرا ہرا ہی نظر آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).