پنجاب میں افسران کی تبدیلی کی لہر برقرار


ہم ماضی میں نظر دوڑائیں تو عمران خان کنٹینر پر کھڑے ہو کر اکثر و بیشتر اس وقت کے آئی جی پنجاب کو کچھ اس طرح سے مخاطب کرتے تھے ”او آئی جی میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا“ ۔ اس وقت ان کی یہ بات سن کر لگتا تھا کہ شاید آئی جی پنجاب ان کے ساتھ کوئی زیادتی کر رہے ہیں جس کی وجہ سے عمران خان اتنے غصے میں بولتے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کا مطلب حکومت میں آنے کے بعد کسی بھی آئی جی کو اپنے عہدے پر ٹکے نہیں رہنا دینا، ان کو کام کرنے کے قابل نہیں چھوڑنا تھا۔

حکومت میں آنے کے بعد پنجاب پولیس کی ساکھ کو بہتر کرنے کے لیے مختلف آپشنز پر غور ہونے لگا۔ اس وقت آئی جی پنجاب کی سیٹ پر کیپٹن (ر) عارف نواز تھے جنہیں 13 جون 2018 کو عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ ڈاکٹر سید کلیم امام کو آئی جی پنجاب تعینات کیا گیا جو بمشکل ہی تین ماہ اپنے عہدے پر قائم رہے اور انہیں 11 ستمبر 2018 کو عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ محمد طاہر خاں کو آئی جی پنجاب کا عہدے پر بٹھا دیا۔ محمد طاہر صرف ایک ماہ آئی جی پنجاب کے عہدے پر رہے اور انہیں 15 اکتوبر 2018 کو عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ امجد جاوید سلیمی کو آئی جی پنجاب کے عہدے پر بٹھایا گیا۔

خیال یہ کیا جاتا رہا ہے کہ امجد جاوید سلیمی پولیس کے محکمہ کو ٹھیک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن یہ خوش فہمی بھی اس وقت کھڈے لائن لگ گئی جب ٹھیک 6 ماہ بعد انہیں بھی آئی جی کی سیٹ چھوڑنے کا کہا گیا اور ان کی جگہ 17 اپریل 2019 کو ایک دفعہ پھر کیپٹن (ر) عارف نواز کو آئی جی پنجاب کا چارج دے دیا گیا۔ دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کی حکومت میں عارف نواز ایک سال میں دوسری دفعہ آئی جی پنجاب کے عہدے پر فائز ہوئے۔

ابھی وہ اپنے ہنی مون پیریڈ میں ہی تھے کہ ایک دفعہ پھر سے آئی جی پنجاب کو تبدیل کرنے کی لہر نے سر اٹھایا اور بالآخر 28 نومبر 2019 کو عارف نواز کو آئی جی پنجاب کے عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ شعیب دستگیر کو آئی جی پنجاب تعینات کر دیا گیا۔ ان دو سالوں میں آئی جی پنجاب کے عہدے پر سب سے زیادہ وقت شعیب دستگیر نے گزارا اور آج 10 ماہ بعد ان کو بھی اس وقت آئی جی پنجاب کے عہدے سے ہٹایا گیا جب ان کی ریٹائرمنٹ میں صرف 4 ماہ باقی تھے۔ شعیب دستگیر کی جگہ انعام غنی کو آئی جی پنجاب کے عہدے پر تعینات کر دیا گیا۔ یہ صرف پولیس کے محکمے میں ایک آئی جی کے عہدے کے لیے لڑی جانے والی لڑائی تھی جو 2 سالوں میں 5 آئی جیز کو تبدیل کروا گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب کی کابینہ کا حال اس سے بھی برا ہے۔

حکومت پنجاب نے اقتدار میں آنے پر صوبائی کابینہ تشکیل دی۔ سول اور پولیس بیوروکریسی میں تبادلوں کا پہلا راؤنڈ ستمبر 2018 میں اور دوسرا نومبر 2019 میں مکمل کر کے بیوروکریسی میں ہلچل مچا دی۔ عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والے لاکھوں روپے افسران کے ٹی اے اور ڈی اے پر خرچ کیے گئے۔ پنجاب کی کابینہ میں وزیر اطلاعات کو تین بار تبدیل کیا گیا جس کے بعد گھوم پھر کر پھر سے وزیراطلاعات کا قلمدان فیاض الحسن چوہان کو سونپا گیا۔

محکمہ خوراک پہلے سمیع اللہ چوہدری کو سونپا گیا پھر سینئر وزیر علیم خان کو وزیر خوراک بنایا گیا۔ نیب گرفتاری کے بعد علیم خان اور سبطین خان اپنی وزارت سے مستعفی ہوئے لیکن ضمانت منظور ہونے کے بعد علیم خان کو سینئر وزیر اور خوراک کی وزارت کا قلمدان پھر سے سونپ دیا گیا اور سبطین خان کو محکمہ جنگلات کا قلمدان دوبارہ مل گیا۔ اس کے ساتھ ہی اسد کھوکھر نے اپنی وزارت چھوڑ دی ہے۔

موجودہ حکومت نے حلف اٹھانے کے بعد اکبر حسین درانی کو تبدیل کر کے یوسف نسیم کھوکھر کو پنجاب کا پہلا چیف سیکرٹری مقرر کیا۔ پھر یوسف نسیم کھوکھر کو تبدیل کر کے اعظم سلیمان کو چیف سیکرٹری تعینات کیا۔ اس کے بعد تبدیلی نے پھر چیف سیکرٹری کی طرف اپنا رخ کیا اور اعظم سلیمان کو تبدیل کر کے جواد رفیق ملک کو چیف سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کی آسامی پر تعینات افسر کو تین بار تبدیل کیا اور بالآخر بابر حیات تارڑ کو اس کی ذمہ داری سونپ دی۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے اپنے ضلع ڈی جی خان اور لاہور کے کمشنرز کو بھی چار چار بار تبدیل کیا گیا۔ اس وقت ساجد ظفر کمشنر ڈی جی خان تعینات ہیں جبکہ کمشنر لاہور کی آسامی ابھی تک خالی پڑی ہے۔

محکمہ ہائر ایجوکیشن کے سیکرٹری کو آٹھ بار، محکمہ سکول اور آبپاشی کے سیکرٹریز کو سات سات بار، محکمہ فوڈ سروسز، لائیو سٹاک، ماحولیات اور ٹرانسپورٹ کے سیکرٹریز کو پانچ پانچ بار تبدیل کیا۔ محکمہ کو آپریٹو، ایکسائز اور محکمہ بلدیات کے سیکرٹریز چار چار بار تبدیل کیے گئے۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم اور محکمہ اطلاعات کے سیکرٹریز بھی تین تین بار تبدیل ہوئے۔

کوئی بھی حکومتی عہدے دار یا بیوروکریٹ اس وقت کھل کر کام کر سکتا ہے اور عوام کو ریلیف دے سکتا ہے جب اسے دفتر میں کام کرنے دیا جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان جو تبدیلی کا نعرہ لگاتے تھے لگتا ہے کہ انہوں نے افسران کو تبدیل کرنے کا نام تبدیلی رکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).