تعلیمی اسناد کی ویریفیکشن، ریاست کا اپنے نظام پر عدم اعتماد


برسوں پہلے پاکستان میں یہ سننے میں آیا کہ بہت سے لوگوں کو جعلی تعلیمی اسناد جاری ہو گئی ہیں اور یہ اچھا نہیں۔ سنجیدہ مسئلہ تھا اور حل یہ نکالا گیا کہ تمام اسناد کو ویریفائی کروایا جائے تاکہ درست اسناد قائم رہیں اور جعلی کاغذات کی روک تھام ہو۔ یہ کیا گیا اور اس کے بعد طالب علموں اور جاب حاصل کرنے والوں کو ڈگریاں ویری فائی کروانے کا کہا جانے لگا۔ بڑے تعلیمی اداروں میں داخلے سے پہلے اور بیشتر نوکریوں کے حصول پر یہ ڈگریاں ویری فائی کرائی جاتی ہیں۔ اب تو سننے میں آ رہا ہے کہ آئندہ ڈگری الگ ویری فائی ہو گی اور مارکس شیٹ الگ۔

بورڈ اور یونیورسٹیاں رجسٹریشن اور امتحانات کی مد میں پیسے لیتے ہیں اور اب ویری فکیشن کے لیے بھی سینکڑوں روپے چارج کر رہے ہیں۔

شاید پاکستان میں بعض لوگوں کا دماغ ٹخنوں سے بھی ذرا نیچے ہے۔ مسلسل ڈگریاں ویری فائی ہونا آپ کے لیے محض پیسے کا حصول ہو گا مگر یہ آپ کے تعلیمی نظام کے منہ پر طمانچے سے کم نہیں کہ آج تک آپ کی ڈگریاں مشکوک ہیں۔

ارے بھئی جب پہلی بار یہ مسئلہ سامنے آیا تھا تو پہلے سے جاری شدہ ڈگریوں کو تو ویری فائی کرنا ہی تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ایسا نظام ڈویلپ کرنا تھا کہ جعلی ڈگری جاری کرنا ممکن ہی نہ رہ سکے اور ویری فیکیشن کی ضرورت ہی نہ پڑے، آپ کی جاری شدہ ڈگریوں پر سوال ہی نہ اٹھ سکے کہ یہ جعلی بھی ہو سکتی ہے، الٹا آپ نے عزت و وقار کی قیمت پر پیسے کمانے شروع کر دیے۔ یعنی آج بھی جعلی ڈگری کا اجرا ممکن ہے اور اگر جعلی ڈگری کا اجراء ممکن ہے تو کیا بعید کہ جعلی ویری فکیشن بھی جاری ہو رہی ہو۔

دوسری بات ایک طالب علم یا اس کے ماں باپ اپنی محنت کی کمائی سے بچے کو پڑھاتے ہیں، وہ آپ کی رجسٹریشن، فیس فنڈز سب دیتا ہے۔ اگر وہ کسی جگہ نوکری پر جا رہا ہے اور اس سے ڈگری کے اصل یا نقل ہونے پر ویری فکیشن مانگی جا رہی ہے تو یہ اس کا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ جس کو ڈگری پہ شک ہے وہ ویری فائی کروائے اگر غلط نکلے تو اخراجات کیا مکمل قانونی شکنجہ ڈالے اس بچے پر۔ مگر اگر صحیح ثابت ہو تو بچے کا کیا قصور ہے کہ وہ دو دوبار خرچ بھرتا پھرے۔
یہ تماشا پاکستان میں ختم ہونا چاہیے۔ ان کو صرف پیسے کا حصول نظر آ رہا ہے، تعلیمی اداروں کی ساکھ اور امیدوار کی عزت نفس دونوں کا بھرکس نکل چکا ہے۔ خدا کے لیے اس پر توجہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).