اشفاق احمد: ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے


داستاں گوئی بھی شاید زبان دانی کے جتنا ہی پرانا فن ہے۔ یا داستاں گوئی کا تعلق سفر و سیاحت کے ساتھ شروع ہوا کہ جو باہر کی دنیا دیکھ کر آئے وہ واپسی پہ اپنے سفر کی داستاں بیان کرتے یا پھر داستاں گوئی کا آغاز ماں کی اس لوری سے ہوا ہو گا جس میں وہ بچے کو مختلف حکایات سنا کر تربیت کا پہلو بھی پورا کرتی رہی۔

حکایت اور معانی خیز کہانی ہمیشہ ہی براہ راست نصیحت سے زیادہ کار گر ثابت ہوئی ہے۔ جیسے مولانا روم نے حکایات کا حوالہ دے کر مثنوی کے کئی باب منور کیے یا جیسے سعدی نے حکایات بیان کیں جس سے آج بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔ ان کا حکایات کا اسلوب ایسا اثر انگیز اور دل پذیر ہے کہ پوری داستاں کا مطلب، خلاصہ، نتیجہ اور پیغام پوری طرح سننے والے تک پہنچ جاتا ہے۔

داستاں گوئی اور داستاں نگاری میں جو ملکہ بابا جی اشفاق صاحب مرحوم و مغفور کو حاصل تھا وہ شاید ان کے ہمعصر لوگوں میں نہیں پایا جاتا۔ کیونکہ وہ زبان دان بھی تھے، دنیا بھی دیکھ چکے تھے اور ایک شفیق ماں کی طرح معاشرے کو سمجھا بھی رہے تھے۔ ان کی زباں سے ادا ہونے والے الفاظ جب کسی حکایت یا کہانی کا روپ لیتے تو سننے والے کی سماعتوں کے ذریعے ایک سے ایک نئے عقدے کھولتے چلے جاتے۔ زباں دانی پہ ایسا عبور کہ کوئی لفظ بھی روزمرہ کی بول چال سے باہر نہ جاتا لیکن اس کے باوجود ان کی زباں سے ادا ہونے والا ہر ہر لفظ خاص ہوتا جاتا۔

اپنی والدہ کی کہی ہوئی باتیں ہوں، گورنمنٹ کالج کا تذکرہ ہو، لڑکیوں سے زیادہ نمبر لینے کی ضد ہو، ولایت کا سفر ہو، خوشگوار موسم میں بانو قدسیہ کو ریڈیو ٹرانسمشن سمجھانا ہو، عدالت میں پیشی کا احوال ہو، بابا نور سائیں کے نوٹ کا بیان ہو، ابن انشاء کے ساتھ خواندہ اور ناخواندہ کا مباحثہ ہو یا پھر صوفیاء اور اولیاء اکرام کے ملاحظات ہوں، ہر بات کو ایسے بیان کیا کہ سننے والے کے ذہن میں یہ تمثیل عمر بھر یاد رہے گی۔

بابا جی اشفاق صاحب نے لفظ، بابا، کی ایک نئی تعریف دی جو ہمارے معاشرے کے ہر طبقے اور ہر نقطہ نظر والے کو ٹھیک لگی۔ یہاں تک کہ آستانوں اور درگاہوں میں بھی اس لفظ بابا کی صدا گونجی اور اسی نہج پہ لوگوں کی ذہن سازی بھی کی گئی۔ ان کے بیشمار جملے لوگوں کو ازبر ہیں اور آج بھی سنجیدہ سکرپٹ میں کہیں نہ کہیں ان کی جھلک نظر آتی ہے۔

داستاں گوئی کا یہ علمی جھرنا بند ہوئے 16 برس بات بیت گئے۔ اور آج بھی وہ ٹیلی فون کال یاد ہے جس میں انہوں نے اپنی ناسازی صحت کا ذکر کیا اور چند دن بعد ملاقات کا عندیہ دیا۔ ان کے سامنے دو زانو بیٹھ کر داستان سننے کی حسرت، حسرت ہی رہ گئی۔ وہ ایک ایسا چشمہ تھے جس سے کوئی بھی خالی ہاتھ یا تشنگی لے کر واپس نہیں جاتا تھا بلکہ اپنی بساط اور وسعت کے مطابق سیر ہوتا تھا۔

جیسے محبوب کا ناپسند بھی پسند ہوتا ہے، جیسے اپنے پلے سے نہیں، رب کے دیے سے دینا ہوتا ہے یا جیسے مباحثے میں دلیل روک کر بندہ بچانا ہوتا ہے ایسے ہی آج سب کو مل کر پھر سے نئے جذبے سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور کام بھی کیسا، وہی کام جیسا کہ بابا جی اشفاق صاحب خود فرما گئے کہ: اللہ آپ کو آسانیاں عطا کرے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).