دھرتی پر دھرے خوابوں کے ٹوٹے کانچ


”پہ کټ کی مات بنګړی د چا پراتہ دی“۔ کھاٹ پر پڑا ٹوٹا کانچ کس کا ہے۔ پشتو شعر کا یہ مصرعہ دل لے گیا تھا۔ دل پہلے ہی بے تاب تھا۔ دیوانہ سا ہو گیا تھا۔ شاعر غریب کیا کہہ رہا تھا۔ کون سن رہا تھا۔ آنکھوں میں خواب اتر آئے تھے۔ جوانی کی خواب رنگین ہوتے ہیں۔ تب دل اور طرح دھڑکتا ہے۔

کڑکتی دھوپ دوست سی ہوئی لگا کرتی تھی۔ ہم پیدل پھرا کرتے تھے۔ راستے پیروں کی دھول ہوتے تھے۔ میلوں چل کر دیکھتے تو کہاں چل کے کدھر پہنچے ہوتے۔ اکثر خیبر ایجنسی، جس کے پتھر، کیکر اور قہوہ ہاتھ پکڑ کر پاس بٹھا لیتے تھے۔ ”لیونو گرمی سہ نہ وئی“، جھلیو تمھیں گرمی کچھ نہیں کہتی۔ رنگ دیکھو کالے ہو گئے۔

ہم دوست اک دوسرے سے چھپ کر حسینوں کا سوچا کرتے تھے۔ جب دیکھتے یا حسینوں سے سامنا ہوتا تو سائیڈ بدل جاتے۔ تھوڑے شرمندہ سے، گھبرا کر گال لال ہو جاتے۔ پھر ہمت پکڑتے۔ نکل پڑتے۔ یونیورسٹی ٹاؤن میں بہت سے دفتر تھے۔ افغان مہاجروں کی خدمت، مدد کرنے یا انہیں لڑانے آئے بہت گورے وہیں رہتے تھے۔

ہمیں گوروں سے کیا لینا تھا۔ گوریوں کو دیکھا کرتے۔ کس کے پاس کون سی گاڑی ہے کدھر سے کدھر جاتی ہے۔ کون سائکل پر پھرتی ہے۔ سب پتہ تھا۔ بات کرنے کی جرات ہمت کدھر تھی۔ نامعلوم زبانوں میں تب گیت سنا کرتے تھے۔ چھپ چھپ کر شاعری پڑھا کرتے۔ تب بھی پتہ تھا کہ غزل حسینوں کو باتیں کہنے کی خفیہ کوڈنگ ہے۔

مشر نے ہمارے حالات دیکھے تو اک دن اعلان کیا کہ سب باجماعت ٹنڈ کرائیں گے۔ اب بہت سارے گنجے اکٹھے گھومیں پھریں۔ تب ہی پتہ نہیں ہمسائے میں کیا چوری ہوئی۔ مالکن نے کہا ان گنجوں نے ہی کی ہو گی۔ مشر کو ہم نے رج کے مدولا تھا پھر۔ اس نے کہا کمبختو چلو یہ تو پتہ لگا کہ شکل بھی چوروں جیسی ہو تو الزام لگ جاتے ہیں۔

مشر سے حاجی صاحب زیادہ پیارے لگے تھے۔ انہوں نے ہی پشتو متل سنا کر تسلی دی کہ ”زہ بچئے غل شہ خدائے دے مل شہ“۔ جا پتر چور ہو تیرا رب راکھا۔

اس متل کی کوئی لاج تو رکھنی تھی۔ تو لیڈیز کلب میں چور براتی بن کے شادیاں کھانے پہنچ جاتے۔ اپنے ہی سکول کی مس نے پکڑا۔ بزتی کی پھر مہندی دیکھنے بٹھا دیا۔ وہیں ہمارا ڈاکٹر اک حسین کو تاڑ کر بیٹھا تھا۔ سب نے ہی پھر اسی کی طرف منہ کر کے نیت باندھی۔

پھر رل مل کر لائن مارنے کے پروگرام بنے۔ پہل کس کی ہو گی۔ کیسے ہوگی۔ طے ہو گیا خط لکھا جائے گا۔ کس کی طرف سے اس کا فیصلہ پھر مشر نے کرایا۔ ڈاکٹر کے بال تھے ہم دو گنجے تھے۔ گنجے رہ گئے۔ ڈاکٹر کے لیے خط اپنے ہاتھ سے لکھنا پڑا۔ دوسرے گنجے کے ذمے اس کو دوبارہ خوش خط لکھنا آیا۔

کافی شرمناک سے جملے تھے جو یاد رہ گئے ہیں۔ وہ یہ تھے کہ تم بارش میں بھیگی دھوپ سی حسین ہو۔ تمھاری چپ ہمیں آواز مارتی ہے۔ خط پکڑا گیا، پھر اپنی مس کے سامنے کھڑے تھے۔ کھڑپینچ کو اس دن سینڈل پڑتے رہ گئے۔ وہ ہی بارش دھوپ میں گیدڑ کی شادی کی تفصیل بیان کر رہا تھا۔

اس حسین نے کہا کہ دیکھو تم سب مجھ سے بہت چھوٹے ہو۔ تمھیں بھی خط آئیں گے۔ بس نام بناؤ کام کرو کامیاب ہو۔ اسی راستے پر چلتے تمھیں تمھارے خط مل جائیں گے۔ دل ہی ٹوٹ گئے تھے ہمارے۔

زندگی اپنے چیلنج لے کر آتی رہی۔ حسین خطوں کا انتظار رہا۔ پھر ختم ہو گیا۔ حسین پھر خود ہی آ گئے۔ تب تک لفظ معنی بدل گئے تھے۔

اب لوگ پیارے لگتے تھے۔ یار ہمارے سارے لگتے تھے۔ اب دھرتی دکھ کہتی تھی۔ بتاتی تھی کہ وہ تمھاری متل نہیں میری دعا تھی کہ ”زہ بچے غل شہ خدائے دے مل“۔ جا بچے چور ہو تیرا رب راکھا۔ تم چور ہی ہو گئے۔ میں نے یہ بھی قبول کیا، تم میرے نہ ہوئے۔ یہ نہیں منظور۔ سنتے ہیں جواب نہیں دیتے۔

بارش میں بھیگی دھوپ سی حسین دھرتی بھی ہے، یہ تو پھر مہکتی بھی ہے۔ لیکن اسے نہیں کہتے۔ نہ کہہ کر بھی اس کی چپ آوازیں دیتی ہے نہیں سنتے۔

اب وہ شعر سنیں جو خاطر آفریدی سے بھی منسوب ہوا۔ خمداللہ جان بسمل نے کہا ”بسملہ تا خو وی چی شیخ یمہ زہ پہ کټ کی مات بنګړی د چا پراتہ دی“۔ بسملہ تم تو کہتے تھے شیخ ہوں، یہ کھاٹ پہ ٹوٹی چوڑیاں کس کی پڑی ہیں۔
اب اپنی محبوب دھرتی کو کیا اور کیسے بتائیں۔ ہمارے زاہد ہمارے شیخ ہمارے میر کارواں کیا نکلے۔ دھرتی پر ہمارے خوابوں کی ٹوٹی کانچ پڑی ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi