جسے پہاڑ سے ندا آتی ہے وہ کہاں غائب ہو جاتا ہے؟


پیارے بچو۔ ہماری آج کی حکایت مشہور داستان ”آرائش محفل“ سے لی گئی ہے جسے ”قصہ حاتم طائی“ بھی کہتے ہیں۔ اس قصے میں حاتم طائی کے سات سفروں کا بیان ہے جو اس نے ایک دوشیزہ کہ حسن بانو کہلاتی ہے، کا رشتہ ایک شہزادے کہ منیر شامی کہلاتا تھا، سے کروانے کے لیے کیے تھے۔ آج ہم حسن بانو کے پانچویں سوال کا حال پڑھیں گے۔

راویان شیریں بیان کہتے ہیں کہ ایک شہر میں حسن بانو نامی ایک دوشیزہ رہا کرتی تھی۔ اسم بامسمیٰ تھی کہ واقعی حسینوں کی شہزادی کہلانے کے لائق تھی۔ باپ اس کا سوداگر تھا اور امرا میں نامی تھا اور حسن بانو اس کا ہاتھ بٹاتی اور اس کے لیے دیس دیس کی خبریں اکٹھی کرتی تھی۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ایک شہزادے منیر شامی نامی کو کہ سات برس سے مدرسے میں تعلیم حاصل کر رہا تھا، خدا نے یہ دن دکھلایا کہ ناگہانی اس کا امتحان پاس ہو گیا اور مدرسے نے اسے فارغ الخط کر دیا۔

وہ حیران پریشان پھرا کہ قسمت نے یہ کیا دن دکھلایا، کہاں ہر روز شب عید اور رات شبرات تھی، اور یہ وقت آیا کہ سب خالائیں پھوپھیاں سر ہوئی ہیں کہ کہیں ملازمت کرو کہ تمہارے سر پر ہم اپنی نور نظر و لخت جگر کا سہرا باندھیں۔

ایک دن وہ ملازمت تلاش کرتا کرتا اس سوداگر زادی کے پاس پہنچا۔ نیت اس کی ملازمت کرنے کی نہیں تھی کہ اسے اپنی عم زادیوں سے خوف آتا تھا اس لیے کسی سے سفارش نہیں کروائی تھی۔ لیکن جب وہ جاب انٹرویو کے لیے پہنچا اور حسن بانو کا جلوہ دیکھا تو اسے اپنی عم زادیاں اس کے پاؤں کی خاک لگیں۔

ادھر حسن بانو کو اس ہونق سے نوجوان سے جان چھڑانے کا کوئی طریقہ سمجھ نہ آیا کہ وہ اس کے پاؤں پڑ گیا تھا اور عزائم اس کے مزید بلند دکھائی دیتے تھے۔ حسن بانو نے منیر شامی کو پروبیشن پر رکھ لیا اور سات سوال اس کے سپرد کیے کہ ان کا پیکیج بنا کر لاؤ تو جاب تمہاری اور ماہانہ دو سو اشرفی پاؤ گے۔ منیر شامی کے مارے خوشی کے ہاتھ پاؤں پھول گئے کہ ہیں شربتِ وصل کے ساتھ تنخواہ بھی ملا کرے گی۔

اس بدنصیب نے فوراً ہاں کر دی اور سوالات اٹھا کر باہر نکلا۔ اب اس نے سوالات پر نگاہ ڈالی تو اس کا سر چکرایا۔ آج تک اس نے دھیلے کا کام نہیں کیا تھا اور یہ سوال ایسے تھے جن کا مقصد ہی اسے فیل کرنا دکھائی دیتا تھا۔ وہ وہیں سے سیدھا نزدیکی تکیے پر گیا اور ایک درخت کے سائے تلے بیٹھ کر رونے لگا۔

کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ ادھر سے حاتم طائی کا گزر ہوا۔ اس نے شہزادہ منیر شامی کی حالت پر رحم کھایا اور سوالات کے جواب تلاش کرنے پر راضی ہوا۔

پہلے چار سوال تو حاتم طائی نے بصد مشکل حل کیے لیکن پانچواں سوال تھا کہ ”سننے میں یوں آیا ہے کہ ایک پہاڑ سے ندا آتی ہے اس لیے اس کا نام کوہ ندا پڑ گیا ہے۔ اب خبر لا کہ آواز کرنے والا کون ہے اور پہاڑ کے اوپر کیا اسرار ہے“ ۔

طرح طرح کی صعوبتیں برداشت کرتا اور لوگوں کی مدد کرتا ایک مدت بعد بالآخر حاتم کوہ ندا کی راہ پانے میں کامیاب ہوا۔ اس پہاڑ کے دامن میں ایک شہر آباد تھا۔ وہاں کے لوگ اسے حاکم کے پاس لے گئے۔ اس نے اٹھ کر تعظیم کی اور پوچھا اے مسافر تو کہاں سے آیا ہے کیونکہ اس شہر میں سکندر بادشاہ تشریف لائے تھے اب تجھ کو دیکھا۔

حاتم نے کہا کہ مجھ کو حسن بانو نے بھیجا ہے کہ تو جا کر ٹھیک ٹھیک خبر لا کہ کوہ ندا کا کیا ماجرا ہے اور وہ جسے صدا دیتا ہے وہ کہاں جاتا ہے۔ میں نے بہت رنج اٹھائے ہیں اور اب اس بات کا امیدوار ہوں کہ اگر تم اس بھید سے واقف ہو تو عنداللہ کہہ عین بندہ نوازی ہو اور شہزادہ منیر شامی اپنا ہدف ٹھکانے لگانے میں کامیاب ہو۔

حاکم نے کہا کہ کوہ ندا کا راز ایسا نہیں جو سرسری بیان ہو سکے۔ اگر تو چند روز یہاں رہے گا تو معلوم ہو جائے گا۔ کسی کو اپنی زبان سے اس کا ذکر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ جو کرے وہ خود بھی غائب ہو جاتا ہے۔

حاتم کو اس نے ایک عالیشان مکان اور خدام دیے اور وہ رئیسوں کی طرح رہنے لگا اور وہاں کے مرد و زن سے صحبت کا لطف اٹھانے لگا۔ ایک دن وہ سو دو سو لوگوں کے ساتھ شریک محفل تھا کہ ایک آواز اس پہاڑ کی طرف سے آئی ”یا اخی یا اخی“ ۔ اس مجلس میں سے ایک نوجوان خوشرو اٹھ کھڑا ہوا اور پہاڑ کی طرف منہ کیا۔ لوگوں نے اس کے وارثوں کو اطلاع دی کہ تمہارے عزیز کی کوہ ندا سے طلبی ہوئی ہے۔ وہ دیوانہ وار دوڑتے آئے تو دیکھا اس نوجوان کا چہرہ سرخ ہے اور وہ بے اختیار کوہ ندا کی طرف چلا جاتا ہے۔

یہ حال دیکھ کر حاتم حیران ہوا اور پوچھنے لگا کہ اے یارو اس جوان کو کیا ہوا ہے کہ دوڑا جاتا ہے نہ کچھ کہتا ہے نہ سنتا ہے۔ لوگوں نے کہ اس کو کوہ ندا سے آواز آئی ہے اب یہ غائب ہو جائے گا۔ اب حاتم اس نوجوان کی طرف دوڑا کہ اور اسے پکڑ لیا کہ اے بھائی یہ مروت سے بعید ہے جو تو جانے سے پہلے کچھ نہیں بتاتا۔ برائے خدا کہہ کہ تجھے کس نے بلایا ہے جو ہم سب کو چھوڑے جاتا ہے؟ غرض کہ ہر چند حاتم نے سر پٹکا مگر اس نوجوان نے جواب نہ دیا اور ہاتھ جھٹک کر پہاڑ کی طرف بھاگا۔ حاتم بھی لپکا مگر وہ پلک جھپکتے ہی نظروں سے اوجھل ہوا۔

حاتم واپس شہر کی طرف پلٹا اور لوگوں سے پوچھا کہ کیا تمہیں معلوم ہے اس نوجوان پر کیا گزری؟ انہوں نے جواب دیا کہ تو بھی یہیں موجود تھا، جو تو نے دیکھا وہی ہمیں معلوم ہے۔ غرض چھے مہینے حاتم کو وہاں گزرے اور اس دوران پندرہ آدمی پہاڑ پر جا کر غائب ہوئے۔

چھے ماہ بعد ایسا ہوا کہ حاتم اپنے لنگوٹیے یار کے ساتھ شریک محفل تھا جس کا دن رات کا ساتھ تھا۔ یکایک صدا آئی ”یا اخی یا اخی“ اور وہ نوجوان پہاڑ کی طرف متوجہ ہوا۔ حاتم نے اس کا ہاتھ پکڑا اور لاکھ پوچھا کہ تجھے کون لیے جاتا ہے مگر نوجوان نے جواب نہ دیا اور پہاڑ کی طرف لپکتا رہا اور حاتم سے اپنا ہاتھ چھڑانے کو زور کرتا رہا۔ تب حاتم نے کہا کہ اس کے بغیر زندگی بیکار ہے، جہاں یہ جائے گا وہیں میں جاؤں گا۔ یہ کہہ کر وہ بھی نوجوان کے پیچھے پیچھے پہاڑ کی طرف لپکا۔ حاتم بھی اس کے پیچھے دوڑا۔

اوپر پہاڑ کے جو پہنچے تو ایک کھڑکی دکھائی دی۔ حاتم اس نوجوان سے لپٹ کر اس کے ساتھ کھڑکی میں داخل ہوا۔ اندر ایک وسیع سبزہ زار دکھائی دیا۔ بس تھوڑی سی زمین خالی تھی۔ نوجوان نے اس پر پاؤں رکھا اور چت گر پڑا۔ حاتم نے کوشش کی کہ اسے اٹھائے مگر اس کا رنگ زرد پڑا، آنکھیں پتھرا گئیں، ہاتھ پاؤں سخت ہوئے۔ حاتم رونے لگا۔ یکایک زمین پھٹی اور نوجوان اس میں سما گیا اور زمین برابر ہو گئی۔ حاتم جان گیا کہ جس کا وقت پورا ہو جائے اسے کوہ ندا سے صدا آتی ہے۔

اس کے بعد حاتم لاکھ صعوبتیں اٹھا کر واپس حسن بانو کے شہر شاہ آباد واپس پہنچا اور اسے کوہ ندا کی خبر دی کہ وہ ایک ایسا پہاڑ ہے جو کسی کو بھی صدا دے تو وہ غائب ہو جاتا ہے اور پھر دنیا والوں کو دکھائی نہیں دیتا۔ حاتم جیسے چند خوش نصیب ہی ہوتے ہیں جو وہاں سے واپس آ پاتے ہیں باقی وہیں پہاڑ پر مٹی ہو جاتے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar