نوشابہ کی ڈائری 18: کراچی میں کئی خودمختار علاقے وجود میں آچکے ہیں



8 فروری 1994

سارنگ کے آنے سے زندگی کو نئے معنی مل گئے ہیں۔ ماں بن کر احساس ہوا کہ صوفی خدا سے عشق میں ہر شے سے بے گانے کیوں ہو جاتے ہیں، عاشق کے لیے معشوق کی خاطر اٹھائی جانے والی ہر تکلیف راحت کیسے بن جاتی ہے۔ دوسروں کے بچوں کے نام جھٹ سے رکھ دیتی تھی لیکن اپنے بچے کا نام رکھنے کا موقع آیا تو انتخاب مشکل ہو گیا۔ پہلی بار اندازہ ہوا کہ نام بھی اپنے ماضی، تہذیب، عقیدے اور نظریے کے اظہار اور اس سے جڑے رہنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔

بھائی جان کہہ رہے تھے نام ٹیپو، جوہر، غالب یا خسرو رکھو، پھوپھا کا اصرار تھا نام خالص اسلامی ہو جیسے فیض اللہ، نور اسلام۔ سسر کے سپاہ صحابہ والے دوست اکرام صاحب کی تجویز تھی ”معاویہ“ ، دو گھر چھوڑ کر رہنے والے باقر رضوی کی بیگم نے نام حیدر یا جعفر رکھنے کی صلاح دی۔ ذیشان کے دعوت اسلامی والے ماموں ”عطا المصطفی“ اور ”غلام دستگیر“ پر مصر تھے، میں نے ”جیون“ اور میکسم گورکی کے ناول ماں کے کردار ”پاویل“ کے نام پیش کیے، جیون کو سسر نے ہندوانہ نام قرار دے دیا اور ”پاویل“ پایل کی مشابہت کے باعث نسوانی ٹھہرا دیا گیا۔

آخر نوشاد چچا کام آئے ”ہمیں مقامی نام اپنانا چاہئیں، یہ عمل قربت کا سبب بنے گا“ پھر کہنے لگے، ”سچل، پنھل، بچل اور سارنگ“ کتنے خوب صورت نام ہیں۔ ”سارنگ“ اس نام میں مجھے سارے رنگ دمکتے نظر آئے اور پھر ہمارے ننھے مہمان کے برتھ سرٹیفیکٹ پر ”سارنگ ذیشان“ کا نام جگمگا رہا تھا۔ ”اچھا ہے۔ مگر سندھی نام ہے، کوئی مہاجر نام ہوتا تو بہتر تھا“ ذیشان سے یہ سن کر مجھے حیرت ہوئی، ان کی سوچ میں یہ تبدیلی کب آئی؟ ہم پچھلے سال ان کے دوست پریل شاہ کی شادی پر خیرپور گئے تھے تو وہاں سندھی ٹوپی پہن اور اجرک اوڑھ کر کیسی شان سے مجھے دکھاتے ہوئے کہہ رہے تھے، ”لگ رہا ہوں نا مڑس مانڑھوں“ میں نے منہ پر تو کہا تھا، ”کوئی نہیں“ لیکن دل ہی دل میں اپنے سائیں پر صدقے واری ہو گئی تھی۔ اور یہ مہاجر نام کیا ہوتا ہے ”بندو، ببن، ببو، شبن“ جیسے کچھ نام ہی پہچان کروا سکتے ہیں کہ کوئی مہاجر ہے۔

ذیشان کی بدلی ہوئی سوچ ان کے عمل سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ جو شخص سیاست سے کوسوں دور تھا اور ایم کیو ایم اور الطاف حسین پر تنقید کرتا اور ان کا مذاق اڑاتا تھا وہ انتخابات میں ایم کیو ایم کے لیے ووٹروں کی پرچیاں بنا رہا تھا۔ جو کبھی کہتا تھا ”یہ سندھی مہاجر پنجابی سب بکواس ہے، سب پاکستانی ہیں“ اب وہ رات کے اندھیرے میں چوری چھپے دیواروں پر ”جیے مہاجر، جیے الطاف“ لکھ رہا ہوتا ہے۔ الطاف گروپ کے کارکن یہ نعرے چھپ چھپا اور بچ بچا کر لکھتے ہیں۔ دیواروں پر اپنی تنظیم کو زندہ رکھنے کی کوشش میں انھیں پولیس اور رینجرز کے آنے کا بھی خطرہ درپیش ہوتا ہے اور حقیقی والوں کی طرف سے بھی دھڑکا لگا رہتا ہے، چناں چہ نعرے تیزی سے لکھنے کے لیے انھوں نے ایک نیا طریقہ نکالا ہے۔ پورا ”جیے“ لکھنے کے بجائے ”GA“ لکھ کر کام چلایا جاتا ہے۔

ایک صبح میں نے ذیشان کے ہاتھ پر لگی سیاہی دیکھی تو پتا چلا وہ رات گئے تک کیوں باہر رہنے لگے ہیں۔ میں نے سمجھایا، ”ذیشان! یہ سب نہ کریں، آپ ہمارا واحد سہارا ہیں“ تو جذباتی ہو گئے، کہنے لگے ”نوشی! یاد رکھنا ہم مہاجروں کا سہارا صرف ایم کیو ایم ہے، یہ ختم ہو گئی تو سب مل کر ہمیں کچل دیں گے۔ اور میں ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے لیے نہیں اپنی عزت کے لیے یہ سب کر رہا ہوں، تمھیں یاد نہیں اس پولیس والے نے کس طرح میری بے عزتی کی تھی، میں نے اپنے پنجابی باس کے سامنے گورنر حکیم سعید کی تعریف کردی تو سننے کو ملا اس لیے پسند ہے کہ تمھارا مہاجر ہے، اس سے کہو سندھ کا گورنر بن گیا اب تو بھارت کا لباس پاجامہ کرتا پہننا چھوڑ دے۔ اور اس دن وہ رکشے والا کیا کہہ رہا تھا، بھول گئیں۔ اتنے سے عرصے میں بہت کچھ سہہ لیا سن لیا پہلے میں صرف پاکستانی تھا اب میں صرف مہاجر ہوں۔“

اس رکشے والے کی بات پر مجھے بھی بہت غصہ آیا تھا۔ ہم اس شام ڈاکٹر مریم کے کلینک سے آرہے تھے۔ میری حالت کی وجہ سے ذیشان بہت محتاط ہو کر اور آہستہ رفتار سے موٹرسائیکل چلا رہے تھے۔ ایک موڑ مڑتے ہوئے اچانک رانگ سائڈ سے آنے والا ایک رکشہ موٹر سائیکل سے ٹکرا گیا۔ ہم دونوں گرتے گرتے بچے۔ ذیشان تاؤ میں آ کر رکشے والے پر چلانے اور اسے برابھلا کہنے لگے۔ وہ بھی رکشہ سے باہر نکل کر لڑنے لگا۔ اتنے میں لوگ جمع ہو گئے اور انھوں نے بیچ بچاؤ کرایا۔ رکشے والا جاتے جاتے ذیشان سے کہنے لگا ”تمھاری ایم کیو ایم کی دادا گیری کا دور ختم ہو گیا۔ ابی انسان بن کر رہو، یہ ٹشن بازی اپنے علاقے میں کرنا۔“ ہم اس وقت الآصف اسکوائر کے پاس تھے۔ رکشے والا پٹھان تھا، لیکن بیچ بچاؤ کے لیے سب سے پہلے آنے والا وہ بوڑھا بھی تو پختون تھا جس نے آتے ہے رکشے والے کو ڈانٹا تھا، ”بدمعاشی مت کرو، غلطی تمارا اے۔“ جن لوگوں نے بیچ بچاؤ کرایا وہ بھی سب پٹھان ہی تھے۔

انتخابات کے دوران تو لگتا تھا ذیشان نے تن تنہا ایم کیو ایم کو جتوانے کا بیڑا اٹھالیا ہے۔ ہر وقت انتخابی سرگرمیوں میں مصروف، ادھر گھر میں آئے ادھر دروازے کی گھنٹی بجی ”ذیشان بھائی کو بھیج دیں“ میں چڑ جاتی تھی۔ ذیشان کی طرح محلے کے بہت سے مرد، خاص طور پر نوجوان، جو ایم کیو ایم میں نہیں تھے اس کی انتخابی مہم چلا رہے تھے، کیوں کہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کی بڑی تعداد تب تک روپوش تھی۔ انتخابات سے متعلق سارا دستاویزی کام اور مہم کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے میٹنگیں ایم کیو ایم کے دفاتر کے بجائے ان لوگوں کے گھروں کے چھوٹے چھوٹے کمروں میں ہوتی تھیں جن کا ایم کیو ایم سے براہ راست تعلق نہیں تھا۔

انتخابات سے پہلے اشتیاق اظہر کی قیادت میں ایم کیو ایم کے وفد نے کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نصیر اختر سے ملاقات کی تھی، اس ملاقات کو بڑی اہمیت ملی تھی۔ پھر انتخابات سے کچھ دنوں پہلے لگا کہ بہت سے علاقوں سے ایم کیو ایم حقیقی بغیر کسی مزاحمت کے پسپا اور وہاں الطاف گروپ کی واپسی ہو رہی ہے۔ مختلف علاقوں میں دیواروں پر ”اور ہم آ گئے“ کے الفاظ سیاہی سے لکھے نظر آتے ہیں، اور جہاں الطاف گروپ کے کارکنوں کو حقیقی گروپ نے داخل نہ ہونے دیا وہاں دیواروں پر ”آئندہ نہ دیکھوں“ تحریر ہے۔

الطاف گروپ کی اپنے چھوڑے ہوئے علاقوں میں واپسی اور وہاں سے حقیقی گروپ کی رخصتی اقتدار کی پرامن منتقلی تھی شاید۔ دھند چھٹی تو کھلا کہ کراچی دو حصوں میں بٹ چکا ہے، حقیقی گروپ کے پاس لانڈھی، کورنگی، لائنز ایریا، شاہ فیصل کالونی اور ملیر کے علاقوں کا بہت بڑا حصہ آیا اور الطاف گروپ باقی کی مہاجر بستیوں کا مالک بنا۔ الطاف گروپ کے انتخابی دفتر بڑی تعداد میں کھل گئے اور شہر میں انتخابی گہماگہمی نظر آنے لگی۔

جو لوگ مہاجروں کی صرف ایک جماعت ایک قیادت کا فلسفہ اس جوش سے لے کر آگے بڑھے تھے کہ شہری سندھ میں آفاق شاہد، ڈاکٹر سلیم حیدر، شمعون ابرار، عثمان کینیڈی سمیت کسی کو مہاجر سیاست کرنے کی اجازت نہیں تھی انھوں نے کراچی کو یوں بانٹ دیا ہے کہ اب ایک فریق کا دوسرے کی ”زمین“ پر قدم رکھنا خودکشی کے مترادف ہے۔ اتنا اختیار تو صوبائی حکومتوں کے پاس بھی نہیں ہوتا، ہم مہاجروں نے تو صوبے سے بھی بڑھ کر حاصل کر لیا۔ ایک صوبہ نہیں ایک ہی شہر میں کئی رجواڑے۔

عظیم احمد طارق جب اے پی ایم ایس او کے جنرل سیکریٹری تھے اس وقت انھوں نے ایک پمفلٹ لکھا تھا جس میں صوبے کا مطالبہ تھا، مرزا جواد بیگ نے کراچی صوبہ بنانے کی تحریک چلائی، جب ون یونٹ ختم کیا گیا اس وقت بھی بہت سے راہ نماؤں نے کوشش کی تھی کہ کراچی الگ صوبہ بن جائے، صدر یحییٰ خان کو بھی اس پر اعتراض نہیں تھا، یہاں تک کہ میں نے سنا ہے جی ایم سید بھی کراچی کو سندھ سے الگ کرنے پر تیار تھے اور جب ون یونٹ ٹوٹنے اور مغربی پاکستان کے صوبوں کی بحالی کا وقت آیا تھا تو حیدرآباد سمیت اندرون سندھ کے مختلف شہروں کی دیواروں پر نعرہ لکھ دیا گیا تھا، ”کراچی نہ کھپن“ لیکن نواب مظفر، محمود الحق عثمانی اور بعض دوسرے مہاجر لیڈروں نے یہ کوشش ناکام بنا دی کیوں کہ کسی کی زرعی زمینیں اندرون سندھ تھیں اور کسی کا کوئی اور مفاد کراچی کو سندھ سے جوڑنے کا خواہش مند تھا۔ کراچی صوبے کے خواہش مندوں کو مبارک ہو آج کراچی میں کئی خودمختار علاقے وجود میں آچکے ہیں۔

جب الطاف حسین نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو ذیشان کتنے اداس ہو گئے تھے۔ بائیکاٹ یہ الزام لگاکر کیا گیا کہ ایم کیو ایم کو آزادانہ طور پر الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیا جا رہا۔ کتنا کام یاب بائیکاٹ تھا، پولنگ اسٹیشن ویران پڑے تھے، ان ویران پولنگ اسٹیشنوں سے حقیقی گروپ کو جتوانا لاحاصل تھا۔ ایم کیو ایم الیکشن کا بائیکاٹ کر کے بھی کام یاب رہی تھی اور حقیقی گروپ ایک بھی نشست نہ جیت کر اپنی مقبولیت اور نجات دہندہ ہونے کے دعوؤں کے ساتھ منہ کی کھا چکا تھا۔

ایک روز کے وقفے سے صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ہونا تھے۔ میں سارنگ کو دودھ پلا کر سلانے کے بعد آنکھیں بند کیے لیٹی تھی کہ اچانک گلی سے شوروغل کی آواز آئی، دل دھک سے رہ گیا۔ سہمی سہمی دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی کہ ”ہاؤ ہو“ اور سیٹیوں کی بے ہنگم آوازیں تالیوں اور نعروں کے آہنگ میں ڈھل گئیں۔ ”ختم ختم بائیکاٹ ختم۔“ باہر لوگ ہی لوگ جمع تھے، عرصے بعد اتنے نوجوانوں کو ایک جگ اکٹھے دیکھا، جوش، جذبہ، تمتماتے چہرے، گلی سے سڑک تک لوگ ہی لوگ، گھروں سے نکل کر ان میں شامل ہوتے مزید لوگ، خوشی سے دمکتے چہرے، جذبات سے نم آنکھیں۔

عورتیں، لڑکیاں اور بچیاں بھی دروازوں اور چھتوں پر کھڑی تالیاں بجا کر چوڑیوں کی کھنک کی سنگت میں نعروں کا ساتھ دے رہی تھیں۔ خوف کی چادر ایک جھٹکے سے سمٹ چکی تھی، سکوت ایک چھناکے سے ٹوٹ گیا تھا، جو سرعام ایم کیو ایم کا نام لینے سے بھی گریزاں تھے وہ کھل کر اس سے اپنی وابستگی کا اظہار کر رہے تھے۔ اور اگلے دن ایم کیو ایم نے کراچی، حیدرآباد اور میرپور خاص کی اپنی ساری روایتی ستائیس نشستیں لگ بھگ اتنی ہی بھاری اکثریت سے جیت لیں جتنے ووٹوں کے فرق سے وہ پچھلے انتخابات میں جیتتی رہی تھی۔

کچھ روز بعد نوشاد چچا ہمارے چھوٹے سے صحن میں بیٹھے چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے تبصرہ کر رہے تھے، ”میں پنجاب گیا تو وہاں سب کا یہ تاثر تھا کہ کراچی میں لوگ کلاشنکوفوں کی چھاؤں میں صرف خوف کی وجہ سے ایم کیو ایم کو ووٹ دیتے ہیں۔ میں سمجھاتا رہا کہ ایم کیو ایم کے سارے کرتوت اپنی جگہ، جعلی ووٹ ڈلوانے کا الزام بھی درست، مگر اسے ووٹ لوگ اپنی مرضی سے دیتے ہیں۔ جعلی ووٹ بس مقبولیت بڑھنے کے پروپیگنڈے اور ریکارڈ بنانے کے جنون میں ڈلوائے جاتے ہیں۔

میں نے کہا ”جس دن آپ نے یہ حقیقت تسلیم کرلی کہ ایم کیو ایم کو ووٹ کسی ڈر کے بغیر دیے جاتے ہیں اس دن یہ سوال سوچنے پر بھی مجبور ہوں گے کہ مہاجر اسے ووٹ دیتے کیوں ہیں؟ اور آپ اس سوال سے بچے رہنا چاہتے ہیں۔ اب شاید انھیں اس بات پر یقین آ گیا ہو۔ اگر ووٹ کلاشنکوف کے بل پر لیے جا سکتے تو صفر پر ہارنے والی ایم کیو ایم حقیقی کراچی کی کم ازکم چھے سات نشستیں تو جیت ہی لیتی۔“

ایم کیو ایم کے الیکشن جیتنے سے زیادہ مجھے اس بات کی حیرت ہے کہ جب الطاف گروپ کے سارے راہ نما اور کارکن روپوش تھے اور ان کے لیے ٹیلی فون کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ بھی بہت مشکل تھا تو وہ کیسے آپس میں اور الطاف حسین سے رابطے میں رہے؟ ذیشان نے بتایا ”موبائل فون کے ذریعے“ سارنگ کے عقیقے پر پہلی بار موبائل فون دیکھا، ورنہ پہلے اس کے بارے میں صرف سنا تھا۔ ذیشان کے ایک دور کے رشتے دار جو ڈیفنس سوسائٹی میں رہتے ہیں عقیقے میں آئے تھے۔ انھوں نے مصافحے کے نام پر آگے بڑھ بڑھ کر ہاتھ ملانے والوں کے ہاتھوں میں انگلیاں تھما تھما کر جلدی جلدی کھینچنے کے بعد جو پہلا کام کیا وہ موبائل فون کی نمائش تھی۔ یہ بڑا کالے رنگ کا موبائل فون، جسے سب اشتیاق سے دیکھ اور آپس میں کھسر پھسر کر رہے تھے۔ کبھی کار امارت کی نشانی تھی، پھر یہ پہچان پجیرو بنی اور اب نہایت مہنگا موبائل فون یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ یہ جس کے ہاتھ میں ہے پیسہ اس کے ہاتھ کا میل ہے۔

ایک تو مہنگا دوسرے آنے والی کال کے پیسے بھی دینا پڑتے ہیں۔ کچھ دنوں پہلے پیجر آیا تھا تو میری خواہش تھی ہم بھی لے لیں، ذیشان اتنی رات تک باہر رہنے لگے ہیں خیریت تو معلوم ہو جایا کرے گی، لیکن اتنی مہنگی سہولت کا تو ہم جیسے لوگ سوچ ہی سکتے ہیں۔ اب یہ موبائل آ گیا ہے، پیجر پر تو پیغام ہی جاسکتا تھا اس پر تو جب چاہو جہاں چاہو بات کرلو۔ یہ سب تو بس امیروں کے چونچلے ہیں بھئی۔ جو بھی نئی ٹیکنالوجی آتی ہے ایم کیو ایم والے اس سے فوری فائدہ اٹھاتے ہیں۔

پہلے ان کے راہ نماؤں اور عہدے داروں کے پاس پیجر تھا اور اب موبائل فون استعمال کر رہے ہیں۔ یہ سب ہم مہاجروں کے چندے ہی کی برکت ہے۔ میں نے ایک خبر پڑھی تھی کہ ایم کیو ایم والوں پر مختلف موبائل فون کمپنیوں کے ایک ارب روپے کے بقایا جات ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے موبائل فون کتنے زیادہ استعمال کیے ہیں۔ انھیں کیا فکر ہمارے چندے سے واجبات ادا کر دیے جائیں گے اللہ اللہ خیر صلا۔

سارنگ کی آمد کے بعد ذیشان کی آمدنی محدود لگنے لگی ہے، سوچ رہی ہوں کسی اسکول میں ملازمت کرلوں۔ یا بی ایڈ کر کے سرکاری ملازمت کرلوں، میں نے تو شادی سے پہلے طے کیا تھا کہ بی اے کے بعد اردو یا سیاسیات میں ایم اے کروں گی یا فوراً بی ایڈ میں داخلہ لے لوں گی مگر شادی نے یہ خواہش کھٹائی میں ڈال دی۔ کوشش کرتی، کسی سے کہتی سنتی تو شاید ملازمت مل جاتی۔ آپریشن کلین اپ شروع ہونے سے پہلے تک جب ایم کیو ایم اقتدار میں تھی لوگوں کو کس طرح سرکاری اداروں میں بھرا گیا۔

محکمۂ تعلیم، واٹر بورڈ، کے ڈی اے، پاکستان اسٹیل ملز۔ جہاں جہاں ایم کیو ایم کو اختیار اور طاقت حاصل تھی وہاں ایم کیو ایم کے کارکنوں یا ان کے رشتے داروں کو گھسا دیا گیا۔ کتنوں کو تو میں جانتی ہوں جو سرکاری ملازم ہیں مگر دفتر جانے کے بجائے گھر بیٹھے تنخواہ وصول کر رہے ہیں یا ایم کیو ایم کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہ بہ صلاحیت مہاجر نوجوانوں کا مہاجروں کے ہاتھوں استحصال ہے، لیکن اسے کوئی استحصال نہیں سمجھتا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی اہل سندھیوں کا استحصال کر کے اپنے نا اہل جیالوں کو نوازتی ہے، مگر اسے سندھیوں کا استحصال نہیں کہا جاتا۔

سندھ میں پیپلز پارٹی برسراقتدار ہے اور ایم کیو ایم حزب اختلاف میں، خدا جانے دونوں کی سیاست کیا رنگ لائے گی۔ دونوں جماعتوں میں مذاکرات چل رہے تھے تو لگ رہا تھا کہ ایم کیو ایم حکومت میں شامل ہو جائے گی۔ ایم کیو ایم نے تو پی پی پی کے صدارتی امیدوار فاروق لغاری کی غیرمشروط حمایت بھی کردی تھی۔ اس آس میں کہ پی پی اسے سندھ میں حکومت کا حصہ بنا لے گی اور ایم کیو ایم کی مشکلات کم ہوں گی، لیکن یہ حمایت ضائع گئی الٹا ایم کیو ایم نے مسلم لیگ نواز گروپ کو ناراض کر لیا جس کے ساتھ مل کر اس نے الیکشن لڑا تھا۔

نواز لیگ اور مسلم لیگ فنکشنل لیگ سے اتحاد کر کے ایم کیو ایم کی تنہائی دور ہوئی تھی۔ بینا سے کتنے دنوں بعد ملاقات ہوئی۔ امی کے گھر گئی تھی تو کچھ دیر کے لیے اپنی اس کب کی بچھڑی دوست کے ہاں بھی چلی گئی۔ اس نے بتایا کہ وہ چھوٹا گیٹ کے پولنگ اسٹیشن پر ایم کیو ایم کی پولنگ ایجنٹ تھی۔ بتا رہی تھی کہ مسلم لیگ نواز کے پنجابی کارکنان ایم کیو ایم کے کیمپ میں بیٹھے ووٹروں کی پرچیاں بنا اور ان کی راہ نمائی کر رہے تھے۔ کوئی تین سال پہلے تک اس پنجابی علاقے میں ایم کیو ایم کا کارکن جاتا تو جان سے جاتا، اور اب وہاں کے پنجابی ایم کیو ایم کے امیدوار کو جتوانے کے لیے سرگرم تھے۔ یک دم بدلتے منظر، بدلتے تعلق، کتنا حیران کن ہے یہ سب کچھ، لیکن بدلاؤ اس قدر اور اتنی بار آیا ہے کہ کسی کو حیرت نہیں ہوتی۔

 

اس سیریز کے دیگر حصےنوشابہ کی ڈائری 17: عظیم طارق کے قتل پر ہر ایک دکھی ہےنوشابہ کی ڈائری 19: ”یہ بچے ایم کیو ایم میں سیاست کے لیے نہیں لڑنے مرنے آئے ہیں“۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).