انڈیا چین کشیدگی: جب افواج آمنے سامنے ہوں تو دونوں اطراف کے کمانڈر ’ہاٹ لائن‘ پر کیا باتیں کرتے ہیں؟


انڈیا چین سرحد پر کشیدگی کو کم کرنے کے لیے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی جمعرات کو روس کے دارالحکومت ماسکو میں ملاقات ہوئی ہے۔

انڈیا کے وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر نے چینی وزیر خارجہ وانگ یی سے یہ ملاقات شنگھائی کاپریشن آرگنائزیشن کے اجلاس کے موقع پر کی ہے۔ ابھی تک اس ملاقات کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان جون میں وادی گلوان میں پیش آنے والے واقعات سے شروع ہونے والی کشیدگی کے بعد دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی یہ پہلی ملاقات تھی۔

گذشتہ ہفتے چین کے وزیر دفاع ویئ فینگی نے اپنے انڈین ہم منصب راج ناتھ سنگھ سے ماسکو میں ہی ملاقات کی تھی۔

چند روز قبل دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر سرحد پر فائرنگ کرنے کے الزام لگایا تھا۔ یہ 45 سال میں پہلا موقعہ تھا کہ دونوں ممالک کی سرحد پر فائرنگ ہوئی ہو۔ دونوں ممالک کے درمیان اس علاقے میں ہتھیار نہ استعمال کرنے کا معاہدہ ہے۔ تاہم گذشتہ چند ماہ میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

اس تناظر میں نہ صرف انڈیا اور چین وزرائے خارجہ کی اس ملاقات کے نتائج کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں بلکہ روس اور دنیا کے دوسرے طاقتور ممالک کی نگاہ بھی اس ملاقات پر مرکوز ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اگر جمعرات کی بات چیت کامیاب نہیں رہی تو پھر ان دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کی گفتگو کے ذریعے ہی آگے کا راستہ نکلے گا جو فی الحال کئی ماہ سے بند ہے۔

یہ بھی پڑھیے

چین، انڈیا سرحد پر فائرنگ: دونوں ممالک کا ایک دوسرے پر پہل کرنے کا الزام

انڈیا، چین کشیدگی میں روس کس کے ساتھ کھڑا ہوگا؟

کیا روس، چین اور انڈیا کے درمیان ثالثی کرا سکتا ہے؟

چین کے خلاف انڈیا کے پاس کیا فوجی آپشنز ہیں؟

https://twitter.com/ANI/status/1304042031266902021

سرحد پر کشیدگی کے مدنظر اگرچہ بات چیت کا سلسلہ کسی سطح پر بند ہو جاتا ہے لیکن ایک سطح کی بات چیت ہمیشہ جاری رہتی ہے اور وہ ہے ’ہاٹ لائن‘ پر ہونے والی بات چیت۔

ہاٹ لائن ہے کیا؟

اکثر میڈیا میں ایسی خبریں آتی ہیں کہ کشیدہ حالات میں ’ہاٹ لائن پر دونوں ممالک کے درمیان بات چیت ہوئی‘ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ہاٹ لائنز پُرامن ماحول میں بند ہوتی ہیں۔

دراصل ہاٹ لائن دو ممالک کے فوجیوں کے مابین ’ون ٹو ون مواصلات‘ کا ذریعہ ہے۔ عام زبان میں اسے ’اعتماد بڑھانے‘ کے راستے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ ان فوجیوں کے درمیان باہمی رابطے کا ایک ذریعہ ہے جو دو ممالک کی سرحد پر تعینات ہیں۔

انڈیا میں اس طرح کے ہاٹ لائن کے پورے انتظام کی نگرانی ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) کرتے ہیں۔ اس میں پیغام بھیجنے کے اپنے مختص طریقے ہوتے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) ونود بھاٹیا انڈیا کے ڈی جی ایم او رہ چکے ہیں۔ بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے تفصیل سے بتایا کہ یہ ہاٹ لائن کیسے کام کرتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس وقت انڈیا چین ایل اے سی سرحد پر پانچ جگہیں ہیں جہاں ہاٹ لائنز کام کر رہی ہیں:

  • یہ ہاٹ لائن مشرقی لداخ کی سرحد کے قریب دولت بیگ اولڈی اور سپنگور میں ہیں
  • نتھولہ سکم بارڈر کے قریب
  • اور بوملا پاس اروناچل میں اور تبت کے قریب

ہاٹ لائن کا استعمال

’ہاٹ لائن‘ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہوتا ہے، ایک ایسی فون لائن ہے جس کے ذریعے دونوں ممالک کے فوجی سرحد پر ایک دوسرے سے رابطے میں رہ سکتے ہیں۔

سرحد

اس کے لیے افسران کی باقاعدہ ڈیوٹی لگتی ہے۔ ہاٹ لائن کی گھنٹی بجتے ہی سرحد پر تعینات فوجیوں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ فون سرحد پار سے آیا ہے۔ دوسری طرف سے پیغام بھیجا جاتا ہے اور جب موصول کرنے والے فریق کو اس پیغام کا جواب دینا ہو تو وہ بھی اپنی طرف سے ہاٹ لائن استعمال کرتا ہے۔

انڈیا میں ایل اے سی پر تعینات صرف آرمی دستے کے کمانڈر کو ہاٹ لائن پر پیغامات بھیجنے اور وصول کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

ہاٹ لائن پر کس طرح کے پیغامات بھیجے جاسکتے ہیں اس کی ایک مثال حال ہی میں اروناچل پردیش کی سرحد پر دیکھی گئی تھی۔ اس کے بعد سے ہی میڈیا میں ہاٹ لائن پر گفتگو شروع ہو گئی۔

اس بارے میں

انڈیا، چین سرحدی تنازع سے متعلق اہم سوالات کے جواب

‘کیا انڈیا چین کے جال میں پھنس چکا ہے؟’

انڈیا، چین تنازع میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

گذشتہ اتوار کو اروناچل پردیش کی سرحد سے یہ خبر موصول ہوئی تھی کہ مبینہ طور پر پانچ انڈینز کو چینی فوج نے انڈین سرحد سے اغوا کر لیا ہے۔

ایک صحافی نے مرکزی حکومت سے یہ سوال ٹوئٹر پر پوچھا جس پر مرکزی وزیر کھیل کیرن رجیجو نے جواب میں لکھا کہ انڈین فوج نے چینی فوج کو ہاٹ لائن پر ایک پیغام بھیجا ہے اور ان کے جواب کا انتظار ہے۔

ان پانچ انڈینز کو بعد میں چینی فوج نے ڈھونڈ کر انڈیا کے حوالے کر دیا تھا۔

کئی بار سرحد پر پالتو جانوروں کے غائب ہونے پر بھی ایسا ہوتا ہے۔

فوجی

ہاٹ لائنز کا ایسے معاملات میں خصوصی کردار ہوتا ہے۔ چونکہ دونوں ممالک کی سرحد ایسی نہیں کہ کوئی بہت اونچی دیواریں یا باؤنڈری کھینچی گئی ہے ایسے میں اکثر جانور اور بعض اوقات لوگ غلطی سے سرحد عبور کر جاتے ہیں۔

ایسے واقعے کی اطلاع پر سرحد کے دوسری طرف ہاٹ لائن پر بات کر کے معاملہ حل کیا جا سکتا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل ونود بھاٹیا کا خیال ہے کہ امن کے وقت یہ ہاٹ لائن سروس زیادہ اہم ہے اور بارڈر مینجمنٹ کے لیے یہ اس کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔

’ڈِس انگیجمینٹ‘ کا مطلب کیا؟

ان ہاٹ لائنوں کی ایک اور اہمیت ہے اور وہ سرحد پر فلیگ میٹنگ طے کرنا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین باہمی معاملات کو طے کرنے کے لیے فلیگ میٹنگ وقتاً فوقتاً ہوتی ہے۔ میٹنگ کب ہونی ہے کس جگہ اور کتنی دیر تک ہونی ہے یہ سب کچھ اکثر ہاٹ لائن پر ہی طے کیا جاتا ہے۔

لیکن بعض اوقات سرحد کے قریب برفباری ہوتی ہے، آنے جانے میں مشکل ہوتی ہے یا اگر فلیگ میٹنگ والے افسران دوسرے اہم کاموں میں مصروف ہیں اور میٹنگ کو منسوخ کرنے یا آگے بڑھانے کی ضرورت ہے تو وہ معلومات ہاٹ لائن پر بھیجی جا سکتی ہیں۔

فلیگ میٹنگ کے لیے مقررہ میٹنگ پوائنٹ چین اور انڈیا میں ایل اے سی کے دونوں طرف ہے۔

لیکن کیا ان ہاٹ لائنوں پر ’ڈِس انگیجمینٹ اور ڈی ایسکلیشن‘ پر بھی بات ہو سکتی ہے؟ اس سوال پر لیفٹیننٹ جنرل ونود بھاٹیا کا کہنا ہے کہ یہ دونوں باتیں آمنے سامنے بیٹھ کر ہوتی ہیں اور ان ہاٹ لائنوں پر صرف ایسی ملاقاتیں طے کی جاتی ہیں۔

ڈس انگیجمینٹ کے معنی بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سرحد پر جہاں فوجیں آمنے سامنے ہوتی ہیں وہاں سے فوج کی واپسی کو’ ِڈس انگیجمینٹ‘ کہا جاتا ہے۔

’دراصل دونوں ممالک کے سپاہی لائن آف ایکچول کنٹرول کے دونوں اطراف گشت کر رہے ہیں اگر کوئی فوج دوسرے کی سرحد میں داخل ہوتی ہے تو انھیں پہلے ہی متنبہ کردیا جاتا ہے۔ کئی بار فوجی اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے پیچھے ہٹ جاتے ہیں لیکن بعض اوقات فوج پیچھے نہیں ہٹتی اور ایسے میں معاملہ سنگین ہو سکتا ہے۔‘

’ڈی ایسکلیشن‘ کا کیا مطلب ہے؟

جب کشیدگی جاری رہتی ہے جیسا کہ جون کے مہینے سے مشرقی لداخ کی سرحد پر جاری ہے ایسے میں فلیگ میٹنگوں کے ذریعے ڈی ایسکلیشن پر بات ہوتی ہے جو ہاٹ لائن پر طے ہوتی ہے۔

ڈی اسکیلیشن کا مطلب موقع سے فوجیوں کو کم کرنا ہے۔ جب ایل اے سی پر کشیدگی بڑھتی ہے تو کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے دونوں ممالک کی جانب سے فوج بڑھا دی جاتی ہے۔

ڈی اسپیکلیشن اسی وقت ہوتی ہے جب دونوں ممالک اس کے لیے تیار ہوں اور جب باہمی اتفاق سے ڈی اسکیلیشن ہوتی ہے تو آخری عمل شروع ہوتا ہے اور وہ ہے ’ڈی انڈکشن‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب فوجی اپنے پرانے اڈے پر واپس آ جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp