قائد اعظم اور موجودہ پاکستان


قائد اعظم کو وفات پائے 72 برس مکمل ہو گئے۔ قائد اعظم نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر یہ ملک حاصل کیا مگر ہم نے جیتے جی اور ان کے بعد جو ان سے سلوک کیا کم از کم ذی شعور اقوام تو ایسا نہیں کرتیں۔ ہم نے قائد اعظم کے عطا کردہ وطن کو ان کی سوچ کے برعکس چلایا، اس سے زیادہ بڑی احسان فراموشی کیا ہو سکتی ہے۔

قائد اعظم کو ٹی بی کا عارضہ لاحق ہوا 1946 میں۔ انہوں نے اسے راز رکھا تا کہ مسلمانان ہند کے لئے ایک الگ اسلامی ملک کے حصول کے خواب کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔ 1948 کے جون میں قائد کی طبیعت کافی خراب ہوگئی۔ تو ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کو آرام کی سخت ضرورت ہے اور آپ کسی صحت افزا مقام تشریف لے جائیں۔ تو قائد اعظم اپنی ہمشیرہ فاطمہ جناح کے ساتھ زیارت چلے آئے۔ وہاں ان کے لئے نرس بھی رکھی گئی اور ڈاکٹر ان کا معائنہ کرتے رہے۔

پھر انہیں یکم جولائی 1948 کو سٹیٹ بینک کے قیام کی تقریب کے لئے واپس کراچی آنا پڑا۔ اور حاضرین نے محسوس کیا کہ قائد کمزور ہو رہے تھے۔ جولائی کے آخر میں جب وزیر اعظم لیاقت علی خان قائد کی تیمار داری کے لئے زیارت گئے تو قائد نے اپنی بہن کو کہا کہ یہ میری عیادت کے لئے نہیں آئے بلکہ یہ دیکھنے آیا ہے کہ میرے کتنے دن اور باقی ہیں۔ اگست کے آخر اور ستمبر کے اوائل میں قائد کی طبیعت نہایت خراب ہو چکی تھی۔ 9 ستمبر کو قائد کا وزن محض 36 کلو رہ گیا تھا۔ اور قائد کو نمونیا ہو گیا تھا۔ تو قائد کے ذاتی معالج کرنل الہی بخش نے فاطمہ جناح سے مشاورت کر کے انہیں کراچی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ 11 ستمبر 1948 کو قائد کو زیارت سے کوئٹہ لایا گیا اور کوئٹہ سے دوپہر ڈھائی بجے قائد جو سٹریچر پر تھے ان کو لے کر طیارہ کوئٹہ سے کراچی کے لئے روانہ ہوا۔

شام 4 بجے طیارہ ماڑی پور ہوائی اڈے پر اترا۔ قائد کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اور انہوں نے سٹریچر پر سے ہی ان افسران کو سلیوٹ کیا۔ قائد کو سٹریچر پر ایمبولینس میں منتقل کر دیا گیا۔ اس قافلے میں بڑی لیموزین بھی تھی۔ ہوائی اڈے سے تھوڑی دور ایمبولینس خراب ہو گئی۔ قائد گرمی میں ایک گھنٹہ سڑک پر رہے۔ فاطمہ جناح ان کو گتے سے ہوا دیتی اور مکھیاں منہ پر نا آنے دیتی۔ پیچھے ماڑی پور کی بستی تھی مگر وہاں کے مکینوں کو نہیں پتا تھا کہ ان کا قائد سڑک پر بے بس پڑا ہے۔ گھنٹے بعد ایمبولینس آئی اور قائد اعظم کو گورنر جنرل ہاؤس پہنچایا گیا۔ وہاں وہ جا کر پہنچے اور دو گھنٹے سو گئے۔ تقریباً 9 بجے اٹھتے اور فاطمہ جناح سے باتیں کی اور قائد اعظم 11 ستمبر 1948 کو رات کے 10 : 20 پر اپنی ہمشیرہ، ڈاکٹر، نرس اور گورنر جنرل ہاؤس کے عملے کی موجودگی میں خالق حقیقی سے جا ملے۔

حکومت کو اطلاع دی گئی۔ حکومت نے سوگ کا اعلان کیا۔ ان کی بیٹی بھارت سے پہنچی۔ قائد اعظم کا جنازہ 12 ستمبر 1948 کو ہوا۔ اس میں تقریباً 4 لاکھ افراد نے شرکت کی۔ قائد اعظم کو موجودہ جگہ جہاں مزار قائد ہے دفنا دیا گیا اور ایک اونچا ٹیلہ بنا دیا گیا جس کے بعد مزار قائد بنایا گیا ہے۔

قائد کی وفات کے بعد ان کی ہمشیرہ کے ساتھ اس ریاست سے ناروا سلوک رکھا۔ ان کی پہلی برسی پر ان کی تقریر سنسر کی گئی۔ پھر ان کی اپنے بھائی کے بارے میں کتاب پر پابندی لگادی گئی۔ پھر جب وہ صدارتی انتخاب کے لئے کھڑی ہوئیں تو انہیں غدار قرار دیا گیا اور دھاندلی کر کے انہیں ہروایا گیا اور پھر ان کی 9 جولائی 1967 کو ایک پر اسرار موت واقع ہوئی۔

قائد نے کہا تھا کہ سویلینز پالیسیاں بنائیں گے۔ مگر دیکھیے ہم نے کتنا قائد کی بات مانی کہ 33 سال آمریت رپی اور اب بھی جمہوریت تہ سنگ ہے۔ اس قائد کے دیس میں کسی کو بھی بغیر وارنٹ کے مفت میں شمالی علاقہ جات کی سیر کروائی جاتی ہے۔ جو ظلم کے خلاف بولتے ہیں تو انہیں پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے یا اسے مار دیا جاتا ہے یا اسے غدار و کفر کے فتوے جاری کر دیے جاتے ہیں۔

قائد نے اقلیتوں کے حقوق کی بات تھی۔ آپ آج دیکھ لیں کہ کتنے یہاں ہم اقلیتوں کو حقوق دیتے ہیں۔ ایک مندر کی تعمیر پر ہنگامہ کھڑا ہوا۔ خواجہ آصف نے قائد کی سوچ کی بات کی تو ان کے خلاف گستاخی کے مقدمے کی درخواست کی گئی۔ جنہوں نے اقلیتوں کے لئے آواز اٹھائی ان کو کافر قرار دیا گیا اور ان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئی۔

آپ نے کہا کہ اس ملک میں اسلامی آئین ہوگا۔ حال یہ ہے کہ مذہب کو کچھ شدت پسند اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ فرقہ واریت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اشتعال انگیز تقاریر و واقعات ہو رہے ہیں مگر ریاست، قانون نافذ کرنے والے ادارے چپ کر کے بیٹھے ہیں۔

اس ملک میں جس قدر تعلیم کو اہمیت دی گئی اس کی مثال نہیں ملتی۔ ابھی بھی پاکستان کے ڈھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے۔ سب سے کم بجٹ تعلیم کا ہے۔ تعلیم کو کوئی فروغ نہیں دیا جا رہا۔ کچھ علاقوں میں وڈیرے اور سردار تعلیم عام نہیں ہونے دے رہے۔ بے چارے بچوں کو جن کے ہاتھ میں قلم ہونا چاہیے ان کے ہاتھ میں اوزار ہیں۔ یہ تو قائد نے اس ملک کے بچوں کے لئے نہیں سوچا تھا۔

کشمیر کو قائد نے شہ رگ کہا تھا مگر جس طرح شہ رگ کے لئے ہماری پالیسی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہم شہ رگ گنوا چکے ہیں۔ قائد دونوں حصے میں برابری کے قائل تھے۔ مگر جس طرح کا سلوک ان سے رکھا گیا۔ ان کا معاشی استحصال کیا گیا۔ ان کو ترقی کے مواقع نہیں دیے گئے اور جب انہیں تعصب کی نگاہ سے دیکھا جانے لگے تو وہ پھر مجبور ہو گئے اور ملک دو لخت ہو گیا۔

فلسطین کے بارے میں قائد اعظم نے کہا تھا کہ ہم اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کریں گے جب تک ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں نا لایا جائے اور جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو۔ مگر یہاں کئی افراد ذہن سازی کر رہے ہیں کہ ہمیں اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے

حقوق نسواں کے قائد بڑے حامی تھے۔ وہ خواتین کی برابری کے قائل تھے مگر اب میں کس منہ سے یہ بتاؤں کہ یہاں پر کس طرح عورتوں کے ساتھ سلوک رکھا جاتا ہے۔ یہاں پر عورت کو موٹروے پر اس کے بچوں کے سامنے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اور اوپر سے افسر عورت کو قصوروار ٹھراتا ہے۔ یہاں خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ خواتین صحافی کے خلاف گندی گالیاں اور غلیظ زبان استعمال کی جاتی ہے۔ خواتین کو کبھی غیرت کے نام پر یا ویسے ہی قتل کر دیا جاتا ہے۔ اور عورت کو انسان نہیں ایک جسم سمجھا جاتا ہے۔

اس ملک میں قانون و انصاف کو لے لیں۔ جب تک کوئی شخص بے گناہ ثابت ہوتا ہے تب تک وہ پھانسی کے پھندے پر لٹک جاتا ہے لوگوں کو حبس بے جا میں رکھا جاتا ہے۔ بلوچوں اور پشتونون کو خوامخواہ قتل کر دیا جاتا ہے یا انہیں زبردستی اغوا کر لیا جاتا ہے اور کئی برس بعد بھی وہ لاپتہ ہیں۔ یہاں پر انصاف بکتا ہے۔ امیر مجرم ہو تو باعزت بری ہو جاتا ہے اور ایک غریب محنت کش ہو تو وہ ناجائز قید کاٹنے پر مجبور ہے۔

اس ملک نے کیا ترقی کی ہے۔ جب بھی ہم ترقی کرنے لگتے ہیں ہمارے اندرونی عناصر بیرونی عناصر سے مل کر اس ملک کو ترقی کی پٹری سے اتار دیتے ہیں۔ یہاں پر بولنے کی آزادی نہیں ہے۔ یہاں پر صحافت آزاد نہیں ہے۔ اگر آپ یہاں جرنیل سے سوال پوچھ لیں تو ملکی سلامتی خطرے میں آجاتی ہے۔ اب بندہ کیا کہے قائد سے کہ آپ کا ملک یہ ترقی کر رہا ہے۔

شہر قائد کو دیکھ لیں۔ قائد کے شہر کا کوئی والی وارث نہیں۔ شہر مکمل تباہ ہو چکا ہے۔ بارشوں نے شہر کو آفت زدہ بنا دیا ہے۔ ابھی بھی کئی علاقوں میں پانی جمع ہے۔ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر ہیں۔ پینے کے لئے پانی نہیں ہے۔ پہلے شہر میں امن و امان کا مسئلہ تھا۔ سارے ایک دوسرے پر الزام لگا کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں اور کراچی کے مکینوں کا کوئی پرسان حل نہیں۔

اس ملک میں بہت سے سیاستدان کہتے ہیں کہ ہم قائد کا پاکستان بنائیں گے مگر آپ نے کیا قائد کے افکار و سوچ کا مطالعہ کیا ہے؟ قائد تو میرٹ کے حامی تھے۔ کتنا میرٹ ہے اس ملک میں؟ قائد نے کہا تھا کہ فیصلہ لینے کے بعد ڈٹ جاؤ مگر یہاں تو فیصلہ لینے کے بعد یوٹرن لے لیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یوٹرن لینا عظیم لیڈر کا طرہ امتیاز ہے۔ اگر کوئی آئینی و جمہوری بالادستی کی بات کرے تو اسے ملک دشمن، غدار اور را کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔

قوم نے بھی قائد کے لئے کچھ نہیں کیا۔ بلکہ جس نے قائد کی سوچ کی مشعل لے کر آگے بڑھنے کی کوشش کی تو یا اسے کافر، غدار، سیکولر اور لبرل کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف بولنے والوں کو ڈرایا یا دھمکایا جاتا ہے۔ حقوق نسواں کی بات کرنے والوں کو خواجہ سرا سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ خواجہ سراوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔

قائد اعظم نے کہا تھا کہ نوجوان اس ملک کے مستقبل کے معمار ہیں۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم تعلیم حاصل کریں، ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں۔ آئین و قانون پر عمل کریں اور اس کی بالادستی کو یقینی بنائیں۔ معاشرے میں جمہوری اقدار کی حفاظت کرے۔ معاشرے سے جرائم کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اپنے آپ کو پب جی اور ٹک ٹاک میں مصروف نا رکھیں۔ اس معاشرے میں شدت پسندی کو ختم کرنے میں کردار ادا کریں اور دوسرے کی بات اور رائے سننے کا حوصلہ و برداشت پیدا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).