فرمان اترا ہے کہ خانہ خدا پر تمام مسلمانوں کا حق نہیں


\"hafsa-noor\"بنیادی طور پر تمام مذاہب امن و آشتی کے داعی ہیں جو کہ اپنےاپنے ادوار میں معاشرتی ناہمواریوں کو ختم کرنے کے لئے وجود میں آئے، اسلام کی آمد کے بعد سلسلہ نبوت ختم ہوا، فیصلہ ہوا کہ اب نبی نہیں آئیں گے، اب انسانوں کو ہی انسانوں کا درد بانٹنا ہوگا

وہ درد کسی ذہنی، شعوری یا پھر جسمانی بیماری کا ہی کیوں نہ ہو۔ خدا نے ہدایت پہنچا دی اور نبوت کے دروازے کو ہمیشہ کے لئے بند کردیا۔ اب یہاں کوئی موسٰی اپنا عصا مار کر حالات کو ٹھیک کرنے نہیں آئے گا۔

اسلام وہ واحد مذہب ہے کہ جس کے نام میں بھی سلامتی کا درس موجود ہے، یہ بات الگ ہے کہ اسلام پہ قابض جنونی ملاوں نے جو سلوک مذہب کی اساس کے ساتھ کیا، وہی انسانیت کے ساتھ بھی روا رکھے ہوئے ہیں۔

حالیہ دنوں، سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز وائرل ہو رہی تھیں جن سے اپنے پاکستانی ہونے پر فخر کم اور ذلت زیادہ محسوس ہو رہی تھی ان ویڈیوز میں سیالکوٹ کے ججا بٹ کا خواجہ سرا پہ بے انتہا ظلم اور ستم بالائے ستم ظلم کی عکس بندی دیکھ کر ایک لمحے کو یوں لگا جیسے ججا بٹ ہی ہمارے معاشرے کی اصلی تصویر ہے۔

ججا بٹ ایک سوچ کا نام ہے اور وہ پیٹھ صرف خواجہ سرا کی نہیں تھی جس نے ہر طرح کی اذیت برداشت کی، سوائے چیخوں کے اس بدنصیب کے پاس اور کچھ چارہ نہ تھا، وہ پیٹھ معاشرے میں ہر مظلوم کی حقیقی تصویر ہے۔ ابھی دماغ سوچ کے انہی زاویوں میں پھنسا تھا، دل خود کو ان خیالوں سے بہلانے لگا کہ چلو ہم انسان ان خواجہ سراؤں پر ظلم کرتے ہیں، ضرور خدا ان کے ساتھ انصاف کرے گا

معاشرہ جن کو انصاف نہ دے سکے خدا ان کا ساتھ ضرور دیتا ہے۔ مگر کیا کیجئے۔۔۔ نقارہ بجا اور خدا کے گھر میں صدا لگائی گئی۔۔۔۔خواجہ سرا حاضر مت ہوں۔۔۔۔یہ صدا سن کر پہلے تو ایسا لگا کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا، بھلا خدا کے گھر سے کوئی کسی کو کیوں روکے گا۔ ضرور افواہ ہو گی۔۔۔ کسی جاہل نے ججا بٹ جیسی ذہنیت کو فروغ دینے کے لئےایسا بیان داغا ہوگا۔

یہ باتیں، جھوٹی باتیں ہیں، یہ باتیں لوگوں نے پھیلائی ہیں

نہیں نہیں۔۔۔ یہ ضرور کوئی سازش ہو گی۔ مگر ۔۔۔۔ بات سچ تھی، بالکل ویسے ہی سچ تھی جیسے عورت پر ہلکا پھلکا تشدد والا نقارہ سچ تھا۔

جب اس بات کی سچائی کی مہر ثبت ہوگئی تو بہت سے سوال میرے ذہن میں گردش کرنے لگے اور میری روح کو زخمی کرتے چلے گئے۔ سب سے اول تو یہ کہ قران پاک میں اللہ تعالٰی نے تین قسمیں اٹھا کر انسانیت کو یقین دلایا کہ میں نے انسان کو سب سے اعلیٰ اور خوبصورت بنایا ہے۔ خدا اگر یونہی کہہ دیتا تو انسان کو اعتبار ہوتا، مگر خدا کو بھی یقین تھا کہ کچھ جنونی جاہل اپنے سوا باقی سب کو بے ہودہ اور کم تر سمجھیں گے۔ اسی لئے اللہ نے زیتون، طورسینا پہاڑ اور امن والے شہر (مکہ) کی قسم کھا کر انسانیت کے اعلٰی اور خوبصورت ہونے کا یقین دلایا۔ خدا نے جب اس حسن کے اس اعلیٰ درجے کا ذکر کیا تو کسی خاص جنس کا ذکر نہیں کیا بلکہ صرف انسان کا لفظ استعمال کیا۔۔

ویسے تو ججا بٹ اور آل سعود اپنے آپ کو انسانوں میں بھی شاید اعلیٰ گردانتے ہیں۔

میرے ذہن میں سوال آیا کہ خواجہ سرا بھی تو انسان ہیں اور یقیناََ خدا نے ان کے اعلیٰ اور حسین ہونے کی بھی قسم کھائی ہو گی۔ مگر ہمارا منافقت پر کمر بستہ  نام نہاد \”اسلامی\” معاشرہ کیوں انہیں انسانوں کی صف میں شمار کرتے ہوئے بھی گھن محسوس کرتا ہے۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ حج تو یکجہتی کی عظیم مثال ہے۔ جہاں، رنگ، نسل، فرقہ، قد و قامت، جسامت اور جنس کے امتیاز کے بغیر انسان اپنے خدا کے حضور سربسجود ہوتے ہیں۔ اور اگر ایک جنس کو سعودی عرب والے سرے سے مذہبی فریضے میں شمولیت کی دعوت ہی نہ دیں تو کیا یہ اس یکجہتی پر سوالیہ نشان نہیں ہو گا؟

تیسرا یہ کہ خدا نے خواجہ سراؤں کو پیدا کیا، زندگی دی اور اپنے گھر میں بلایا بھی۔۔۔۔ تو کیا جو خواجہ سرائوں کو روک رہے ہیں کہیں وہ امرخداوندی کی تضحیک تو نہیں کر رہے؟ کہیں خدا کے بیانئیے پر قبضہ جمانے کے لئے انسانیت کی ایک جنس کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش تو نہیں؟

چوتھا یہ کہ اگر خواجہ سراؤں کا اپنا ملک ہوتا، نہایت امیر۔۔۔۔امریکہ کو ہی لیجئے۔۔۔۔ اگر امریکہ خواجہ سراؤں کا ملک ہوتا تو کیا سعودی عرب کی جرات تھی کہ \”کوئی امریکی حج یا عمرہ میں شرکت کی جرات نہ کرے\” کا حکم صادر کرتا

پانچواں اور آخری سوال کچھ عجیب ہے۔ جب بھی دو مردوں کو لڑتے دیکھتی ہوں تو عموماََ یہ جملہ سنتی ہوں۔۔۔۔ مرد کا بچہ ہے تو سامنے آ۔۔۔ تم مرد نہیں ہو۔۔۔۔ خواجہ سرا ہو۔۔۔۔ اس سے معلوم ہوا کہ خواجہ سرا بے ضرر ہوتے ہیں۔ اور اگر خواجہ سرا بے ضرر ہوتے ہیں تو سعودی عرب کو خواجہ سراؤں سے کیا خطرہ؟ \”

اب سعودی عرب کو یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ مرد کا بچہ ہے تو خواجہ سرائوں سے پابندی ہٹا\”۔

ان سوالوں کے بعد ذہن اس نتیجے پر پہنچا کہ معاملہ صرف جہالت کو بچانے کے حربوں کا ہے۔ جیسے چراغ بجھنے سے پہلے بھڑکتا ہے اسی طرح جہالت ختم ہونے سے پہلے پھڑپھڑاتی ہے۔ اسلام کے تمام خودساختہ شارحین کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور جہالت سے لاتعلقی کر کے سائنسی بنیادوں پر انسانی رویوں کو استوار کرنا ہوگا

دنیا کے تمام مذاہب کے ماننے والے انسانوں کی معاشرتی بقا کے لئے یہ بہتر ہوگا کہ وہ مذہب کو جنونیوں کی ملکیت نہ سمجھیں اور اعتدال پسند اجتماعی یا اجتہادی شعور کے استعمال سے ہر جہالت کا مقابلہ کرتے ہوئے آنے والی نسلوں کے لئے بہتر زندگی کو یقینی بنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments