ملائشین بورنیو کے جنگلوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی


میرا تعلق اس نسل سے ہے جس کو امتحان میں کامیابی پر 10 روپے ملتے جس سے وہ 3 ٹارزن 4 عمرو عیار کی زنبیل کی کہانیاں اور باقی پیسے کی مونگ پھلی خرید کر شام کا انتظار کرتی، کیونکہ دن مین کھیل کود کی مصروفیات وجہ سے کہانی پڑھنے کے لئے فرصت نہیں ملتی تھی۔ جنگل کا تصور ہماری حرکتوں سے جڑا ہوتا تھا جب ہمیں اپنی حرکتوں کی وجہ سے کبھی کبھی ”جنگلی“ ہونے کا خطاب ملتا۔

کچھ انہی تصورات کے ساتھ میں 2009 میں پہلی بار بورنیو کے جنگلوں میں اپنے یونیورسٹی کے ساتھیوں کے ساتھ اترا۔ ہماری منزل لانگ لامائی کا گاوٴں تھا جو کہ پینان قبائل کی آبادی پر مشتمل ہے۔ پینان کو بیسویں صدی کے آخری جنگلی خانہ بدوش بھی کہا جاتا ہے۔ ہماری یونیورسٹی پچھلے تین سالوں سے اس گاوٴں میں مقامی آبادی کے ساتھ مل کر انٹرنیٹ کی سہولیات دینے کے لئے کوشاں تھی اور اس سارے پراجیکٹ کو یونیوسٹی کے سوشل سائنسز کے پروفیسرز کی نگرانی میں سر انجام دیا جا رہا تھا جب کہ ٹیم میں کمپیوٹر سائنسز، انجینئرنگ، اکانومی اینڈ بزنس اور ایجوکیشن فیکلٹی کے ممبران بھی شامل تھے۔

لانگ لامائی سو گھرانوں پر مشتمل ایک خوبصورت گاوٴں ہے۔ 1950 میں آباد اس گاوٴں تک رسائی کے لئے پہلے نزدیکی شہر سے 8 گھنٹے کی ڈرائیو یا ڈیڑھ گھنٹے کی ٹوئن آٹر فلائٹ لینی پڑتی ہے اور اس کے بعد دو گھنٹے ایک چھوٹی سی کشتی پر سفر کرنا پڑتا ہے تب جا کے آپ اس گاوٴں پہنچتے ہیں۔

ابتدا میں گاوٴں کی ساری ضروریات اردگرد پھیلے جنگل سے پوری ہو جایا کرتی تھیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی ضروریات اور حکومت کی پالیسیوں میں بھی تبدیلی آنے لگی۔ بچوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد شہر کے اسکولوں میں جانا شروع کر دیا اور شہری خوراک، علاج معالجے اور ایک جگہ آبادکاری کی وجہ سے لوگوں کا نزدیکی شہروں میں آنا جانا بڑھنے لگا تو گاوٴں کی مقامی آبادی کو نقد آمدن کی ضرورت بھی پڑنے لگی۔ انٹرنیٹ تک رسائی کا یہ پراجیکٹ لوگوں کی زندگی میں اسی بدلاؤ میں مدد دینے کے حکومت کی ایک کاوش تھی۔

پینان اپنے اجتماعی فیصلے مکمل اتفاق رائے سے کرتے ہیں تو پراجیکٹ کے پہلے دو سال مقامی آبادی کے ساتھ مل بیٹھ کراس پراجیکٹ کی ضرورت اور افادیت پر تفصیلاً سوچ و بچار کرنے میں گزر گئے یہ ایک اہم مرحلہ تھا جس کی انٹرنیشنل ریسرچ کمیونٹی نے اپنے بعد کی تحقیق میں بہت پذیرائی کی ہے۔ اس کے بعد ٹیکنالوجی لانے اور کمیونٹی ٹریننگ کا مرحلہ شروع ہوا جس کو انجنیئرز اور کمپیوٹر سائنٹسٹ نے آگے بڑھایا۔ یہ مرحلہ اگلے دو سال تک چلا اور اس کے بعد پراجیکٹ کا تیسرا مرحلہ شروع ہوا یہ مرحلہ اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ انٹرنیٹ اور آئی ٹی اسکلز کے ذریعے مقامی آبادی اپنے موجودہ وسائل سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے اور اپنی مشکلات کا حل خود سے نکال سکے۔

اس میں صحت و تعلیم تک رسائی اور ٹورازم اور مقامی دستکاری کو فروغ دینا اولین ترجیحات تھیں۔ اس مرحلے کو یونیورسٹی کی اکانومی اینڈ بزنس، ڈیزائن، ایجوکیشن اور میڈیکل فیکلٹی کی ٹیم نے مقامی آبادی کے ساتھ مل کر آگے بڑھایا۔ چونکہ عام طور پر صرف انٹرنیٹ تک رسائی ہی کو ہر مرض کی دوا سمجھا جاتا ہے سو ہمارے لئے یہ تیسرا مرحلہ بہت اہم تھا۔ ہماری یونیورسٹی کی ٹیم بورنیو کے مختلف قبائل کے ساتھ اس طرح کے پراجیکٹس کو پایا تکمیل تک پہنچانے میں کافی وسیع تجربہ رکھتی ہے تو ہمیں یہ احساس تھا کہ ہمیں انٹرنیٹ کی رسائی کے بعد کے مراحل میں بھی مقامی آبادی کے ساتھ مل کر کام کرنا پڑے گا۔ اس مرحلے کی وضاحت چند مثالوں سے دینا ضروری ہے۔

پینان کا جنگل کے ساتھ رشتہ بڑا عجیب ہے۔ یہ قبیلہ جنگل کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ ایک مقامی بزرگ نے میرے استفسار پر مجھے بتایا کہ ”جنگل مجھ سے ہے اور میں جنگل سے ہوں“ ۔ ایک بار اس تعلق کو سمجھانے کے لئے ایک مقامی نوجوان لڑکی نے سادہ سی مثال پیش کی۔ اس نے کہا کہ ”جنگل ہمارے لئے ایسا ہی ہے جیسا تمھارے لئے سپر مارکیٹ؛ صرف فرق یہ ہے کہ تم پیسے دے کر مچھلی، سبزی اور دوائی خریدتے ہو جب کہ ہمیں یہ مفت میں جنگل اور دریا سے تازہ ملتی ہیں۔ تمہیں کبھی کبھار باسی پر بھی گزارہ کرنا پڑتا ہے“ ۔

پینان قبیلے میں کسی ذی روح کی ملکیت کا کوئی تصور نہیں اور زمین، جنگل، درخت، پرندے اور دریا کو ذی روح تصور کیا جاتا ہے۔ سو پینان درخت کا رکھوالا تو بن سکتا ہے لیکن اس کا مالک نہیں۔ اور جب تک وہ درخت کی رکھوالی اور خیال رکھتا ہے تب تک وہ درخت کا پھل استعمال کر سکتا ہے۔ پینان اپنے بچوں کو چھوٹی ہی عمر سے جنگل لے جاتے ہیں اور ان کو جنگل کی زندگی کا عادی بناتے ہیں ان کو شکار کے گر سکھاتے ہیں اور مختلف جنگلی جڑی بوٹیوں کا استعمال بتاتے ہیں اس سفر کو پینان ”تو رو“ کا نام دیتے ہیں۔ اپنے پراجیکٹ کے تیسرے مرحلے میں مقامی آبادی کے تعاون سے ہم نے موبائل ڈیوائسز کے لئے ایک ایسا سسٹم بنایا جس کو پینان بچے اور فیملی اپنے ساتھ تو رو پر لے جا سکیں اور جہاں ان کو ضرورت ہو تو ان جڑی بوٹیوں، پودوں اور درختوں سے متعلق ریکارڈ کو محفوظ بھی کر سکیں۔

اس پراجیکٹ میں ہم نے دو باتوں کا خاص خیال رکھا ایک تو آئی ٹی سسٹم تو رو کے سفر میں مددگار کی حیثیت سے استعمال ہو نا کہ متبادل کی حیثیت سے اور دوسرا اس کے ڈیزائن اور ڈیویلپمنٹ میں مقامی افراد کی شمولیت رہنما اور ساتھی کی حیثیت سے ہو نا کہ صرف صارف کی حیثیت سے۔ جہاں اس پراجیکٹ نے کئی بین الاقوامی ایوارڈز جیتے وہی مقامی آبادی کے لئے اس آئی ٹی سسٹم کے ذریعے جمع کیے ہوئے ڈیٹا سے سیاحوں کے لئے ایسے ٹور روٹس مرتب کرنا آسان ہوا جس میں سیاح کی مرضی سے دلچسپی کے مقامات شامل کیے جا سکتے ہیں۔

دوسرا پراجیکٹ ”اورو“ ، جو کہ ایک منفرد زبان ہے، کی ڈیجیٹائزیشن کا ہے۔ پینان جنگل میں گروپس کی شکل میں سفر کرتے ہیں اور راستے میں چلتے چلتے اگر پیروی کرنے والے گروپس کے لئے کوئی پیغام چھوڑنا پڑے تو اس کے لئے درخت کے پتوں، ٹہنیوں اور چھوٹے پودوں کا استعمال کرتے ہیں۔ پچھلے آٹھ سالوں سے اس زبان کی ڈیجیٹائزیشن میری اولین ترجیحات میں سے ہے اور اس وقت تک ہم اس زبان کے 60 کے قریب ایسے علامات کو جمع کر چکے ہیں جس کو سادہ زبان میں آپ اور و زبان کے حروف تہجی کہہ سکتے ہیں اس کے علاوہ ہم اس پر کئی ریسرچ آرٹیکلز اور سافٹ ویئرز بھی بنا چکے ہیں۔

اس کی بین الاقوامی مقبولیت کی وجہ سے نا صرف مقامی نوجوان اس زبان کو سیکھ رہے ہیں بلکہ لانگ لامائی کی پینان کمیونٹی نے اس زبان کوایک ٹور پیکج کی صورت میں تشکیل دیا ہے اور اسے سیاحوں کو بھی سکھا رہیں ہیں۔ 2018 میں بی بی سی کی ٹیم نے لانگ لامائی میں اس اورو پر ڈاکو میں ٹری بنائی جو کہ فروری 2020 میں ریلیز کی گئی۔

انٹرنیٹ تک رسائی کی وجہ سے لانگ لامائی کی مقامی آبادی کے لئے ٹورازم پروموٹ کرنا آسان ہوا لیکن ساتھ میں ان کو یہ بھی احساس ہے کہ ٹورازم کی وجہ سے ان کو نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کے لئے وہ آج بھی ”کمیونٹی میں اتفاق رائے“ اور کنٹرول ٹورازم کی سٹریٹیجی استعمال کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).